پیروڈی، جسے اُردو میں تحریف کا نام دیا جاتا ہے، ہر زبان کے ادب میں ظرافت کا ایک کارگر اور شریر حربہ خیال کیا جاتا ہے۔یہ اصل میں کسی معروف و مقبول فن پارے کے ساتھ کی جانے والی وہ ہلکی پھلکی سی شرارت ہوتی ہے، جو شگفتگی پہ منتج ہونے کے ساتھ ساتھ سوچ، مزاج اور روایت کا رُخ بھی تبدیل کر دیتی ہے۔ یہ کسی بھی گوارا عمل کا خوشگوارا ردِ عمل ہوتا ہے۔ یہ ادب کے چاغی میں خوش دماغی کا دھماکہ کرنے جیسی حکمتِ عملی ہے۔یہ دودھ کی نہر کو بھاگ کی جاگ لگا کر بھاگ جانے کا خرخشہ ہے۔ یہ تو بقولِ غالب فردوس میں دوزخ کو ملا کے سیر کے واسطے تھوڑی سی اور طرح کی فضا ترتیب دینے کا قرینہ ہے۔ یہ اصل فن پارے کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے کی جانب ایک پیش رفت بھی ہے۔ اب تو یہ ادب کی ایک صنف کا درجہ اختیار کر جانے کے ساتھ ساتھ، مزاح کا ایک نہایت خوب صورت ہتھیار قرار پا چکا ہے۔ موجودہ دور میں اس کی اہمیت اور ضرورت اس لیے بھی بہت زیادہ ہے کہ جب لباس، کھانے، سفر، کھیل، مکانات، اطلاعات، فیشن، رہن سہن اور تفریح و تدریس و تلقین کے انداز ہر لمحہ تبدیل ہو رہے ہیں تو شعر، مصرعے اور دیگر ادب پارے بے چارے پرانی تنخواہپہ کیوں کام کرتے رہیں؟ جو زندگی ہم گزار رہے ہیں، اب تو اسے بھی زندگی کی پیروڈی کہا جانے لگا ہے۔ ماں کے دودھ کے علاوہ جو دودھ ہمیں پینے کو ملتا ہے، کیا وہ دودھ کی پیروڈی نہیں ہے؟ یہ بات تو آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ معمول کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنے والی چیزیں تو کچھ عرصے بعد ’معمولی‘ کہلانے لگتی ہیں۔ ان کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کے لیے سوچ، خیال، روایت کو تبدیلی کا تڑکا اور جدت کا ٹانکا لگانا پڑتا ہے،اپنے حکیم جی کے بقول تو وطنِ عزیز میں رائج نظامِ تعلیم، طریقۂ علاج، انصاف، قانون، سیاست، جمہوریت وغیرہ بھی اپنی اپنی اصل کی خوف ناک پیروڈیز ہی ہیں۔ جدید میڈیائی سہولتوں کے زمانے میں تو ویسے بھی بہت سی بوسیدہ رسوم اور کاہیدہ علوم ازکارِ رفتہ کے ڈرم میں پھینکے جا چکے ہیں۔آپ اپنے ماضی کو مرغوب بنانے اور نئی نسل کو مرعوب کرنے کے لیے لاکھ ’’ہمارے زمانے بہت اچھے تھے‘‘ کی رَٹ لگائے رہیں، وہ اپنے زمانے میں اپنے انداز سے جینے پہ سارا زور صرف کر دیں گے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہماری پرانی شاعری تو اپنے مخصوص ماحول اور محدود افکار کی بنا پر خود بخود مزاحیہ بنتی جا رہی ہے۔ آپ خود اندازہ کریں کہ جب انٹرمیڈیٹ کے ایڈیٹ سے ایڈیٹ طالب علم کے اینڈرائیڈموبائل میں ساڑھے سات ہزار فرینڈز اور کم از کم درجنوں خوب روؤں کی ساکت اور متحرک تصاویر سنبھالے نہ سنبھل رہی ہوں۔ ان کی معمولی سے معمولی پوسٹ پہ Love اور Wowکے مچلتے پھڑکتے ای موجیز چین نہ لینے دیتے ہوں۔ روز نئی نئی سیلفیوں اور ٹک ٹاک وڈیوز میں نو سو ناریاں ٹُک ٹُک دیدم، دم نہ کشیدم کی کیفیت طاری کیے بیٹھی ہوں،ایسی صورتِ حال کہ جس میں شریر وشرار صفت طلبہ ’’تیرا کونا کونا چوموں‘‘ جیسے سریلے اور رسیلے بظاہر قومی قسم کے گیت کو بھی ارضِ وطن سے اٹھا کے غرضِ بدن کے کھاتے میں ڈالنے کے لیے تیار بیٹھے ہوں۔ ایسے میں ہم انھیں دو سو سال پرانی ایسی شاعری پڑھاتے جائیں، جس میں عاشق بے چارے کا جنازہ تیار ہو رہا ہے اور وہ آخری ہچکی لینے سے پہلے پہلے رُخِ محبوب کی ایک جھلک یا لبِ لعلیں کی ایک جنبش کی اَڑی کیے بیٹھا ہے، ان حالات میں تو طالب علم کا قہقہہ محض استاد کے احترام میں حلق میں پھنسا رہ جاتا ہے لیکن وہ بھی کب تک؟ ہمیں پورا یقین ہے کہ شاعرِ مشرق اگر آج کے دور یا لاہور میں زندہ ہوتے تو اپنی اسی مثالی ریاست میں ماحولیاتی آلودگی کا خاک آلود حُلیہ اور گرد و غبار کا عالم دیکھ کے خود ہی کہہ اٹھتے: ذرا ’کم‘ ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی پھر جب وہ اپنی اس لاڈلی اُمتِ مسلمہ کی اخلاقی ابتری، معاشرتی زبوں حالی، دینی بے راہ روی اور خراب صورتِ حال کا زمانۂ حال میںمشاہدہ کرتے تو اُسے متحد اور یکجا ہونے کا مشورہ دینے سے قبل یہ نصیحت کرنا ضروری سمجھتے: ’نیک‘ ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے ہمارے ہاں جمہوریت کے نام پہ قوم کو مسلسل بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔ اقبال پہلے دن سے مغربی طرز کی جمہوریت کے خلاف تھے بلکہ وہ تو اسے ’جمہوری تماشا‘ قرار دیتے تھے۔ ان کے نزدیک لوگوں کو مقدار سے نہیں معیار سے پرکھا جانا چاہیے کیونکہ دو سو گدھوں کے مغز سے انسانی سوچ برآمد نہیں کی جا سکتی۔ اپنے زمانے میں تو انھوں نے برملا فرمایا تھا: جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے ہم نے اس مملکتِ خداداد میں جمہوریت کے نام پہ آج تک جو جو ڈرامے رچائے ہیں، اگر اس کا تصور پیش کرنے والا آ کے دیکھ لے تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں۔ اسی طرح پنجابی کا وارث، وارث شاہ، جو پنجاب میں دانش کا استعارہ سمجھا جاتا ہے، آج ہمارے کرپٹ سیاست دانوں کے کرّو فر اور ان کی اولادوں کی ٹیٹنے مارتی زبانیں دیکھتاتو اپنے اس معروف شعر میں ردو و بدل کر کے یقینا اسے یوں کر لیتا: وارث شاہ اوہ سدا ای جیوندے نیں جنھاں کیتیاں ’بہت‘ کمائیاں نیں یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ لفظوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں احتیاط بہت ضروری ہے۔ یہ چھیڑ چھاڑ آج جتنی مزے دار دکھائی دیتی ، اس کا آغاز اتنا ہی خوف اور دہشت سے بھرا ہوا ہے۔ اُردو میں پیروڈی کی اس رسم کا آغاز اورنگ زیب کے زمانے کے ہر دل عزیز ہنسوڑ جعفر ز ٹلّی نے کیا تھا، جس نے کم ظرف فرخ سیئر (کہ جس نے لوگوں سے ضروری اناج بھی چھین لیا اور بے شمار لوگوں کو تسمہ کشی سے ہلاک کر ڈالا) کے جاری کردہ سِکہ رائج الوقت پر درج خودستائی سے مملو شعر: سکہ زد از فضلِ حق بر سیم و زر بادشاہِ بحر و بر ، فرخ سیئر میں حالات و واقعات کے مطابق ہلکی سی ترمیم کرتے ہوئے لکھا: سکہ زد بر گندم و موٹھ و مٹر بادشاہِ تسمہ کش ، فرخ سیئر وہ اپنے زمانے کا معروف صحافی ہونے کے زعم میںبادشاہ کی اگاڑی اور گھوڑے کی پچھاڑی سے بچنے والی نصیحت کو بھی فراموش کر بیٹھا اور اسی تحریف کی پاداش میں ۱۷۱۳ء میں جابر سلطان کی اسی مذکورہ تسمہ کشی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ (جاری ہے)