گزشتہ دنوں ڈیرہ غازی خان کی ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے اندر ہاؤسنگ سکیم کے نئے فیز کی افتتاحی تقریب میں جس طرح سے لوگوں نے اخلاقی اقدار کا جنازہ نکالا ہے ۔ اُسے دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح سے ہمارے ملک میں عوام ذلیل ہو رہے ہیں اُس میں 80 فیصد ہمارے اپنے کرتوتوں کا عمل دخل ہے ۔ ہم جس تیزی کے ساتھ اخلاقی طور پر پستی کی طرف گامزن ہیں شاید ہی اِس وقت دنیا میں کوئی دوسری قوم ہو گی۔ ہماری ہر دوسری محفل گانے بجانے اور ناچنے والوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ ہم وہ قوم ہیں کہ اپنی تقریبات کا آغاز تلاوت قرآن پاک اور نعت رسول ﷺ سے کرتے ہیں اور پھر اُس کے بعد تقریب میں ہماری غیر اخلاقی اور غیر شرعی حرکات شروع ہو جاتی ہیں اور پھر رات گئے تک ہماری نوجوان نسل ، خواتین بچے گانے موسیقی کے پروگرام میں گانے کے ساتھ گانا اور ناچنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ گانے والے نے شراب پی رکھی ہوتی ہے جس میں بدمست ہو کر وہ قوم کے نوجوانوں کو ناچتا رہتا ہے ایسا کچھ نجی ہاؤسنگ سکیم کے افتتاحی پروگرام میں ہوا پر تکلف کھانے کی میزوں پر آئے ہوئے شرکا ایسے ٹوٹ پڑے کہ جیسے زندگی میں پہلی مرتبہ کھانا نصیب ہو رہا ہو۔ ہمارے ایک دوست جو اِس تقریب میں موجود تھے اُنہوں نے ہمیں آنکھوں دیکھا حال سنایا کہ ہم لوگوں نے ا یسی بڑی تقریبات میں اپنی تمام اخلاقی حدوں کو پامال ہوتے ہوئے دیکھا ہے کھانے کی میزوں پر کچھ ایسے لوگ بھی موجود تھے کہ جنہوں نے آنا فانا بڑے بڑے شاپروں میںکھانا ڈالنا شروع کر دیا خصوصاً خواتین والے کیمپ میں کچھ ایسی عورتیں بھی داخل ہو گئیں تھیں کہ جنہوں نے سالن کو بڑے شاپروںمیں ڈالا اور غائب ہو گئیں ۔ اِس تماشہ کے بعد ایک بڑا تماشہ محفل موسیقی کا شروع ہو ا۔ میانوالی کے ایک لو ک گلوکار نے جونہی گانا شروع کیا تو اسٹیج پر نوٹوں کی برسات شروع ہو گئی اِس دوران ایک نو دولیتے نے اسٹیج پر جا کر پانچ پانچ ہزار روپے کے نوٹ اُس لوک گلوکار پر ڈالنا شروع کر دیئے رزق کی اِس سے بڑی توہین اورکیا ہو سکتی ہے کہ گانے والے ہوں یا پھر ہماری کچھ اور محفلیں ہوں تو ہم ایسے لوگوں پر نوٹ نچھاور کرنا شروع کر دیتے ہیں ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی کم ظرف اور نو دولیتے جن کے پاس حرام کی دولت بہت زیادہ ہوتی ہے وہ ایسی غیر اخلاقی حرکات کر کے پورے معاشرے کو بد نام کر رہے ہیں۔ ہماری محفلوں میں اب اِس کو عیب بھی نہیں سمجھا جاتا اور ہم بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اور بڑے فخر کے ساتھ دوسرے دن اپنے دوستوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا مجھ سے زیادہ بھی کسی اور نے نوٹ یوں پھینکے تھے ۔ پھر گانے والوں کے ساتھ فوٹو بنوانا اور سوشل میڈیا پر ڈالنا اور پھر دوستوں کی طر ف سے گانے والے کے لیے ماشاء اللہ کے کمنٹ لکھے جانا یہ سب کیا ہے اور ہم کس طرف جا رہے ہیں اِن سب حالات کے بارے میں میرے پیارے آقا جناب رسالت مآب ﷺ نے پہلے فرما دیا تھا کہ قرب قیامت میں گانے والے عام ہو جائیں گے جبکہ کمینے لوگ قوم کے سردار بن جائیں گے یعنی کمینے لوگوں کے پاس دولت کی فراوانی ہو گی ا ور سب اُن کی دولت کی وجہ سے اُن کی قدر گریں گے یہ سب کچھ ہم آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ اس طرح انتہائی پڑھے لکھے اور عزت دار لوگ گمنامی میں چلے جائیں گے شر فا نایاب ہو جائیں گے ۔ خاندانی لوگ خاموشی کے ساتھ اپنی زندگی کے دن بسر کریں گے جبکہ کم ظرف پہلے سے بھوکے ننگے امیر ہو کر ان لوگوں کا مذاق اُڑائیں گے یہ بھی اب عام ہو رہا ہے جو ماضی میں خاندانی لوگ تھے اور معزز تھے وہ اب آہستہ ا ٓہستہ نایاب ہوتے جا رہے ہیں ۔ معاشرے میں بے قدری عام ہو رہی ہے یہ سب کچھ قرب قیامت کی نشانیاں ہیں اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کرے اور ہمیں معاف کرے ہم بڑی تیزی کے ساتھ ذلت کا شکار ہو رہے ہیں اب دوسری طرف ہمارے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہم پر ایسے حکمران مسلط کر دیئے ہیں کہ جن کی ناقص پالیسوں کی و جہ سے ملک روز بروز اندھیروں میں ڈوبتا جا رہا ہے مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور ہاں یہ مہنگائی صرف سفید پوش اور غریب طبقہ کے لیے ہے دولت مند اور امیر تو لاکھوں روپے گانے والوںپر نچھاور کر دیتے ہیں اور اُن کو پر وا تک نہیں ہوتی زرعی ملک کے اندر گندم پانچ ہزار روپے من فروخت ہو ر ہی ہے ۔ جبکہ آٹا 160 روپے کلو تک فروخت ہو رہا ہے غریب سارا دن دس کلو آٹے کے تھیلے کے حصول کی خاطر لائنوں میں کھڑا رہتا ہے جبکہ ہمارے ہی ملک سے آٹا بڑی مقدار میں چمن باڈراور صوبہ کے پی کے کے باڈر کے ذریعے افغانستان جا رہا ہے۔ اندھے حکمرانوں کو آخر یہ سب کچھ نظر کیوں نہیں آتا ایک طرف اپنے ملک میں غریب عوام سارا سارا دن قطاروںمیں کھڑے ہو کر ذلیل ہو کرآٹا لینے کے چکر میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں اور دوسری طرف کھلے عام اِس ملک سے آٹا دوسرے ملک میں جا رہا ہے آخر ہمارے عوام کا مقدر کب بد لے گا اور کب اِن کو ذلت کے گڑھے سے نکلا جا ئے گا یا پھر عوام اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ایسے ذلیل ہو تے رہیں گے ؟ اللہ ہم پر رحم کرئے کیونکہ اپنی ذلت کے ہم خود بھی ذمہ دار ہیں ہم جب تک اپنے اخلاق صحیح نہیں کریں گے ہمیں صحیح حکمران نہیں ملیں گے ۔