سید صاحب سے دوستی کو دو دہائیاں ہو چکی ہیں ۔غضب کا سیاسی شعور اور شعری ذوق رکھنے والے سید صاحب جیسے دوستوںکی معیت میں گھنٹوں گزارے جاسکتے ہیں۔وہ کتاب دوست آدمی ہیں۔ انہوںنے زمانے کا سرد وگرم دیکھ اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پی رکھا ہے ۔من موجی طبیعت ایسی ہے کہ موڈ ہوا تو کراچی سے اٹھے اور ترکی کھنگالتے کھنگالتے ہنگری جا پہنچے ۔طبیعت کے بھی حساس ہیں اس لئے میں ان سے گفتگو کرتے ہوئے ہمیشہ ہی محتاط رہا کہ وہ آنکھیں پڑھنے کا ہنر بھی جانتے ہیں ۔اس حساس طبیعت کی وجہ سے دوسروں کے رویوں ،حق تلفیوں سے ان کی انازخمی ہوتی رہی ،کراچی کے علاقے عزیز آباد سے الطاف حسین ان زخموں پر مرہم رکھنے کا دعویٰ لے کراٹھے او ر شہر بھر کو عزیز ہوگئے، سید صاحب بھی اس تحریک سے متاثر ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مہاجروں کی تحریک کی اٹھان غلط نہ تھی۔ شکایات جائزتھیں جن کے ازالے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ شکوے تھے جن کے تانے بانے تین جولائی 72 ء کو پیش کئے گئے لسانی بل سے ملتے تھے۔ سقوط پاکستان کو سال بھی پورا نہ ہوا تھا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ ممتاز بھٹو نے لسانی بل پیش کردیا جس کی رو سے سندھ کے دفاتر کی سرکاری زبان سندھی قرار دے دی گئی،مہاجرجنہیں اس وقت ہندوستان سے نسبت کی بنا پر’’ہندوستانی‘‘ کہا جاتا تھا بپھر گئے۔ احتجاج شروع ہوا۔جلد ہی بلووں میں بدل گیا، رئیس امروہوی کی نظم ’’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے ‘‘ اس احتجاجی تحریک کا ترانہ بن گئی، یہ احتجاج سختی سے کچلنے کی کوشش کی گئی لیکن اس کا دائرہ کراچی سے نکل کر سندھ کے ان شہروں میں پہنچ گیا جہاں مہاجر آبادتھے ،سید صاحب کے مطابق اصل میں ان ہی دنوں ایم کیو ایم کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ سمجھیں اعلان بعد میں ہوا۔ سید صاحب بتاتے ہیں لسانی بل سے کاشت ہونے والی نفرتیں موجود تھیں۔ الطاف حسین نے یوریا ڈال کر پانی لگا دیا دیکھتے ہی دیکھتے ہی تعصب کی فصل لہلانے لگی۔ انہوںنے ایک بار مجھے بتایا کہ ہم بھی اس ماحول سے متاثر ہوئے اورایم کیو ایم کا حصہ بن گئے۔ ہمارا تعصب اس حد کو پہنچا ہوا تھا کہ جب ہم کارکن آپس میں ملتے تو السلام علیکم ، یا آداب کہنے کے بجائے ’’جئے مہاجر ‘‘ کہہ کر ہاتھ ملاتے تھے، ان دنوں بھی کراچی کی ٹرانسپورٹ خاص کر رکشہ ، ٹیکسی اس وقت کے ’’صوبہ سرحد‘‘ سے آئے محنت کشوں کے پاس تھی ان کا کھردرا رویہ ، منہ مانگے کرائے بھی سب ہی کو کھلتے تھے ۔ہم انہیں سبق سکھانے اور غصہ نکالنے کے لئے منہ مانگے داموں پر رکشہ لے کر کسی ایسی سنسان جگہ لے جاتے جہاں ہمارے ساتھی پہلے سے موجود ہوتے اور وہاں رکشہ ٹیکسی رکتے ہی اس پر ٹوٹ پڑتے ، بعد میں سید صاحب کو احساس ہو گیا کہ الطاف حسین ہمیں ٹرک کی بتی پیچھے لگا کر خود موجیں کررہے ہیں تو انہوں نے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ ان کا یہ فیصلہ درست ثابت ہوا ۔حق پرستی کی تحریک شخصیت پرستی میںڈھل کر حق غصب کرنے کی تحریک بن گئی۔ کراچی میں روزی روٹی کی تلاش میں آئی دیگر قومیتوں کے افراد سے زندہ رہنے کا حق چھیناجانے لگا ،ہجرت کرکے آنے والا طبقہ اپنی شائستگی، متانت اور رکھ رکھاؤ سے جانا جاتا تھا۔دہلی ، لکھنؤ، مراد آباد ، اور حیدرآباد دکن کے وہ لوگ جنہیں آپ جناب ، مرزا اور پاشاکے سابقوں کے ساتھ پکارا جاتا تھاان کی اولادیں کن کٹے، توپچی، پہاڑی اوردادا ہوگئیں ۔جن ہاتھوں میں قلم کتاب ہواکرتی تھی اب ان ہاتھوں میں پٹرول بم، کلاشن کوفیں اور ٹی ٹی پسٹل آگئے ۔یہ دادا، کن کٹے، پہاڑی ،ہکلے ،سناٹااور اسی نوع کے نام رکھنے والے خوف ودہشت کی علامت بن گئے اور اک عرصے تک ان کی دہشت طاری رہی لیکن یہ آج کہاں ہیں ؟ افسوس کہ یہی سب کچھ ہم آج دیکھ رہے ہیں اور ہاتھ مل رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کی طرح تحریک انصاف نے بھی ایک بیانیہ اٹھایااورپھر سارے اصول قانون ضابطے ایک طرف رکھ کر اک شخصیت کوسر پر اٹھا لیا ۔ایم کیو ایم میں الطاف حسین حرف آخر تھے او ر یہاں ’’خان ‘‘ ۔وہاں سب الطاف بھائی کا دم بھرتے تھے اور یہاں بھی سب خان صاحب کے سامنے حضور کا اقبال بلند ہو کے نعرے لگاتے ، وہ جماعت جس نے تحریک چلانی تھی وہ ایک شخص کے گرد طواف کرنے لگی ، پارٹی میں جمہوری اقدار کی آبیاری کی جاتی تو چاپلوسوں کے ساتھ ساتھ کوئی تو ذی شعور بھی بیٹھا ملتا لیکن جسٹس وجیہہ اور حامد خان جیسے سنجیدہ و متین لوگ ضائع کر دیئے گئے۔ جسٹس وجیہہ انٹرا پارٹی الیکشن کے نام پر ہونے والے ڈرامے کا احوال کئی انٹرویوز میں کہہ چکے ہیں ، غیر جمہوری طریقے سے مال مصالحہ رکھنے والے لوگ پارٹی کی بالائی قرار پائے، عمران خان کے گرد ’’چھاتہ برداروں ‘‘نے حصار باندھ لیا، کاسہ لیسوں میں عہدے تقسیم ہونے لگے جو آج مشکل وقت پڑنے پر کہاں ہیں ؟ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کو شخصیت پرستی لے ڈوبی ، ایم کیوایم کا مقبول ترین نعرہ ’’ہم نے کہہ تو دیا ہمیں کیا چاہئے،ہمیں منزل نہیں رہنما چاہئے ‘‘ ابھی بھی لیاقت آباد ، عزیز آباد اور لانڈھی کی دیواروں میں کہیں نہ کہیں دیواروں پر کھرچ کر دیکھا جاسکتا ہے۔ حیرت ہے تحریک انصاف کی قیادت نے الطاف حسین کی تنہائی سے سبق نہ لیا۔ جب نیوکانفرنسوں میں کہا جانے لگا کہ تحریک انصاف عمران خان ہے اورتحریک انصاف عمران خان کے بغیر کچھ نہیں تو کسی نے ٹوکا کیوں نہیںکہ بہرحال نظریہ اہم ہوتا ہے۔اس غلطی کے بعد اداروں سے تصادم کی جارحانہ پالیسی نے نو مئی کو بلآخر تحریک انصاف کے تابوت میں کیل ٹھونک دی اوراب نتیجہ نوجوانوں کی بڑی تعداد کی گرفتاری اور خان صاحب کی تنہائی کی صورت میں ہے ۔عجیب اتفاق کہ الطاف حسین بھی اسی تنہائی کا شکا ر ہیں ۔ان کی جماعت بھی انہیں نفی کرچکی ہے اورآنے والے دنوں میں ایسا ہی کچھ زمان پارک کے ساتھ ہوتا دکھائی دے رہا ہے ،عمران خان مائنس تحریک انصاف !