پیروڈی کے بارے میں یہ بھی جان رکھیں کہ یہ اتنی شریر ہوتی ہے کہ کسی بندھے ٹِکے مفہوم یا طے شدہ الفاظ میں ہلکی سی تبدیلی سے قاری، سامع، موضوع اور کبھی کبھی صاحبِ موضوع کی بھی باچھیں کھل جاتی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ اتنی ظالم بھی ہے کہ بعض اوقات بڑے بڑوں کے ضمیر اور کردار پہ زہریلے سانپ کی طرح لڑ جاتی ہے۔ مثال کے طور پہ مشتاق احمد یوسفی جب جنرل ضیا سے کسی اختلاف کی بنا پر بینکنگ کونسل کی چیئرمین شپ سے استعفا دے کر لندن چلے گئے اور گیارہ سال یعنی ان کی حادثاتی موت کے بعد ۱۹۹۰ ء میں قارئینِ ادب کے لیے ’آبِ گم‘ کے تحفے کے ساتھ واپس آئے تو اس کے دیباچے میں ان گیارہ سالوں کو ’دورِ ضیاع‘ سے موسوم کیا اور وطنِ عزیز پر اُن کے سیاسی اثرات کو ’ضیابیطس‘ کے نام سے یاد کرتے رہے۔ مومن خاں مومن کلاسیکی اُردو شاعری میں معاملہ بندی کے بادشاہ مانے جاتے ہیں۔ محبوب کی بے نیازی، ہٹ دھرمی بلکہ تِریا ہٹ کی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے اُن کا ایک خوبصورت شعر ہے: کہا جب اُن سے کہ مرتا ہے مومن کہا ہم کیا کریں مرضی خدا کی! اکبر الہٰ آبادی ٹھہرے پرلے درجے کے ہنسوڑ… انھوں نے بھی محبوب کے سنگ دلانہ رویے کے بیان کے لیے مومن کا کندھا استعمال کیا ہے لیکن ظرافت کے اس رمز شناس نے ایک لفظ کی ہیرا پھیری سے اس میں شرارت کی حرارت بھی شامل کر دی ہے۔ لکھتے ہیں: کہا جب ان سے کہ مرتا ہے اکبر کہا ہم کیا کریں مرضی ’ہماری‘ جن دنوں پاک ٹی ہاؤس میں بقول انتظار حسین ’’ایک سے ایک ادبی جناور یہاں آ کے گرتاہے‘‘ والی صورتِ حال نہیں تھی اور حلقۂ اربابِ ذوق ادبی نابغاؤں کی کار گاہ، ادبی، علمی مباحثوں کی آماج گاہ، ادبی شائقین کی پناہ گاہ تھا، وہاں بھی بعض اوقات نئی سے نئی بوالعجبیاں سامنے آتیں۔ گاہے گاہے پھبتیوں، ضلع جگتوں اور حاضر جوابیوں کے لاجواب نمونے سننے کو ملتے۔ مشہور ہے کہ کسی محفل میں معروف شاعر قتیل شفائی نے یہ شعر پڑھا : اُڑتے اُڑتے آس کا پنچھی دُور اُفق میں ڈوب گیا روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی سودائی کی ناصر کاظمی جو لہجے اور رویے پر ہمہ وقت سنجیدگی و بے نیازی کی دبیز چادر اوڑھے رہتے تھے اور ضرورت سے بھی کم کلام کرتے تھے، سے نہ رہا گیا۔ انھوں نے شعر سنتے ہی جھٹ سے اُس کا یہ حال کر دیا: اُڑتے اُڑتے آس کا پنچھی دُور اُفق میں ڈوب گیا روتے روتے بیٹھ گئی آواز ’قتیل شفائی‘ کی پروین شاکر ایک طرح دار شاعرہ تھیں۔ اُس نے اِس گھُٹے پِٹے معاشرے میں عورت کے جذبات و احساسات کو زبان دینے کے ساتھ ساتھ،صنفِ نازک کے نفسیاتی اور ازدواجی مسائل پہ بھی کھل کے بات کی۔ ایک زمانے میں انھوں نے نسوانی جذبات اور انسانی ترجیحات کی دنیا میں ایک عجیب و غریب موازنہ کرتے ہوئے لکھا: وہ مجھے چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا لالہ بسمل نے شریر شعری تفاہیم میں اپنی طرز کی طرح ڈالتے ہوئے فرمایاکہ اگر دوسرے مصرعے میں ’برابری‘ کی بجائے ’برادری‘ کا لفظ آ جاتا تو یہی شعر، شاعرہ کے جذبات اور حِسیات و حیثیات کے ساتھ ساتھ ہماری تہذیب، مزاج اور رسوم و رواج کی بھی بھرپور نمایندگی اور تادیر عکاسی کرتا چلا جاتا۔اسی طرح چند سال قبل جب سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف پہ ابتلا اور ان کی وزارتِ عظمیٰ پہ انتہا کا عالم طاری تھا، وہ سَو کے قریب لوگوں کو سرکاری عمرے پہ لے کے گئے تو حکیم جی نے کہا: ’’عمروں کے گناہ، ’عمروں‘ سے نہیں دھوئے جا سکتے‘‘اور لالہ نے تو فیس بک پہ میاں صاحب کی تصویر کے ساتھ غلام محمد قاصر کے معروف شعر میں ہلکی سی تبدیلی کے ساتھ یہ پوسٹ لگائی: کروں گا کیا جو ’کرپشن‘ میں ہو گیا ناکام مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا اسی طرح جب لندن میں زندگی گزارنے والے بلاول کو پاکستان بلا کے سیاست کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ تو مرزا مُفتہ نے طفیل ہوشیارپوری کے شعر میں تھوڑا سا ردو بدل کرتے ہوئے پارٹی والوں کو بار بار سمجھایا تھا کہ: ’زرداری زرداری‘ کہہ کر لوگ کسیں گے آوازے کس کس کا منھ بند کرو گے؟ کس کس کو سمجھاؤ گے؟ اس شعبے میں پطرس کے شاگردِ رشید کنہیا لال کپور نے ایک لطیف شرارت یا طریفانہ بدعت یہ کی کہ غالب کی ایک ہی غزل کے دو الگ الگ شعروں کے مصرعوں کو باہم ملا کے بالکل ہی نیا شعر بنا دیا،جس سے مفہوم و معانی کی نگری میں بہجت آمیز کھلبلی مچ گئی۔ مثال کے طور پر کنہیا لال کپور کی یہ حرکت ملاحظہ ہو: نَے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں پطرس بخاری نے اُردو میں نثری پیروڈی کا ڈول ڈالا، جس کی آڑ میں ابنِ انشا نے ’اُردو کی آخری کتاب‘ کے عنوان سے پورے تعلیمی نصاب کی شریرتحریف کر کے ٹیکسٹ بک بورڈ کے ہاتھ میں پکڑا دی اور محمد خالد اختر نے ایک زمانے میں ’مکاتیبِ خضر‘ کے زیرِ عنوان خطوط میں سیاسی، ادبی رویوں میں زلزلہ پیدا کیے رکھا۔ غرض یہ کہ اُردو نثر میں بھی تحریف کی ایک دنیا آباد ہے، جس کا تذکرہ پھر کبھی سہی، فی الحال لالہ بسمل کی اکبر الہٰ آبادی کے معروف شعر کی اس انوکھی تحریف کا مزہ لیجیے: تو بھی گریجویٹ ہے، مَیں بھی گریجویٹ تو بھی پرائیویٹ ہے، مَیں بھی پرائیویٹ دفتر میں تیرے واسطے خالی پڑی ہے سیٹ تو بھی اکاموڈیٹ ہو، مَیں بھی اکاموڈیٹ