ماحولیاتی تبدیلیاں دنیا میں انسان کی بقا کا مسئلہ بن چکی ہیں لیکن ہمارے عام لوگوں میں اس بات کا ادراک کم ہے۔وزیراعظم عمران خاں کا ایک اچھا کام یہ ہے کہ انہوں نے ملک میں ماحولیاتی مسائل اور درخت اُگانے کی اہمیت کو پہلی بار قومی سطح پر اجاگر کیا اور اسے قومی ایجنڈے پر ترجیحی درجہ دیا۔ان کی حکومت سے پہلے بھی شجرکاری کی مہمات چلائی جاتی تھیں لیکن وزرائے اعظم کی سطح پر دلچسپی نہیں لی جاتی تھی۔ عمران خاں نے ماحولیات کو خصوصی توجہ دی اور اسے قومی بیانیہ کا اہم جزو بنادیا۔ جب ملک کا وزیراعظم کسی موضوع پر بار بار بات چیت کرتا ہے اور اسکی تاکید کرتا ہے تو عام لوگوں تک زیادہ واضح پیغام جاتا ہے اور وہ اسے رجسٹر کرتے ہیں۔اگلے روز عالمی بینک اور پاکستان کی موسمیاتی تبدیلیوں کی وزارت نے ایک مشترکہ بیان پر دستخط کیے۔ اس تقریب کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خاں نے کہا کہ آنے والی نسلوں کیلیے ہم نے اپنے ماحول کو بچانا ہے۔ دنیا میں موسمیاتی‘ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے احساس اجاگر ہورہا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انکی حکومت نے جنگلات لگانے کی مہم شروع کی اور پندرہ نئے قومی پارکس کا اعلان کیا ۔ عمران خاں کی حکومت ایک ارب درخت لگانے کے مشن پر گامزن ہے۔ مخالفین کا اعتراض ہے کہ حکومت جتنی بڑی تعداد میں درخت لگانے کے دعوے کررہی ہے، حقیقت میں ایسا نہیں ہوا۔لیکن آزاد ماحولیاتی ادارے اور غیر ملکی تنظیمیں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں خیبر پختونخواہ اور ملک کے دیگر حصوں میں بڑے پیمانے پر شجر کاری کی گئی ہے۔موجودہ حکومت کے پانچ برس گزرنے کے بعد اگر ایک ارب کی بجائے پچاس کروڑ نئے درخت بھی زمین پر موجود ہوں، تو یہ بڑا کارنامہ ہوگا ۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میںوہاں کی مخصوص آب و ہوا کے باعث جنگلات اوردرخت زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں ۔کئی دہائیوں سے ٹمبر کا کاروبارکرنے والوں نے بدعنوان سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے قیمتی درختوں کو بے دردی اور غیرقانونی طور پر کاٹا اور انکی جگہ پر نئے درخت نہیں اُگائے۔ ٹمبر مافیا کے بااثر‘ دولتمند لوگ سیاست میں آگئے اور اپنے اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھا کر قانونی کارروائی سے بچتے رہے۔ ٹمبر مافیا کاسد باب کرنے کے لیے کوئی رُو رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ شمالی علاقوں میںسردی کا موسم ایک درخت کی جان لے جاتا ہے۔ مقامی غریب لوگ سردی سے بچنے کے لیے درخت کو کاٹ کر اسکی لکڑی ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ان علاقوں میں رہنے والوں کو سردی کے موسم میں سستا مٹی کا تیل اور قدرتی گیس کے سیلنڈر فراہم کیے جائیں تو درختوں کی کٹائی کم ہوسکتی ہے ۔ کم سے کم اس موضوع پر ایک جامع تحقیقی مطالعہ تو ہونا چاہیے۔ سندھ میں جنگلات کی زمینیں سیاسی بنیادوں پر بانٹ دی گئی ہیں اور وہاں درخت کاٹ کر کاشت کاری کی جارہی ہے یا کچھ اور کام کیے جارہے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد اعلیٰ عدلیہ ہی سندھ حکومت کو جنگلات کی حفاظت کا پابند بناسکتی ہے۔ وزیراعظم نے بجا طور پرکہا کہ شہر پھیل رہے ہیں اور ان پر آبادی کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ شہروں میں سرسبز علاقے کم ہورہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ شہروں کے نئے ماسٹر پلان بنائے جارہے ہیں اور انہیں ایک حد میںرکھا جائے گا۔ موجودہ حکومت نے بڑے شہروں میں کم جگہوں پرزیادہ درخت لگانے کے منصوبوں کا آغاز کیا ہے ،جن کا پہلے ہمارے ہاں رواج نہیں تھا۔ ان منصوبوں پر بروقت عمل درآمد کروانے کی ضرورت ہے۔ صرف حکوت یہ کام نہیں کرسکتی کیونکہ سرکاری اہلکاروں کا اپنا ڈھیلا ڈھالا انداز ہے‘ افسر شاہی کا سرخ فیتہ اپنی جگہ ہے۔ بہتر ہوگا کہ بڑے کاروباری ادارے‘ تاجر تنظیمیں اور شہریوں کی رضاکارانہ تنظیمیں بھی اس کام میں شامل ہوجائیں ۔ حکومت اور نجی تنظیمیں مل کر شہروں میں مصنوعی چھوٹے جنگل لگائیں تاکہ سموگ کی پیدا کردہ مشکلات بھی کم ہوں اور شہری صحت مند فضامیں سانس لے سکیں۔ صرف لاہورہی نہیں بلکہ پنجاب کی آبادی کے اعتبار سے بیس بڑے شہروں میں ایسے مصنوعی جنگل لگائے جانے چاہئیں۔ درخت معاشرہ کے لیے پھیپھڑوں کا کام کرتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے طالب علم شجر کاری میں صحیح معنوں میں حصہ لیں تو چند برسوں میں شہری آبادیوں کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ جیسے تیس چالیس سال پہلے فوجی تربیت حاصل کرنے والے طالب علموں کو اضافی بیس نمبر دیے جاتے تھے اسی طرح شجر کاری میں ٹھوس کام کرنے والے بچوں کو اضافی بیس نمبر دیے جائیں تاکہ انہیں اس طرف راغب کرنے میں آسانی ہو۔ اگر موجودہ حکومت اپنی مدت کے بقیہ دو سال میں کسی ایک شہر کو ماحولیاتی اعتبار سے ماڈل شہر بنادے تو یہ اسکاکارنامہ ہوگا۔ پاکستان میں ماحولیات کا مسئلہ آبادی میں تیز رفتاری سے اضافہ کے باعث زیادہ پیچیدہ ہے۔ ہم دنیا کے ان ممالک میں شامل ہیں جہاں آبادی بہت اونچی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ آبادی بڑھنے کی سب سے زیادہ تیز رفتار خیبر پختونخواہ صوبہ میں ہے یا ملک کے دیہاتی علاقوں میں جہاں قدامت پسند سوچ خاندانی منصوبہ بندی کی سخت مخالف ہے ۔ جب تک حکومت منظم طریقہ سے پیدائش کنٹرول کرنے کے جدید طریقے عام نہیں کرے گی یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ایران اور بنگلہ دیش بھی اسلامی ممالک ہیں لیکن انہوں نے بچوں کی شرح ِپیدائش میں کمی کرکے آبادی کو کنٹرول کرلیا ہے۔ ہماری حکومتیں اتنی کمزوراور قدامت پسندحلقوںکے سامنے اتنی بے بس و لاچار ہیں کہ حکمران فیملی پلاننگ کے موضوع پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اگریہی حال رہا تو ہمارے ملک میں بیس پچیس برس بعد پینے کا پانی اور گھریلو استعمال کا پانی بھی کم یاب ہوجائے گا۔ بڑے شہروں جیسے اسلام آباد اور کراچی میں پہلے ہی پانی کی قلت ہے۔ ماحولیات کے مسائل اور آبادی میں اضافہ ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ ان دونوں سے بیک وقت نبرد آزاما ہوئے بغیر چارہ نہیں۔