کیا شیخ مجیب الرحمن پاکستان کے غدار تھے متحدہ پاکستان کے روز اوّل سے توڑنا چاہتے تھے یا پھر 70 کے انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کئے جانے پر مایوس ہو کر علیحدگی کی راہ پر چل نکلے تھے ۔ جنرل صاحبزادہ یعقوب خان کے 3 اور 4 مارچ کے صدر یحییٰ خان کے نام ہنگامی ٹیلی گرام شیخ مجیب رحمن کے سیاسی کردار بارے نئی کہانی سناتی ہیں کہ آخری لمحے تک شیخ مجیب متحدہ پاکستان کے منتخب وزیر اعظم بننا چاہتے تھے وہ آگ بگولا بھاشانی، کیمونسٹوں اور عوامی لیگ کے انتہا پسندوں سے جان چھڑانے کے لئے یحییٰ خان کی فوجی جنتا سے مدد کی التجائیں کر رہے تھے۔لیکن ان کی فریادیں بیکار گئیں اور عقل و دانش کے سارے راستے بند دیکھ کر 5 مارچ 71 کو ایسٹرن کمانڈ کے جنرل صاحبزادہ یعقوب خان بھی مستعفی ہو گئے۔شیخ مجیب رحمن 23 مارچ 1971 کے اعلان بغاوت سے صرف 25 دن پہلے تک جنرل صاحبزادہ یعقوب خان سے درخواست کرتے رہے کہ مولانا بھاشا نی، کیمونسٹوں اور عوامی لیگ کے انتہا پسندوں سے مقابلے کے لئے ان ہاتھ مضبوط کئے جائیں۔شیخ مجیب نے تجویز پیش کی تھی کہ 1962ء کے دستور کے تحت صدارتی حکم کے ذریعے عبوری حکومت قائم کردی جائے کیونکہ دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں تاخیر ہو سکتی ہے اسی طرح مولانا بھاشا نی کی ’’آگن جالو‘‘ آگ لگادو تحریک کا زور توڑ نے کے لئے صدر یحیٰی خان فوری طور پر ڈھاکہ کا دورہ کریں اور 7 مارچ 1971ء کو اپنی تقریر میں ان اقدامات کا اعلان کرکے انتہا پسند عناصر کے عزائم ناکام بنا دیں۔ 4 مارچ 1971ء کے آخری ٹیلی گرام میں بھی صاحبزادہ جنرل یعقوب سیاسی تصفیے پر زور دیتے رہے لیکن جنرل یحییٰ خان نے ڈھاکہ آنے سے صاف انکار کردیا اور 5 مارچ 1971 کو کور کمانڈر جنرل صاحبزادہ یعقوب مستعفی ہوگئے اور مشرقی پاکستان بچانے کی آخری کوشش ناکام ہو گئی۔ لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب خان کے تین اور چار مارچ 1971ء کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے پرنسپل سٹاف افسر لیفٹیننٹ جنرل ایس جی ایم پیرزادہ کو درج ذیل آخری ٹیلی گرام بھجوائے تھے جس میں بتایا گیا تھا ’’مجیب کی تجویز یہ ہے کہ 1962ء کے دستور کے فریم ورک کے اندر صدارتی حکم کے تحت جلد ازجلد عبوری حکومت کی اجازت دی جائے کیونکہ زیرالتوا آئین کو حتمی شکل دینے میں خاصا وقت درکار ہو گا ۔ ملک کمیونسٹوں کی بڑھتی قوت کی بنا پر میں کسی تاخیر کا متحمل نہیں ہوسکتا۔بھاشانی کی تحریک روکنے کے لئے مجیب کی پرزوردرخواست ہے کہ صدر آئندہ چند دن میں ڈھاکہ آئیں تاکہ صدر کی اصولی منظوری سے وہ مذکورہ بالا تجاویز کا اپنی سات مارچ کی تقریر میں اعلان کریں جس سے مخالفین کے مقابلے میں ان کے ہاتھ مضبوط ہوجائیں گے۔ ‘‘میرے خیال میں مجیب کی باتوں میں کسی حد تک صداقت ہوسکتی ہے لیکن اصل نکتہ یہ ہے کہ اس کی جماعت اقتدار کی بھوکی ہے اور اسے دباؤ میں لارہی ہے‘‘۔ مزید برآں اس (شیخ مجیب )کا دعویٰ ہے کہ وہ ترقیاتی کام بڑی تیزی سے کرانے کی اہلیت رکھتاہے تاکہ اپنی حمایت کو برقرار رکھنے کے لئے وہ لوگوں کو ترقی دکھا سکے۔ مجموعی تجاویز کی پس منظر میں اس تجویز میں وزن ہے۔ جس میں اہم ترین تجویز یہ بھی شامل ہے کہ اس پر عمل کرنے سے دستور سازی کے لئے دباؤ ختم ہوجائے گا۔ہم اس نکتہ نظر کے حامی ہیں کیونکہ موجودہ حالات میں حکومت کے لئے مشرقی پاکستان میں کسی سیاسی حمایت کے بغیر کام کرنا نہایت مشکل ہے۔ اندریں حالات ہماری سفارش ہے کہ اس تجویز پر فوری غورکیاجائے۔ آئندہ چند روز میں اپنی آمد پر صدر بذات خود اس پر مجیب سے بات چیت کرسکتے ہیں تاکہ سات مارچ سے قبل مجیب کو صدر کا اصولی فیصلہ مل جائے۔ اس سے اگلے روز چار مارچ کو آخری ہنگامی ٹیلی گرام بھجوایا گیا تھا جس کے بعد 5 مارچ کو مکمل ناکامی کے بعد جنرل صاحبزادہ یعقوب مستعفی ہو گئے تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب خان کے چار مارچ 1971ء کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر یحییٰ خان کے پرنسپل سٹاف افسر لیفٹیننٹ جنرل ایس جی ایم پیرزادہ کو بھجوائے گئے ٹیلی گرام میں زور دیا تھا کہ :’’اس نوعیت کی صورتحال میں اولین ترجیح یہ ہے کہ اس کا تدارک طاقت کے استعمال سے ممکن نہیں خواہ وہ کتنی ہی شدید یا وسیع تر ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اس کے مضر اثرات ہی نکلیں گے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم بنیادی مقصد کیا حاصل کرنا چاہ رہے ہیں میں اب بھی پراعتماد ہوں کہ بروقت اور جراتمندانہ سیاسی اقدامات سے ہم وہ کام کر سکتے ہیں جس سے صورتحال میں مثبت تبدیلی آ سکے لیکن ہر لمحہ اور دن قیمتی ہے۔ اس لئے میری پرزور سفارش ہے کہ صدر جلد از جلد دورہ کریں تاکہ سات مارچ کے اعلان سے مجیب کا اثر زائل کیا جا سکے لیکن کچھ بھی نہ ہوسکا اور ڈھاکہ خون کے سیلاب میں ڈوب گیا۔