کہتے ہیں آج کل میڈیا کو کڑی سینسر شپ کا سامنا ہے ۔ کیا واقعی؟ 2006 سے میں نے اپنے پروفیشنل کیرئیر کا آغاز کیا۔ چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ مارچ 2007 آ گیااور پرویز مشرف کااُس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کے ساتھ جھگڑا ہو گیا۔ ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجا گیا تو وکلاء تحریک شروع ہو گئی، لال مسجد واقعے کے بعد عوام کا غم و غصہ بڑھا تو وہ بھی وکلا تحریک کا حصہ بن گئے ۔سڑکوں پر پرویز مشرف کے خلاف نعرے لگنے لگے ، فیض کی نظم’’ہم دیکھیں گے‘‘ جلسوں میں سنائی اور بجائی جانے لگی۔ پرویز مشرف کے خلاف ملک میں ماحول کیا بنا میڈیا بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنے لگا۔ مجھے اس وقت ایک ٹیلی ویژن کا حصہ بنے زیادہ عرصہ نہ ہوا تھا، صحافت بھی زیادہ نہ آتی تھی لیکن کیرئیر کا آغاز ہونے کے باعث جوش و جذبہ خوب تھا ، اپنے چینل کی مینجمنٹ کے ساتھ ایک آئیڈیا شیئر کیا اور ’’ کل سے کل تک‘‘ کے نام سے ایک ہفتہ وار پروگرام شروع کر دیا ۔ اس پروگرام کا فارمیٹ یہ تھا کہ ماضی میں آنے والے انقلابات کا وکلا تحریک کے ساتھ موازنہ کیا جائے۔ لہذا تاریخ کے صفحات سے ڈھونڈ ڈھونڈکے ویسے واقعات نکالے جیسے اب وکلا تحریک کے دوران پیش آ رہے تھے ۔ پہلے پروگرام میں انقلاب ایران کا وکلا تحریک سے موازنہ کیا گیا، بتایا گیا جیسے انقلاب ایران کے دوران شہنشاہ نے مظاہرین کو آگ لگا کر جلا دیا تھا ویسے ہی وکلا پر پیٹرول بم پھینک دیا گیا ہے ، پروگرام میں بتایا گیا کہ جیسے شہنشاہ ایران مظاہرین پر مظالم ڈھانے کے بعد محل میں جشن مناتا رہا ویسے ہی پرویز مشرف بھی12 مئی کی خون ریزی کے باوجود مکے لہرا رہا ہے ۔ اگلے پروگرام میں وکلا تحریک کا موازنہ انقلاب روس سے کرکے ثابت کیا کہ یہ ویسی ہی تحریک ہے جیسی زارِ روس کے خاتمے کے لیے بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں عوام نے چلائی تھی، تیسرے پروگرام میں ثابت کیا کہ یہ انقلاب فرانس جیسا کوئی انقلاب ہے ۔ چوتھے پروگرام میں تو میں نے پرویز مشرف کا موازنہ ہٹلر سے کر دیا اور دونوں شخصیات کی مشترک باتوں کا ایک چارٹ بنا کے ٹی وی پر چلا دیا۔ ناتجربہ کاری کے باعث واضح طور پر اس پروگرام میں مبالغہ آرائی حد سے زیادہ تھی لیکن جذباتی عوام نے اسے اپنے من چاہے پروگرام کی طرح دیکھا اور وہ پروگرام انقلابوں والے پروگرام کے نام سے مشہور ہو گیا۔ پرویز مشرف کی طرف سے اس پروگرام پررد عمل تو آیا لیکن اتنا نہیں کہ پروگرام بند کرنا پڑا ہو۔لیکن پھر بھی ہمیں ہلکا پھلکا رد عمل بھی ناگوار گزرا کیوں کہ اس وقت ہمارے وہ تمام سینئر صحافی جو نو آموز صحافیوں کے آئیڈیل ہوا کرتے تھے سڑکوں پر میڈیا کی آزادی کے لیے مظاہرے کر رہے تھے اور ہم بھی زور و شور سے اسلام آباد میںہونے والے ان مظاہروں میں شریک ہونے لگے ۔ ہمارے کچے ذہنوں میں یہ سوال بیٹھ گیا کہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف ہماری آواز کو کیوں دبا رہا ہے ۔ اُس وقت میرے ذہن میں خیال یہ تھا کہ ہر قسم کی مبالغہ آرائی کے ساتھ بھی پروگرام کو نشر کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اس پر کسی نے اعتراض اٹھایا بھی کیوں ہے ۔ پھر تھوڑا ہی عرصہ گزرا تو ملک میں ایک نئی حکومت آگئی ، ایم کیو ایم جو بلا شرکت غیرے کراچی اور سندھ کے سیاہ و سفید کی مالک رہی تھی، اسے اپنی حریف پیپلز پارٹی کے ساتھ صوبے میں شریک اقتدار ہونا پڑا۔ تب میں نے اپنی صحافتی زندگی میں اُس بدترین سنسر شپ کا مشاہدہ کیا جو نہ اس سے پہلے دیکھا تھا نہ اس کے بعد۔ الطاف حسین اپنی زندگی کا بے رحم ترین اور بدترین سیاسی کردار نبھا رہے تھے۔ ان کی شان کے خلاف ایک بیان آ جاتا تو احتجاجا لاشیں سڑکوں پر بچھ جاتیں ۔ الطاف حسین کا خوف اس قدر تھا کہ جب کبھی ٹیلی ویژن پر ان کا ٹیلی فونک بیپر کرنا ہوتا (جو انہی کی خواہش پر ہوتا)، ہم اینکرز کو واضح ہدایات ہوتیں کہ ایک سوال جو بھائی نے بتایا ہے وہ ان سے پوچھ کے خاموشی سے سنتے رہیں اور تب تک خاموش رہیں جب تک وہ اپنی بات مکمل کر کے خاموش نہ ہوجائیں ، عام طورپر بھائی ایک سوال کا جواب دینے میں آدھا گھنٹہ لے جاتے ۔جب خاموش ہوتے تو ان کا شکریہ ادا کر دیا جاتا۔ ایک بار ان کا شکریہ ادا کیا جارہا تھا کہ لائن کٹ گئی ، ادارے کی طرف سے فون کر کے ان سے فون کٹ جانے کی معافی مانگی گئی اور پوچھا گیا کیا وہ مزید کچھ کہنا چاہیں گے؟ میں حیران ہوں پرویز مشرف کے خلاف احتجاج کرنے والے میرے سینئرز نے کبھی الطاف حسین کی غلامی سے آزادی کا نعرہ کیوں نہیں لگایا تھا۔ صورتحال یہ تھی کہ ایم کیوایم کا اگر لاہور میں جلسہ ہوتا تو اُن کی انتظامیہ ہر ادارے کے کیمرہ مین انہی کے خرچے پرکراچی سے لاہور بلواتے تا کہ وہ ان کی ہدایات کے مطابق ان خاص اینگلز سے کوریج کریں جس سے لاہور میں شرکا ء کی تعداد زیادہ محسوس ہو۔ لاہور کا کوئی چینل ایم کیو ایم کو یہ کہنے کی جرات نہ رکھتا تھا کہ ہم لاہورسے آپ کے جلسے میں اچھا کیمرہ مین بھیج دیں گے آپ ہمارا کیمرہ مین کراچی سے کیوں بلواتے ہیں۔ یہ سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا کہ الطاف حسین ڈھائی گھنٹے خطاب کریں اور ان کا خطاب کاٹ کر ایک منٹ کی ہیڈلائنز یا اشتہار چلا دیا جائے۔ ٹی وی شو میں سخت سوال کرنے کی اجازت نہ ہوتی۔اگر کوئی چینل بے احتیاطی کا مرتکب ہو جاتا تو اسے اٹھا کرکیبل پر آخر کے نمبروں پہ پھینک دیا جاتا ۔ جس سے اس کا بزنس تباہ ہو جاتا اور بھائی سے معافی تلافی کے سوا کوئی چارہ نہ رہتا ۔ اب میرے جیسے اینکرز کے لیے بھی یہ ممکن نہ رہا کہ وہ الطاف حسین کے خلاف ویسے پروگرام کرنے کا سوچیں بھی جیسے پرویز مشرف کے خلاف دھڑلے سے کر لیا کرتے تھے۔ مجھے حیرت ہے ہمارے سینئرز نے کبھی الطاف حسین کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف آواز کیوں نہ اٹھائی تھی؟ کبھی میڈیا کی آزادی کا مطالبہ کیوں نہ کیا تھا ۔ اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیں کہ کیا آج زیادہ آزادی ہے یا تب تھی ؟ کیا آج سوال اٹھاتے ہوئے زیادہ خوف محسوس ہوتا تھا یا تب ہوتا تھا ؟ آپ کو کیسی آزادی چاہیے؟