یہ پاکستان ا سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے 34 انجینئرز اور سائنسدانوں کی کہانی ہی نہیں ، یہ 34 خاندانوں کی کہانی ہے جنہیں فراموش کردیا گیا ، یہ 34 چولہوں کی کہانی ہے جو بجھا دیے گئے ، یہ ہٹ دھرمی اور بے حسی کی کہانی ہے جس نے پاکستان کے حکمرانوں کی روح کو جکڑ رکھاہے ۔ کل دنیا ایک کاون کے ساتھ کھڑی تھی آج کوئی ان 34 سائنسدانوں کوانسان نہ سہی کاون سمجھ کر ہی ان کی بات سن لے ، شاید کسی کو رحم آ جائے۔ یہ کہانی 2012 سے شروع ہوتی ہے جب وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ماتحت چلنے والے ادارے پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA)میں ایک پروجیکٹ کے لیے کچھ انجینئرزاور سائنسندانوں کو بھرتی کیا گیا ، ابتدائی طور پر یہ پروجیکٹ دو سال کے لیے تھا لیکن پھر اس کی مدت بڑھاکر 7 سال کر دی گئی۔ اس پروجیکٹ کے لیے جن ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں ان کے کنٹریکٹ میں واضح طور پر لکھا تھا کہ پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد تمام افراد کو اسی ادارے میںمستقل طور پر ضم کر دیا جائے گا ، یہ تمام افراد اسی ادارے سے تنخواہ وصول کرتے رہیں گے یعنی وہ PSQCA کا مستقل حصہ بن جائیں گے ۔ کنٹریکٹ میں یہ شرط شائد اس لیے رکھی گئی ہو گی کیونکہ کوالیفائیڈ انجینئرز اور سائنسدان محض دو سال کے ایک پروجیکٹ کا حصہ نہیں بنتے ، اس کی بجائے وہ مستقل نوعیت کے کسی منصوبے کا حصہ رہنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی پروفیشنل گووتھ ہو تی رہے ۔لیکن ہو ا یہ کہ نئی حکومت آنے کے بعد 2018 میں یہ پراجیکٹ بند کر کے دسمبر میں 34 پی ایچ ڈی ڈاکٹرز اورانجینئرز کو گھر بھیج دیا گیا جو ان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ اگلے ہی مہینے جنوری 2019 میں یہ تمام ملازمین پروجیکٹ کا پی سی ون اور کنٹریکٹ لے کر سندھ ہائیکورٹ کے پاس چلے گئے اور عدالت کو صدر پاکستان کا دستخط شدہ وہ پی سی ون اور معاہدہ دکھایا جس کے مطابق پروجیکٹ کے اختتام پر ان کی خدمات کو وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ماتحت چلنے والے ادارے کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے سپرد کر دینا تھا۔نو مہینے تک عدالت میں کیس چلا ۔ 12ستمبر 2019 کو سندھ ہائیکورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا اور وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو حکم دیا کہ اپنے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے ان 34 پروفیشنلز کو ریگولر کیا جائے ۔ اب وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے پاس دو راستے تھے ۔ ایک وہ عدالت کا حکم من و عن تسلیم کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد کرتے یا پھر اس فیصلے کے خلاف اپیل میں چلے جاتے ۔ وزارت نے دونوں میں سے ایک بھی راستہ اختیار نہ کیا اور خاموشی اختیار کر لی ۔ چند ماہ خاموشی سے گزر گئے تو متاثرہ ملازمین جنوری 2020 میں توہین عدالت کا کیس لے کر دوبارہ سندھ ہائیکورٹ کے پاس چلے گئے اور استدعا کی کہ عدالت کے حکم پر عمل نہیں ہوا۔ لہذا توہین عدالت کی کارروائی کی جائے یا معزز عدالت اپنے فیصلے پر عملدرآمد کرائے۔ پاکستان کے 34 سائنسدانوں اور انجینئرز کا کیس دوبارہ عدالت میں چلنا شروع ہوا،تاریخیں پڑنے لگیں، حکومت کی طرف سے تاخیری حربے استعمال ہونے لگے ۔ پی ایچ ڈی ڈاکٹرز اور انجینئرز تاریخ مقرر پر عدالت میں خوار ہوتے رہتے اور فریق مخالف کی لیگل ٹیم روایتی عذر پیش کر کے تاریخ لے لیتی۔وقت گزرتا گیا، یہاں تک کہ اکتوبر آ پہنچا۔9 اکتوبر 2020 کو جسٹس ندیم اختر اور جسٹس عدنان الکریم نے وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سیکرٹری کیپٹن (ر) نسیم نواز کو شو کاز نوٹس جاری کر دیا۔ سیکرٹری نسیم نواز 27 اکتوبر کو عدالت میں پیش ہوئے تو ان کے چاروں شانے چت تھے۔ عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے کا کوئی جواب اور جواز ان کے پاس موجود نہ تھا ۔ عدالت کے رو برو حلفیہ بیان انہوں کے لکھ کر دیا کہ 15 روز کے اندر تمام افراد کی نوکریوں کو بحال کر دیا جائے گا۔ پھر یوں ہوا کہ 15 دن بھی گزر گئے ، 20 دن کے بعد16 نومبر کو سیکرٹری صاحبPSQCA کے ڈائریکٹر لیگل کے ہمراہ عدالت آئے اور عذر پیش کیا کہ ہمارے پاس فی الوقت 16 افراد کی پوسٹیں موجود ہیں ، لہذا 16 افراد کو ہم فوری طور پر بحال کر سکتے ہیں جبکہ باقی افراد کی بحالی میں وقت لگے گا، ان کے لیے پوسٹس پیداکرنی پڑیں گی۔ عدالت نے حکم دیا کہ چلیے اگلے 15 روز کے اندر ان 16 افراد کو تو بحال کریں جبکہ باقیوں کے لیے ضابطے کی کارروائی کا آغاز کر کے رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔ سیکرٹری نسیم نواز اور ڈائریکٹر لیگل عدالت سے متفق ہو کر گھر چلے گئے۔ اس بات کو اب پھر 20 دن گزر چکے ہیں۔ 34 میں سے 16 تو کیا ایک بھی شخص کے بجھے چولہے کو جلایا نہیں جا سکا۔ فواد چودھری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وزیرہونے کے ساتھ ساتھ قانون دان بھی ہیں۔ عدالتوں کے احترام کے بارے میں ان سے زیادہ کون جانتا ہے۔ فواد چودھری ہی ٹی وی ٹاک شوز میں عدالتوں کے نظام میں موجود کمزوریوں کے خاتمے اور نظام انصاف کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیتے رہتے ہیں ۔ لیکن اس کیس میں وہ تمام تاخیری حربے آزمائے جا رہے ہیں جو عدالتی نظام کو مفلوج کرنے کے لیے استعمال میں لائے جا سکتے ہیں۔ 34 متاثرہ افراد کا خیال ہے کہ فواد چودھری نے اب اسے انا کا مسئلہ بنا لیا ہے ، وہ ملازمین کو بحال نہ کرنے پر اَڑ گئے ہیں۔انہوں نے الزام لگایا کہ فواد چودھری اپنے حلقے کے لوگوں کو بھرتی کرنا چاہتے ہیں ۔ میں ان افراد کی بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ تمام افراد بے روزگاری کے باعث نفسیاتی مسائل کا شکار ہو کر ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ میں ان چونتیس افراد کو بتانا چاہتا ہوں کہ فواد چودھری صاحب ایسے ہرگز نہیں ہیں، ہو سکتا ہے وہ مصروفیت کے باعث اس کیس پر توجہ نہ دے پا رہے ہوں۔ کاون کو اس کے حقوق دلانے میں فواد چودھری صاحب نے بھی اپنا کردار ادا کیا ۔ 34 جیتے جاگتے ڈاکٹرز اور انجینئرز کے بچوں کے بھی کچھ حقوق ہیں جو دو سال سے اپنے حصے کی خوشیاں نہیں جی پا رہے ، انہیں فیس ادا نہ کرنے کے باعث اسکول میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ کچھ نہیں تو انہیں کاون سمجھ کر ہی ڈیل کر لیں، آپ کے دل میں پیدا ہونے والا تھوڑا سا رحم 34 خاندانوں کا مستقبل سنوار سکتا ہے ۔ متاثرہ افراد سے میری بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ہمارا ایک پیغام فواد چودھری تک پہنچا دیں ، ’’رحم فواد چودھری صاحب رحم!!‘‘