بے شک میں نے گزشتہ کالم میں آپ سے وعدہ کیا تھا کہ تازہ ترین ٹیکس ’’سِن ٹیکس‘‘ یعنی ’’گناہ ٹیکس‘‘ کا کوئی مترادف نام تجویز کروں گا اور وہ میں کروں گا لیکن اس سے پیشتر مجھے ایک بار پھر اس حکیم لقمان عرف بزر جمہرکے شاندار جینئس تخیل کی داد دینے دیجئے جس نے ’’گناہ ٹیکس‘‘ کا بے مثال کانسپٹ پیش کیا۔ ذرا پتہ تو چلے کہ وہ کون ہیں۔ وزیر ہیں ‘ ماہر معاشیات ہیں یا ٹیکسیوں کے‘ معاف کیجئے ٹیکسوں کے ماہر ہیں۔ اس معاملے کے بارے میں کچھ تحقیق وغیرہ نہائت جانفشانی سے کی تو کھلا کہ ابتدائی اعلان میں کہا گیا تھا کہ یہ آئیڈیا دراصل فلپائن سے مستعار لیا گیا ہے اور فلپائن دراصل دنیا کا وہ پہلا ملک ہے جس نے ’’گناہ ٹیکس‘‘ نافذ کیا۔ سبحان اللہ ہم پر یہ وقت بھی آنا تھا جب ہم نے فلپائن ایسے ملک کی پیروی کرنی تھی ۔ اچھا اب میں فلپائن کے گناہ ٹیکس کے بارے میں آپ کو ذاتی تجربے پر مبنی کچھ معلومات پیش کرنا چاہتا ہوں کہ وہاں یہ ٹیکس کہاں اور کیوں لاگو کیا گیا تھا۔ بہت مدت پیشتر میری بیگم کے بھائی اسلم خان فلپائن میں پی آئی اے کے جنرل منیجر تعینات ہوئے۔ تقریباً تین برس بمعہ اہل و عیال وہاں قیام رہا۔ واپسی پر بھابھی نے میمونہ کو ذرا پرائیوٹلی سرگوشیوں میں بتایا کہ مونا یہ فلپینی بڑے ہی بے شرم لوگ ہیں۔ میری ایک نوجوان اور بہت معصوم سی گھریلو ملازمہ تھی۔ ایک روز کہنے لگی میڈم مجھے تین ماہ کے لئے چھٹی درکار ہے۔ میں نے پوچھا کہ ایسی کیا ایمرجنسی پڑ گئی تو کہنے لگی کہ میڈیم گھوم پھر کر جسم فروشی کا کاروبار کروں گی۔ یوں بھی ان دنوں ٹورسٹ سیزن ہے روزانہ چار پانچ گاہک مل جائیں تو بھی اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی ہے۔ تین ماہ میں اتنے پیسے ہو جائیں گے کہ میں ایک چھوٹے سے فلیٹ کا ایڈوانس دے سکتی ہوں۔ میری سب سہیلیوں نے اسی طور فلیٹ خریدے ہیں۔ وعدہ کرتی ہوں پورے تین ماہ بعد لوٹ آئوں گی۔ اور جب میں نے اس کے بدن فروشی کے سہ ماہی منصوبے کے صدمے سے باہر آ کر کہا’’یہ تو بری بات نہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی بری بات ہے‘‘ تو وہ ہنس کر کہنے لگی! میڈم یہ تو قانونی بزنس ہے۔ میں اجازت نامہ لے کر یہ سب کچھ کروں گی اور آمدنی پر ٹیکس بھی دوں گی… تو حضور فلپائن کی حکومت نے دراصل جسم فروشی پر ’’گناہ ٹیکس‘‘ لگایا تھا اور آپ نے سوفٹ ڈرنکس اور تمباکو پر لگا دیا۔ چلئے ہمیں کچھ اعتراض نہ ہوتا اگر آپ جسم فروش خواتین کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لے آتے اور ہاں اگر ایسا بھی کوئی منصوبہ زیر غور ہے تو ظاہر ہے خواجہ سرائوں کو ٹیکس میں پچاس فیصد رعائت دی جائے گی کہ یہ ان کا پیدائشی حق بنتا ہے صدقے جاواں… ان دنوں سگرٹوں کے پیکٹوں پر نہائت ہولناک تصاویر شائع کی جاتی ہیں کہ اگر سگریٹ پیو گے تو یہ انجام ہو گا۔ کئی حضرات ان تصاویر کو دیکھ کر اتنے ہراساں ہوتے ہیں کہ غم غلط کرنے کی خاطر پہلے سے زیادہ سگریٹ پھونکنے لگتے ہیں۔ یہ تحریک یعنی سگریٹوں کے پیکٹوں پر کینسر زدہ جبڑے اور پھیپھڑے شائع کرنا سب سے پہلے کینیڈا میں شروع ہوئی اور ابتدائی ایام میں سگریٹ نوشی قدرے کم ہو گئی لیکن چند ماہ بعد پھر پہلے والی سطح پر آ گئی۔ سگریٹ نوشوں نے اول اول تو سگریٹ کی ڈبیا میں سے سگریٹ نکال کر قیمتی سگریٹ کیسوں میں منتقل کئے اور پھر انہیں تصویروں کی عادت ہو گئی یہاں تک کہ گاہک دکاندار سے فرمائش کرتا کہ مجھے وہ کینسر کی تصویروالا پیکٹ دینا کہ وہ جینوئن ہوتا ہے۔ اگر آپ ذرا غور کریں تو شائبہ ہوتا ہے کہ یہ سب سکھوں کا کیا دھرا تھا۔ کینیڈا میں بے شمار سکھ آباد ہیں بلکہ حکومت کے اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ کینیڈا کا ڈیفنس منسٹر ایک سردار ہے۔ برٹش کولمبیا کے صوبے کا چیف منسٹر بھی ایک سکھ ہوا کرتا تھا اور آپ آگاہ ہیں کہ مذہبی سکھ تمباکو کو حرام سمجھتے ہیں۔1947ء کے ہنگاموں میں مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے لئے ان کی عبادت گاہوں میں سؤر کے سر پھینکے جاتے تھے اور ہندوئوں کے مندروں میں گئو ماتا کا سر جب کہ سکھوں کے گوردواروں میں سگریٹ پھینک دیے جاتے تھے۔ مجھے بھی گمان ہے کہ تمباکو نوشی کے خلاف اس مہم کے بانی کینیڈا کے سکھ حضرات ہیں کہ وہ اسے حرام سمجھتے ہیں‘ گناہ جانتے ہیں‘ تو سوال یہ ہے کہ اگر ہمارے ہاں تمباکو پر ’’گناہ ٹیکس‘‘ لگایا جا رہا ہے تو کیا ہم ایک سکھ ریاست کے باسی ہیں؟ گزشتہ کالم میں میں نے اس ٹیکس کے حوالے سے عوام الناس میں جو تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اس کا سرسری تذکرہ کیا تھا کہ جانے کل کلاں حکومت ’’گناہ ٹیکس‘‘ کا دائرہ وسیع کر کے اس میں کردہ اور ناکردہ گناہوں کو بھی شامل کر دے تو پھر کیا ہو گا۔ جی ہاں مجھے اپنے سفر ناموں کے حلفیہ بیانات کے بارے میں بھی کچھ تشویش سی ہے کہ کہیں میں بھی دھر نہ لیا جائوں۔ اب ’’گناہ‘‘ کی ڈیفی نیشن کیا ہے اس کے بارے میں ماہرانہ رائے اوریا مقبول جان سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیکن مجھے یہاں ایک چھوٹا سا قصہ یاد آ رہا ہے۔ جو مجھے میرے پسندیدہ ادیب اے حمید صاحب نے سنایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جوانی کے اوائل کے وحشی جذبوں کے منہ زور زمانے تھے جب ان کا ایک دوست یہی کوئی سولہ سترہ کا سِن عشق کا مارا ہوا اور یہ بھی کوئی سن پچاس کے لگ بھگ کا قصہ ہے۔ چار آنے فی گھنٹہ کرائے کی سائیکل پر سوار کشاں کشاں اپنی تقریباً ان دیکھی’’محبوبہ‘‘ کے کرشن نگر میں واقع گھر‘ کڑی دوپہر میں پہنچا۔ سائیکل کی گھنٹی بجائی تو محبوبہ نے چک کے پیچھے سے جھانکا اور چلی آئی اور وہ بھی کشاں کشاں کہ سب گھر والے گھوک سوئے ہوئے تھے۔ دوست نے اسے کیرئر پر بٹھایا تو سائیکل ڈول گیا کہ محبوبہ قدرے فربہ تھی۔ منصوبہ یہ تھا کہ باغ جناح بلکہ لارنس گارڈن پہنچ کر کسی سائے دار جگہ ایک خاص بنچ پر بیٹھ کر پیار کی باتیں کریں گے۔ سڑکیں سنسان پڑی تھیں۔ کچھ دیر بعد محبوبہ پہلی بار بولی’’یہ ہم گناہ کر رہے ہیں ناں؟‘‘دوست ہڑبڑا گیا کہ کون سا گناہ۔ تو وہ کہنے لگی یہی چوری چھپے سائیکل پر اکٹھے بیٹھے ہیں۔ جی پی او کے چوک کے قریب پہنچ کر اس نے پھر پوچھا’’ہم گناہ تو نہیں کر رہے؟‘‘ دوست نے تنگ آ کر کہا بی بی ہرگز نہیں سائیکلوں پر بیٹھ کر گناہ نہیں ہوتے۔ جب وہ ریگل کے چوک تک آئے تو محبوبہ نے پھر ڈری ڈری آواز میں کہا’’اللہ دی قسمے‘ ہم گناہ کر رہے ہیں‘‘ تو دوست جو کہ ابھی پوری طرح بالغ بھی نہیں ہوا تھا احساس گناہ سے لرز گیا کہ ہائیں میں یہ کیا کر رہا ہوں۔ اس نے سائیکل روکی اور محبوبہ سے کہا اترو بی بی۔ وہ کیرئر سے اتری تو دوست نے اسے ایک چونی تھما کر کہا۔ بیٹھو کسی ٹانگے پر اور گھر واپس جائو تم نے تو یہاں تک آتے آتے مجھے ڈرا ڈرا کر مار دیا ہے۔ لارنس گارڈن پہنچ جاتے تو جانے کیا حال کرتیں۔ جائو اللہ بھلہ کرے! چنانچہ اس نئے ’’گناہ ٹیکس‘‘ نے مجھے بھی ڈرا ڈرا کے مار دیا ہے۔