6 اگست 2019ء کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہُوئے۔ وزیراعظم عمران خان نے ، بھارتی وزیراعظم شری نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی جنم داتا ہندوئوں کی متعصب ، دہشت گرد تنظیم ’’راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ ‘‘ ۔(R.S.S) سے شکوہ کِیا تھا کہ ’’ اُنہوں نے ہندوئوں کے لیڈر مہاتما گاندھی کو قتل کرادِیا تھا‘‘ ۔ اِس پر مَیں نے اپنے 14 اگست 2019ء کے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ بھولے وزیراعظم !۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ تو ’’ گاندھی جی‘‘ کو ۔ مسٹر گاندھی ؔکہتے تھے اور گاندھی جی بھی ۔ قائداعظمؒ کو مسٹر جناح ؔ ؒ !۔ ہندی زبان ؔ کے لفظ ’’ مہاتما ‘‘ کا مطلب ہے ’’نہایت مقدس ، نیک ، ولی ٔ کامل، بزرگ ، فیاض ، سخی اور بلند حوصلہ ‘‘۔ مَیں نے یہ لکھا تھا کہ ’’ کپل وستو ‘‘ کے شہزادہ سدھارتھ ؔ ، المعروف گوتم بدھ ؔ کو مہاتما ؔ کا خطاب سجتا تھا ۔ مناسب یہی ہے کہ ’’ گجرات کی بنیا قوم کے مسٹر گاندھی کو ۔ ’’ مسٹر گاندھی ہی کہا جائے‘‘ لیکن ، اب کیا کِیا جائے معزز قارئین!۔ وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی بھی اپنے خطابات اور بیانات میں مسٹر گاندھی کو ’’ مہاتما گاندھی‘‘ ہی کہتے ہیں اور اُن کے ساتھ ساتھ وزیراعظم عمران خان کی ، طرح بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی بھی تعریف کرتے ہیں کہ ’’وہ بھی بڑے پُر امن اور جمہوریت پسند تھے‘‘۔ یہ جنابِ وزیراعظم اور جنابِ وزیر خارجہ کا اپنا مؤقف ہے لیکن ، مَیں تو اور میرے مسلک کے دوسرے پاکستانی جن کے بزرگوں نے قیام پاکستان کے لئے بے شمار قربانیاں دِ ی ہیں ۔ وہ تو شری موہن داس کرم چند گاندھی کو مسٹر گاندھی ! ہی کہیں گے ؟۔ قائداعظمؒ کی قیادت میں ’’ آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘ اور مسٹر گاندھی ؔکو باپو ؔکہنے والی ، ہندوئوں کی جماعت ’’ آل انڈیا نیشنل کانگریس ‘‘ کی پالیسی میں کتنا فرق تھا ؟۔ اُس کے لئے صِرف ایک ہی مثال کافی ہوگی۔ 18 اگست 1942ء کو ’’آل انڈیا نیشنل کانگریس نے ’’ہندوستان چھوڑ دو تحریک ‘‘ شروع کرنے کا فیصلہ کِیا اور برطانوی حکومت سے مطالبہ کِیا کہ ’’وہ فوری طور پر ہندوستان چھوڑ دے! ‘‘ ۔ مسٹر گاندھی نے ہندوئوں سے کہا تھا کہ’’ تم مارو یا مر جائو!‘‘۔ پھر اِس تحریک نے بغاوت کا روپ دھار لِیا تھا ۔ جس کے نتیجے میں 4 ماہ میں 940۔ افراد مارے گئے ، علاوہ ازیں ایک کروڑ 35 لاکھ کی املاک کو بھی نقصان پہنچا تھا ۔ یہ بات "On Record" ہے کہ ’’ آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ مسٹر گاندھی ؔکی ’’ہندوستان چھوڑ دو تحریک ‘‘ سے الگ تھلگ رہی تھی۔ 30 جنوری 1948ء کو اگر (R.S.S) کے کارکن "Nathuram Godse"نے مسٹر گاندھی کو قتل کردِیا تھا تو ، یہ "Hindu Jati" ( ہندو قوم ) کا اپنا معاملہ تھا ؟۔ ہمیں اُس سے کیا ؟۔ 16 اکتوبر 1951ء کو ایک پاکستانی (مسلمان ) سَید اکبر نے ، راولپنڈی کے جلسہ عام میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم ’’ قائدِ ملّت ‘‘ خان لیاقت علی خان کو شہید کردِیا تھا ۔ کیا بھارت کے کسی سیاستدان میں (خاص طور پر) ’’انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے عہدیدار نے پاکستانیوں سے اِس طرح کی ہمدردی کا اظہار کِیا تھا ؟۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’’اُس وقت مسٹر گاندھی زندہ و سلامت تھے جب ، 15 اکتوبر 1947ء کو ایک ہندو مہر چند مہاجر کو مقبوضہ کشمیر کا وزیراعلیٰ مقرر کِیا گیا تھا ۔ 27 مئی 1964ء تک پنڈت جواہر لعل نہرو بھارت کے وزیراعظم رہے۔ اُن کے دَور میں ’’شیر کشمیر ‘‘ کہلانے والے شیخ عبداللہ اور بخشی غلام محمد ۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے اپنے دَور میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو اپنی قسمت کا خود فیصلہ کرنے کا موقع کیوں نہیں دِیا؟۔ مسئلہ یہ ہے کہ ’’ بھارت میں حکومت ’’ انڈین نیشنل کانگریس ‘‘ کی ہو ۔ ’’ بھارتیہ جنتا پارٹی‘‘ کی یا کسی اور پارٹی کی ۔ بھلا کسی ہندو وزیراعظم سے یہ توقع کیسی کی جاسکتی ہے کہ ’’ وہ مقبوضہ کشمیر میں آباد ( آبادی کے لحاظ سے) مسلمانوں کی اکثریت کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا موقع دے سکیں؟۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کے بعد،4 اپریل 2016ء سے 20 جون 2018ء تک محبوبہ مفتی مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی وزیراعلیٰ رہیں لیکن، پھر اُنہیں اور دو سابقہ کٹھ پتلی وزرائے اعظم ، عمر عبداللہ اور غلام نبی آزاد ؔ کو بھی ( تائب ہو کر ) یہ کہنا پڑا کہ ’’ ہم اور ہمارے بزرگ پاکستان پر بھارت کو ترجیح دینے میں غلط تھے ‘‘۔ فیروز گاندھی ؔ/ اِندرا گاندھیؔ معزز قارئین!۔ 28 مارچ 1942ء کو، پنڈت جواہر لعل نہرو کی بیٹی ۔ اِندرا نہرو ؔنے ایک پارسی نوجوان فیروز گاندھی سے شادی کرلی تھی۔ فیروز گاندھی ۔ کے نام میں گاندھی ؔ کے "Spelling"( ہجے ) تھے ۔ "Ghandy" لیکن، وہ ہندوئوں کے باپو مسٹر گاندھی کا چیلا تھا۔ اُس نے اپنے نام کے "Spelling" (مسٹر گاندھی کے نام کے Spelling) کی طرح "Gandhi" کرلئے ۔ مسز اندرا گاندھی 2 بار بھارت کی وزیراعظم رہیں۔ (24 جنوری1966ء سے 24مارچ 1977ء اور 14 فروری 1980ء سے 31 اکتوبر 1984ئ) تک ۔ 16 دسمبر 1971ء کو وزیراعظم اندرا گاندھی۔ پاکستان کو دولخت ؔ کرانے میں کامیاب ہو گئی تھیں ۔اِس سے پہلے دسمبر1970ء میں متحدہ پاکستان (مشرقی اور مغربی پاکستان کے ) عام انتخابات میں ( شیخ مجیب اُلرحمن کی قیادت میں ) اُن کی ’’عوامی لیگ ‘‘ قومی اسمبلی میں اکثریتی پارٹی بن کر اُبھری ‘‘ اور مغربی پاکستان میں جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی چیئرمین شِپ میں اُن کی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ دوسری اکثریتی پارٹی تھی۔ انتخابات کے بعد (اُن دِنوں ) صدر جنرل محمد یحییٰ خان نے شیخ مجیب اُلرحمن کو وزیراعظم بنانے کا وعدہ ( اعلان ) بھی کردِیا تھا لیکن، جنابِ بھٹو نے مطالبہ کِیا تھا کہ ’’ قومی اسمبلی میں میری پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی اقتدار میں شامل کِیا جائے !۔ معزز قارئین!۔ مَیں زیادہ تفصیلات میں نہیں جائوں گا ۔ صِرف اِتنا عرض کروں گا کہ ’’ ۔15 اگست 1975ء کو بنگلہ دیش کے "President"شیخ مجیب اُلرحمن کو ( اُن کے ) اپنوں نے قتل کردِیا۔ 4 اپریل 1979 ء کو جناب ذوالفقار علی بھٹو کو قصور کے نواب محمد احمد خان ، کے قتل کی سازش میں بڑے ملزم کی حیثیت سے ، سپریم کورٹ کے حکم سے پھانسی دے دِی گی تھی اور 31 اکتوبر 1984ء کو مسز اندرا گاندھی کو اُن کے سکھ باڈی گارڈز ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ نے گولی مار کرہلاک کردِیا ۔اِس طرح مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے اور بنوانے کے تینوں کردار غیر فطری موت کا شِکار ہُوئے ؟ ۔ حیرت تو یہ ہے کہ ’’ شری مودی بھی ، خود کو ’’بنگلہ دیش کے بانیوں ‘‘میں سے ایک سمجھتے ہیں ؟۔ سوال یہ ہے کہ ’’ اگر وزیراعظم عمران خان اور جناب شاہ محمود قریشی ، مسٹر گاندھی کو ’’ مہاتما گاندھی ‘‘ کہتے رہیں گے تو ، کیا ہمارے اپنے مہاتمائوں (’نہایت مقدس ، نیک ، ولی ٔ کامل، بزرگ ، فیاض ، سخی اور بلند حوصلہ ) کی پوزیشن خراب نہیں ہوگی؟۔ ملتان میں ’’ سہروردیہ سلسلہ ‘‘ کے بانی ، صوفی اور ولی ٔ کامل حضرت بہاو الدین زکریاؒ ( 1170ئ۔ 1262ئ) کے عقیدت نہ صِرف پاکستان بلکہ پاکستان سے باہر بھی موجود ہیں ۔ جناب شاہ محمود قریشی ، اُن ہی کی اولاد میں سے ہیں اور ایک عرصہ تک اِس گدّی کے سجادہ نشین بھی رہے ۔ اب اُن کے چھوٹے بھائی صاحبزادہ مُرید حسین قریشی سجادہ نشین ہیں ۔ بہر حال یہ حضرت شاہ بہائوالدین زکریاؒ کے ورثاء اور قریشی برادران کا آپس کا معاملہ ہے لیکن ، حضرت گوتم بُدھّ کی طرح مسٹر گاندھی کو مہاتما نہ کہا جائے اور نہ لکھا جائے تو بہت مناسب ہوگا۔ علاّمہ اقبال ؒنے اپنی ایک نظم میں مہاتما بدھ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہُوئے کہا تھا کہ… قوم نے پیغام گوتم ؔکی ذرا پروا نہ کی ! قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی ! …O… آہ بد قسمت رہے آواز حق سے بے خبر ! غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر ! …O…