اس کانام تو کچھ اور ہے جو برسوں سے مانجھی فقیر کے وسیع دامن میں کہیں لاپتا ہوگیا ہے، مجھے بھی کبھی اس کے اصل نام کا کھوج لگانے کی ضرورت نہیں پڑی، اس لئے کہ میں اس کی بے لوث محبتوں اور دل میں اتر جانے والے سروں کا اسیر ہوں۔وہ میرے چولستانی یار آں جہانی فقیرے بھگت کی طرح ایک ہاتھ میںیک تارا اور دائیں ہاتھ میں چپڑی اٹھا کر عارفانہ کلام گا کربدلتی رتوں کے قدم تھام لیتا ہے اور یہ کہ اڑتے ہوئے پنچھی اس کے سُروں میں اپنی بولیاں اور اپنی منزلیں بھول جاتے ہیں ۔ ہالارفقیر اس کا ہم زاد ہے جو یک تارے اور چپڑی کے ساتھ برسوں سے اس کا ساتھ نبھا رہا ہے۔ مانجھی فقیرسانگھڑ کے ایک نواحی گائوں بروڑ شریف میں در محمد فقیر کے گھر پیدا ہوا جو خود شاہ لطیفؒ ،سچل سرمستؒ اورشاہ عنایتؒ کے دل داروں میں شامل تھے۔صوفی منش باپ کی گود میں پرورش پانے والا یہ بچہ آج سندھ میں صوفی ازم کی تحریک بن چکا ہے، والد کا سایہ سر پر نہیں رہا لیکن باپ کی دی ہوئی تربیت کی وہ لاج نبھائی ہے کہ مانجھی فقیر سندھ کے صوفیانہ سماج کی شناخت بن گیا ہے۔مانجھی فقیر یک تارا اور چپڑی لے کر درباروں اور میلوں ٹھیلوں میں آیا تو خلق خدا اس کی لے اور تان پر ٹوٹ پڑی۔ عارفانہ کلام گا کر لوگوں سے محبتیں سمیٹتے اور خاک نشینوں میں محبتیں بانٹتے اس کی زندگی کے تیس برس بیت گئے ہیں۔ اب مانجھی فقیرسندھ کی تاریک راہوں میں وڈیرہ شاہی اور ظلم اورجبر کے خلاف ایک بلند آوازاور روشنی کی ایک واضح دلیل کے طور پر سامنے آیا ہے۔ وہ راگی ہے جس کے بکھیرے ہوئے راگوں نے سندھ دھرتی کے تن پر محبت کے دیپ جلا کر لوگوں کو اپنی صوفیانہ تحریک’’حق موجود‘‘ کی جانب متوجہ کیا ہے۔ اس نے اپنے بابا سائیں درمحمد فقیر کی درگاہ سے متصل اپنا آستانہ قائم کرلیا ہے جس کی ’’آستانہ مانجھی فقیر‘‘ کے نام سے شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔مانجھی فقیرپیدائشی راگی ہے ،وہ ایک ایسا راگی ہے جس نے اپنے سروں اور راگوں سے سارے جہاں کو اپنا گروید ہ کر لیا ہے، اس کی یہ تحریک حضرت شہباز قلندر ؒ، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ اور حضرت سچل سرمست ؒ کی تعلیمات سے الگ کوئی نیا عقیدہ یا دین اکبری کی طرح کوئی نیا دین نہیں ہے ، مانجھی فقیر کے پاس اپنی کوئی اختراع یا کوئی جدید فلسفہ نہیں ہے بلکہ اس نے مروجہ صوفیانہ رنگوں کو راگوں کے ذریعے پھیلانے کا ایک منفرد دائرہ قائم کیا ہے جس میں سب کے سب کھچے چلے آتے ہیں۔مانجھی فقیر کے آستانے پر علم وادب پربات ہوتی ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے نت نئے کھلنے والے زاویوںپر بحث کی جاتی ہے،گوناگوںمباحث چھڑتے ہیں۔ اسے اگر شارح شاہ لطیفؒ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، شیخ ایاز،آفاق صدیقی اورآغا سلیم جیسے بہت کم دانشور ہیں جنہوں نے شاہ لطیف ؒ کی راگوں اور ثقافتی رنگوں سے مزین شاعری سمجھ کر اسے اردو میں ڈھالا ہو۔مانجھی فقیر وہ شارح ہے جو راگوں کے ذریعے شاہ جو رسالوں میں مذکور دنیا جہان کے فلسفوں کو عام لوگوں پریک تارا اور چپڑی کی جھنکار سے آشکار کردیتا ہے۔ اس آستانے پر بلا رنگ ونسل گائیک، راگی ، دانشور، ادیب،شاعر، صحافی،سائنسدان حاضری بھرتے ہیں اور کوئی اس در سے خالی نہیں جاتا۔مانجھی فقیراپنے آستانے پر آنے والوں کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا بلکہ ان کی جھولیاں خلوص و محبت سے بھر کر انہیں واپس بھیجتاہے۔یہی وجہ ہے کہ گائیکی اور راگوں کے ذریعے پھیلنے والی اس تحریک نے شدت پسندوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ مانجھی فقیر کی زندگی سندھ کی پسماندگیوں اور روایتوں سے بغاوتوں سے عبارت ہے۔وہ مذہب ،کاروبار،روایات اور رواج کے نام پر ہونے والے استحصال کے خلاف ہے۔وہ اسلامی عقائد سے مفر نہیں لیکن وہ انسانیت کو سب سے بڑی دلیل اور حقیقت قرار دیتا ہے ۔وہ خود کو حسینیت کا علمبردار اور یزیدیت کے خلاف کھلی تلوار سمجھتا ہے ، اس کی یہی بے باکی اس کا جرم ٹھہری ہے اور مذہب کو مخصوص زاویوں سے دیکھنے اور لاگو کرنے کا حامی طبقہ اس کی زندگی کے لئے مستقل خطرہ بن گیا ہے۔اس کی زندگی اور آستانے کو کئی بار مٹانے کی کوشش کی گئی لیکن مانجھی فقیر کربلائی درس فراموش کرنے اورشاہ لطیف سرکار ؒ کی تعلیمات سے سرموانحراف کے حق میں نہیں ہے ۔ وہ سچا راگی ہے اس لئے وہ جان ہتھیلی پر رکھ کراپنے رسیلے راگوں اور سچے سروں کے ذریعے اپنی جدوجہدجاری رکھے ہوئے ہے ۔مانجھی فقیر کی زندگی میں ایک موڑ ایسا بھی آیا کہ جب اس نے تھر کے بزرگ شاعر حافظ نظامانی کا کلام مانجھی فقیر نے گایا تو ہر طرف اودھم مچ گیا اور اس کے خلاف فتوے جاری ہونے لگے اور اس کی زندگی اندیشوں میں گھر گئی۔اس کلام کی حقیقت جاننے سے پہلے اس کلام کے خالق کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔حافظ نظامانی تھر کے باشندے ہیں،اوروہ مسلمان ہیں اور ایک ایسے علاقے میں رہتے ہیںجہاں ہندوئوں کی اکثریت رہائش پذیرہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں بین المذاہب ہم آہنگی کا رنگ غالب ہوتاہے۔ مانجھی فقیر کے ناقدین حافظ نظامانی سے بھی اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنی وہ مانجھی فقیر سے۔ اس بار مخالفین نے ایک نئی چال چلی اورچندروزقبل مانجھی فقیر کے ایک بھتیجے یا بھانجے کا فیس بک اکائونٹ ہیک کر کے اس پر قرآن مجید کی ایک آیت کا متنازعہ ترجمہ لگا کر مانجھی فقیر کے آستانے سے منسوب کیاگیااور لوگوں کو مانجھی فقیر کے خلاف اشتعال دلایا گیااور سیکڑوں بے خبر لوگ اس فقیر کے آستانے پر چڑھ دوڑے ، اس دوران عدم موجودگی کے سبب مانجھی فقیر اور ان کے ساتھ ہالار فقیر تو اس ہجوم کے غیظ وغضب سے محفوظ رہے البتہ ان کے آستانے کو زک پہنچایا گیا اور آستانے کی تختیاں اکھاڑ پھینکی گئیں۔اس بانجھ موسم میں مانجھی فقیر کی وضاحتیں اور فریادیں سننے والا کوئی نہیں ہے۔صوفیوں کی سرزمین سندھ پر نفرت کا یہ پیغام لمحہ فکریہ ہے، اس سوچ اور روش کو لگام نہ دی گئی تو سندھ کے سارے آستانے ان نفرتوں کی آگ میں جل کر بھسم ہو جائیں گے۔