امریکی ٹی وی چینل سی این این پر صدر جوبائیڈن کی پریس کانفرنس لائیو کاسٹ ہورہی تھی اور مجھے ماضی کا ایک واقعہ یاد آ رہا تھا‘ بزرگ صحافی ضیاء الاسلام انصاری مرحوم نے 1980ء کے اوائل میں فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دورہ امریکہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی صدر کی مصروفیات میں کانگریس کی امور خارجہ کمیٹی کے ارکان سے ملاقات اور مکالمے کا پروگرام بھی شامل تھا‘ وفد کے ارکان صدر کے کمرے میں جمع ہوئے تو پتہ چلا کہ وہ ابھی تیار ہورہے ہیں‘ آغا شاہی مرحوم وزیر خارجہ تھے‘ وقت کے پابند اور سفارتی نزاکتوں سے آگاہ‘ انہیں اندیشہ یہ تھا کہ اگر ہم میٹنگ میں تاخیر سے پہنچے تو سبکی ہوگی‘ پاکستان میں فوج کی حکمرانی سے الرجک جوبائیڈن امور خارجہ کمیٹی کے صدر ہیں اور وہ دیگر ڈیموکریٹک ارکان کی طرح جنرل ضیاء الحق کو آمر مطلق سمجھتے ہیں‘ تاخیر سے پہنچنے پر وہ منفی ردعمل کا شکار ہوں گے اور میٹنگ تلخی پراختتام پذیر ہو سکتی ہے‘ آغا شاہی نے صدر کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا تو موصوف بولے ’’آغا صاحب فکر نہ کریں! اللہ خیر کرے گا‘‘۔ صدارتی قافلہ مقررہ مقام پر دس پندرہ منٹ تاخیر سے پہنچا‘ جوبائیڈن نے ناک بھوں چڑھائی مگر تاخیر کا شکوہ نہ کیا۔ صدر نے پہنچتے ہی رسمی معذرت کی اور صدر مجلس و شرکاء سے مزید پانچ سات منٹ طلب کئے کہ نماز کا وقت ہو چکا ہے اور وہ گفتگو سے قبل دینی فریضے کی ادائیگی ضروری سمجھتے ہیں۔ ضیاء الاسلام انصاری صاحب بتایا کرتے تھے کہ فوجی وردی میں ملبوس چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے نماز پورے خشوع و خضوع اور سنتوں و نوافل کے ساتھ ادا کی اور کرسی پر بیٹھتے ہی شرکاء سے کہا ’’ پاکستان کا ایک فوجی حکمران جس نے آپ کے نقطہ نظر سے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا ہے حاضر ہے چاہیں تو آپ مجھے چند منٹ اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی اجازت دیں بصورت دیگر براہ راست سوال و جواب سے نشست کا آغاز کیا جا سکتا ہے‘‘۔ جنرل ضیاء الحق کے اس طرز تخاطب کی شاید کسی کو توقع نہ تھی لٰہذا تنائو کا ماحول خوشگوار حیرت میں بدل گیا اور جب نشست کے اختتام پر وفد روانہ ہوا تو جوبائیڈن اور دیگر ارکان نے پورچ میں اسے رخصت کیا‘ آمد پر کسی نے پورچ تو درکنار کمرے کے دروازے پر بھی خوش آمدید کہنے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی‘ گزشتہ روز کی پریس کانفرنس میں بھی جوبائیڈن نے میڈیا اور دنیا کو اپنے ’’ریلیکسڈ موڈ‘‘ سے حیران کیا‘ بیس سالہ لڑائی کے بعد انہوں نے دشمن کے خلاف کوئی نفرت انگیز بات کی نہ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا دعویٰ کیا۔ اعتراف کیا کہ طالبان 2001ء کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہیں‘ امریکی صدر نے افغان حکومت سے کہا کہ وہ طالبان سے معاہدہ کرے‘ ایک صحافی نے جب یہ کہا کہ ’’کیا افغانستان پر طالبان کا قبضہ ناگزیر ہے‘‘ تو امریکی صدر نے پوچھا ’’کیا آپ یہ سوال کرنے میں سنجیدہ ہیں‘‘ پھر کہا ’’بالکل نہیں‘‘۔ مصالحانہ امریکی رویے کا سبب ایک تو افغانستان سے بحفاظت واپسی ہے کہ بقول بائیڈن امریکی فوجیوں کو سفارت خانے کی چھت سے ریسکیو نہیں کرنا پڑا جیساکہ شمالی ویت نام میں ہوا۔ دوسری اور اہم وجہ طالبان کی سفارت کاری ہے‘ طالبان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد اپنے دیرینہ سیاسی‘ نسلی و مسلکی حریف ایران پہنچا اور افغان حکومت کے وفد سے وزیر خارجہ جواد ظریف کی موجودگی میں ملاقات کی‘ ملاقات میں مذاکرات جاری رکھنے کے علاوہ افغانستان میں نظام شریعت کے نفاذ پر اتفاق رائے کیا گیا۔ ایک وفد نے ماسکو میں روسی حکام سے بات چیت کی اور دو ٹوک اعلان کردیا کہ وہ کابل پر فوجی قبضے کا ارادہ نہیں رکھتے‘ گویا طالبان امریکی انخلا کے بعد اپنے ملک کو نسلی‘ لسانی‘ مسلکی اور گروہی انتشار سے بچانے کے لیے سرگرم عمل ہیں اور مذاکرات کے ذریعے انتقال اقتدار کے خواہش مند‘ اشرف غنی سرنڈر نہ کرنے اور آخری وقت تک لڑنے کی بڑھکیں مار رہے ہیں مگر ہر روز دو تین اضلاع پر بآسانی قبضہ کرنے والے طالبان مذاکرات‘ مصالحت اور امن کے علمبردار‘ یہ افغان طالبان کے کردار کا وہ رخ ہے جس سے کئی سال تک درپردہ اور علانیہ مذاکرات کرنے والے امریکی حکمران کماحقہ آگاہ ہیں جبکہ افغانستان میں داعش کی ممکنہ موجودگی اور پناہ گاہوں سے خائف امریکہ اور یورپ کو افغان طالبان نسبتاً زیادہ معاملہ فہم اور قابل قبول نظر آتے ہیں‘ حسن اتفاق ہے کہ پاکستان میں کرسی اقتدار پر امریکہ کا کوئی دائمی نیاز مند اور جرأت رندانہ سے عاری فوجی یا سیاسی حکمران نہیں جو ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہو جائے یا اقتدار کی مستی میں جُبّہ‘ خرقہ‘ کرتا ٹوپی سب انعام کرے۔ صرف امریکی اور یورپی عمائدین پر موقوف نہیں دنیا بھر میں عزت اس فرد‘ گروہ یا قوم کی ہوتی ہے جو اپنی خودی اور خودداری کو قدم قدم پر ملحوظ رکھتے اور عزت نفس و خودمختاری پر سمجھوتے نہیں کرتے۔ چند کٹھ پتلیوں اور شکم پروروں کے سوا بحیثیت مجموعی افغان عوام نے غیر ملکی مداخلت کو رد کیا۔ ستر پچھتر ہزار گوریلوں کا ساتھ دیا جو جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس امریکہ اور نیٹو کی ڈیڑھ لاکھ فوج اور مقامی تین لاکھ فوج کے خلاف نبرد آزما رہے‘ کامیابی نے قدم چومے اور امریکی صدر طالبان کو 2001ء سے زیادہ مضبوط قرار دے رہا ہے‘ فانی بدایونی نے برسوں قبل کہا تھا ؎ بقا کی فکر کرو خود ہی زندگی کے لیے زمانہ کچھ نہیں کرتا کبھی کسی کے لیے جوبائیڈن کی طرف سے انخلا کے حتمی اعلان کے بعد غیرت مند‘ خود دار اور خود مختار افغان عوام بآسانی کہہ سکتے ہیں ؎ اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا پاکستان بھی پورے قد سے کھڑا رہا اور دل پر شکم کے تقاضے غالب نہ آئے تو آج عمران خان کے ساتھ فون پر بات کرنے سے گریزاں جوبائیڈن وائٹ ہائوس میںاس کا استقبال کرے گا اور قومی عزت و وقار کی مظہر پاکستانی افغان پالیسی کی تعریف و توصیف بھی ؎ اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاج ملوک اور پہچانے تو ہیں تیرے گدادارا و جم دل کی آزادی شہنشاہی‘ شکم سامان موت فیصلہ تیرا‘ ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم