پنڈت تو طے کر چکے تھے، جی کا جانا ٹھہر گیا۔ ابھی پارٹی ختم نہیںہوئی مگر کی پیش گوئیاں جاری ہیں۔ ان سب کو دیکھ کر آصف زرداری کی 2008ء والی حکومت یاد آتی ہے۔ روز زائچہ بنایا جاتا تھا اور حکومت جانے کی پیش گوئی کردی جاتی تھی۔ ایک صاحب جو میڈیا سے پی ٹی وی تک گئے اور پھر باہر آگئے، وہ روز ہی کہتے تھے آج روزِ آخر ہے۔ اگرچہ افتخار چوہدری بھی تھے اور میاں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر عدالت میں بھی چلے گئے تھے۔ یہ تو تاریخ طے کرے گی کہ کیانی صاحب زیادہ دھیمے تھے یا آصف زرداری؟ مگر آج تاریخ مسکرا رہی ہے ، کبھی تو زیر لب ہنس بھی پڑتی ہے۔ جتنے ODDS اس حکومت کے ساتھ ہیں ، کسی اور کے ساتھ ہوتے تو کیا ہوتا؟ حالانکہ کل تک جو کہتے تھے اپنا ، آج وہی بیگانے ہیں۔ ایک ہوتی ہے حکومت اور ایک ہوتی ہے اسٹیبلشمنٹ ۔ امریکہ ہو کہ بھارت، حکومت کا چہرہ صدر اور وزیر اعظم ہوتے ہیں مگر فیصلہ سازی میں کچھ اور بھی ادارے اور چہرے شامل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں فیصلہ سازی کیسے ہوتی ہے؟ یہ کہانی پھر سہی مگر پردہ سکرین پر میاں نواز شریف جب بھی وزیر اعظم بنتے ہیں بات بگڑ جاتی ہے۔ کبھی غلام اسحاق خان ، کبھی سجاد شاہ اور کبھی مشرف اور کھیر ٹیڑھی ہوجاتی ہے۔ ہماری ایک تاریخ ہے ۔ ایک پس منظر ہے ۔ کوئی بھی ہونی اور انہونی اپنے ماضی سمیت ہوتی ہے۔ اس سے مختلف نہیں۔ جو ماضی ہوتا ہے، ویسا ہی حال اور تقریباً ویسا ہی مستقبل۔ شاید ہم سب کی دور کی نظر خراب ہو چکی ہے۔ من حیث القوم چند ایک بڑے پنڈتوں کو چھوڑ کر ہم سب رننگ کمنٹری اور آنکھوں دیکھے حال میں اُلجھ کر رہ گئے ہیں۔ غالب شاید ایسے ہی میڈیا اور سوشل میڈیا کیلئے کہتے تھے ’’ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے‘‘۔ ایسا ایسا میڈیائی پنڈت ہے کہ کسی ادارے کے سربراہ کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن لیٹ ہو جائے تو پکے راگ اور راگنیوں کے ساتھ آرکسٹرا کے جلترنگ بج اٹھتے ہیں۔ کیا امریکہ ، برطانیہ اور بھارت میں بھی ایسا ہوتا ہوگا؟ یقینا نہیں۔ ایسی ایسی ہوائی معلومات، ایسی ایسی تاریخ ساز پیش گوئی، الامان والحفیظ۔ یوں لگتا ہے بھاٹی اور لوہاری کا تھڑا سکرین پر آگیا ہے۔ مثلاً آپ نے فلاں کی باڈی لینگوئج ملاحظہ کی؟ جب وہ اسے مل رہا تھا ایکسپریشن ، بریکنگ نیوز دے رہے تھے۔ فلاں ۔۔فلاں کا پیغام لے کر فلاں جزیرے پر گئے او ریہ ہونے والا ہے۔ آپ کہیں بھی چلے جائیں ہوائی جہاز سے ہر سٹار ہوٹل تک ۔۔۔ ڈھابے سے خوانچہ فروش تک ۔۔۔ سوائے سیاست کے کوئی بات نہیں ہوتی۔ اتنی سنجیدگی سے باوثوق ذرائع کا راگ الاپا جار ہا ہوتا ہے کہ بندہ سر دُھننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کوئی نہیں پوچھتا یا پھر سارے ہی جانتے ہیں کہ وہی مسلم لیگ جو پانامہ کے بعد اور الیکشن 2018ء میں بہت نڈھال اور پژمردہ سی تھی اس میں جان کس نے ڈالی؟ اس کے بیانیے میں تاثیر کیسے آگئی ؟ سارا جھوٹ اب کیونکر سچ لگنے لگا؟ اس کی پاور کیمسٹری یا پاور کمبی نیشن کلک ہی نہیں کر پایا۔ جائزہ لیں کہ ضمنی انتخاب میں (ن) کا پلہ کیوں بھاری ہے؟ سوچئے کہ کیا مہنگائی کی وجہ صرف آئی ایم ایف، پٹرول اور بجلی ہی ہے یا کچھ اور بھی ؟ جس حال کو حکومت پہنچی اس میں بیوروکریسی کا کیا کردار ہے؟ تاجر طبقے نے ، ٹریڈرز نے کہاں تک ساتھ دیا؟ وہ پنڈت جو حکومت جانے کی پیش گوئی کر رہے تھے ،سول سیٹ اپ سے اداروں کی ہم آہنگی کے ہوا ہوجانے کا ذکر کر رہے تھے، حکومت کے اتحادیوں کے جو لہجے بدل گئے تھے ۔۔۔ یہ سب کیا تھا؟ کیا یہ سب ٹھیک تھا یا وزیر اعظم نے اسے غلط کر دکھایا؟ پنڈتوں کی ایک اور قسم بھی ہے۔ یہ وہ ہیں جو شریف خاندان کے اس ملک کے لیے عرصہ حکومت کو پاکستان کے زوال کا بنیادی سبب تصور کرتے ہیں،ضیاء الحق سمیت۔مگر کچھ ضیاء الحق کو فرشتہ اور شریف خاندان کو تمام امراض کا سبب قرار دیتے ہیں۔ خیال تھا ان پنڈتوں کاکہ شریف خاندان اکٹوپس کی طرح اس ملک کے وسائل سے لپٹ چکا ہے۔ وہ اس ملک کے رگ و پے میں بہت دور تک سرایت کرگئے ہیں۔ اُن سے نجات اس ملک کا یوم نجات ہوگا۔ مگر یہ تجربہ بھی کامیاب نہیں ہوا۔ وہی جو منی لانڈرنگ کی فلموں کے شریف ہیروز تھے ببانگ ِ دہل دودھ کے دُھلے نظر آنے لگے ہیں۔ کیا وجہ ہے؟ بہت ناتواں اور تقسیم شدہ اپوزیشن سوائے گو نیازی ۔۔گو کے نعروں کے سوا کچھ نہیں کرپارہی۔ یہ بھی درست ہے کہ عام آدمی کو بتائے گئے شریف کرپشن کے بیانیے نے اپیل کرنا بند کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی ’’ایمانداری ‘‘ کیوں رنگ نہیں لاپارہی؟ ہر آدمی ہر دوسرے آدمی سے پوچھتا ہے ، اب کیا ہوگا؟ یہ حکومت کب جارہی ہے؟ اپوزیشن بھی اور حکومت بھی عوام کے بنیادی مسائل سے دور جا چکے ہیں۔ روٹی، کپڑا اور مکان ،مانگ رہا ہے ہر انسان ۔ مگر زرداری ، شریف اور اب خان صاحب کوئی بھی اسے حل نہ کر پایا۔ ہر ٹی وی پر ایک میزبان، کیمرہ اور مائیک لے کر روزانہ گلیوں اور بازاروں میں عوام کا حال بیان کرتاہے۔ کبھی پٹرول ، کہیں چینی اور کبھی آٹا اور روپے کی گرتی ہوئی قیمت کا حال ۔ سب کو سب کچھ پتہ ہے اور شاید اتنا پتہ پہلے کبھی بھی نہ تھامگر صورتحال جوں کی توں کیوں ہے؟ شاید ہماری اشرافیہ کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ ہمارا میڈیا ’’میرے‘‘ اور ’’تمہارے‘‘ میں بٹ گیا ہے۔ ہماری بیوروکریسی ریاست کی نہیں اپنی وفادار ہو کر رہ گئی ہے۔ ہمارا تاجر ، ہمارا صنعت کار ، ہماری تجارتی انجمنیں یہاں تک کہ ہمارا ریڑھی اور چنگ چی مافیا بھی سوائے اپنے مفاد کے کوئی اور زبان نہیں سمجھتا۔ ایسے میں دستاروں سے کرداروں تک کیا سب اچھا ہے ؟ اگر نہیں تو پھر نگاہ کہیں اور ۔۔۔ اور نشانہ کہیں اور کیوں ہے؟ سب جانتے ہیں کہ ہماری Elite کیا کر رہی ہے؟ ہم عوام کیا کر رہے ہیں؟ مگر بولتا کوئی نہیں۔ اصل مسائل پر بات ہی کوئی نہیں کرتا ۔ دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے اگرچہ بولتا کوئی نہیں ہے ایسے میں تم۔۔۔ہم سب ، کہاں کے سچے تھے؟