برطانیہ کے شہر گلاسگو میں ماحولیات پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میںبھارت اور چین آلودگی کم کرنے کی خاطر کاربن اخراج کے اہداف بہتر بنانے پر رضامند نہیں ہوئے جبکہ امریکہ اور یورپ کے امیر ممالک ترقی پذیر ملکوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچنے کے لیے زیادہ فنڈ زدینے پر تیار نہیں ہوئے۔ ایک سو چورانوے ملکوں کے پچیس ہزار مندوبین کا یہ پندرہ روزہ میلہ کسی بڑی کامیابی کے بغیر بارہ نومبر کو اختتام پذیر ہوگیا۔ا قوام متحدہ کے تحت ماحولیاتی تبدیلیوں پر ہونے والی یہ چھبیسویں سالانہ کانفرنس(سی او پی 26) تھی۔ دنیا کے درجۂ حرارت میں اضافہ کو گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے۔ فوسل ایندھن کے استعمال سے جو گیسیں خارج ہوتی ہیںوہ دنیا کے درجۂ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔زمین کے ماحول کو تباہ کرنے والی سب سے بڑی چیز کوئلہ ہے جسکے جلانے سے بے تحاشا کاربن فضا میں خارج ہوتی ہے۔ آلودگی پھیلانے والی دوسری گرین ہاؤس گیس میتھین ہے جو زیادہ تر تیل اور گیس کے کنووں سے خارج ہوتی ہے۔صنعتی عہد شروع ہونے سے پہلے زمین کا جو اوسط درجۂ حرارت تھا وہ اب تک پرانی سطح سے 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے۔2015 میں پیرس کانفرنس میں تمام ممالک کے مابین سمجھوتہ ہُوا تھا کہ دنیا کا اوسط درجۂ حرارت دو سینٹی گریڈ سے بہت نیچے رکھا جائے گا۔ بعد میں کچھ ممالک نے کوشش کی تھی کہ یہ حد ڈیڑھ سینٹی گریڈ مقرر کی جائے۔ کیونکہ اگر اوسط درجۂ حرارت ڈیڑھ ڈگری سے اُوپر چلا گیا تو سمندروں کی سطح بلند ہوجائے گی اوربحرالکاہل اور کیریبئین جزائر کے کئی ممالک جیسے کہ مالدیپ سمندر میں غرق ہو جائیں گے۔ ایسی صورت میں سمندروں میں ساحلی مرجان (کورل ریف)ختم ہوجائے گا۔ زمین پر پائی جانے والی کئی جاندار انواع معدوم ہوجائیں گی۔ بعض خطوں میں پانی کی دستیابی کم ہوجائے گی اور زراعت ختم ہوجائے گی۔ گلاسگو میں گلوبل وارمنگ کو ڈیڑھ سینٹی گریڈ تک محدود کرنے پر اتفاق نہیں ہُوا بلکہ یہ کہا گیا کہ اگلے برس ہونے والی کانفرنس میںاس موضوع پر منصوبہ بندی کی جائے گی۔ آلودہ گیسوں کے اخراج کرنے والے ممالک میں سرفہرست چین ہے جسکا دنیا کے مجموعی آلودہ اخراج میں حصّہ اکتیس فیصد ہے۔ امریکہ کا چودہ فیصد، انڈیا کا سات فیصد۔ روس کا پانچ فیصد۔ باقی تمام ملکوں کے اخراج تین فیصد سے کم ہیں۔ ہر ملک نے فوسل ایندھن بالخصوص کوئلہ سے نکلنے والے آلودہ اخراج کم کرنے کے اپنے اپنے اہداف مقرر کیے ہوئے ہیں۔اگر بڑے ممالک اپنے سابقہ طے شدہ اہداف پر عمل کرتے رہے اور انہیں زیادہ نہ کیا تو 2030 یعنی نو سال بعد دنیا کا اوسط درجۂ حرارت ڈھائی سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے گا۔ان تمام خطرات کے باوجود کوئلہ جلانے والے ممالک اسکا استعمال جلد ختم کرنے پر تیار نہیں۔ گلاسگو کانفرنس میں معاہدہ کے پہلے مسوّدہ میں کہا گیا کہ ’کوئلہ کا آلودہ استعمال بتدریج ختم کردیا جائے گا۔‘ لیکن انڈیا کا اصرار تھا کہ اس عبارت کوتبدیل کیا جائے اور لکھا جائے کہ ’کوئلہ کے آلودہ استعمال کو کم کیا جائے گا۔‘ کوئلہ کے آلودہ استعمال کی اصطلاح کا مطلب ہے کہ کوئلہ کو اس طریقہ سے جلایا جائے کہ اس سے آلودگی پھیلانے والی گیسیں فضا میں خارج ہوں جبکہ غیر آلودہ استعمال وہ طریقہ ہے جس میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ان گیسوں کا اخراج کم ہوجاتا ہے۔ چین نے اس معاملہ پر بھارت کا ساتھ دیا۔ تمام قوموں کو یکجا رکھنے کی خاطر ان دونوں کا مطالبہ مان لیا گیا۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ کوئلہ کے استعمال کو کم کیا جائے گا لیکن اسکی حتمی تاریخ مقرر نہیں کی گئی کہ کس سال تک کتناکم کیا جائے گا۔ چین‘ آسٹریلیا ‘ انڈیا اور پولینڈ کوئلہ کازیادہ استعمال کرنے والے چار بڑے ممالک ہیں۔ آسٹریلیا کا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ کوئلہ جلانا بند کردے گا یا اسکی برآمد روک دے گا۔ پولینڈ 2049 ء تک کوئلہ کا استعمال ترک نہیں کرنا چاہتا۔بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کہتے ہیں کہ انکا ملک پچاس برس بعد یعنی 2070میں کوئلہ کا آلودہ استعمال ترک کرے گا۔ ایک امید افزا بات یہ ہے کہ کانفرنس سے ہٹ کر ایک سو سے زیادہ ملکوں بشمول امریکہ‘ چین‘ برازیل‘ رُوس وغیرہ نے اپناعلیحدہ اجلاس کیا جس میں عہد کیا کہ وہ اگلے نو برسوں تک جنگلات کاٹنے کے عمل (ڈی فارسٹیشن) کو ختم کردیں گے۔ جنگلات کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں۔یُوںگلوبل وارمنگ کم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ایک اور اجلاس میں ایک سو سے زیادہ ملکوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ میتھین کے اخراج کو اس دہائی کے اختتام تک تیس فیصد کم کریں گے۔ ماحولیاتی کانفرنس میں دوسرا بڑا معاملہ ترقی یافتہ ملکوں کی جانب سے ترقی پذیر ملکوں کو مالی مدد فراہم کرنے کا تھا۔ ایسی امداد جس سے وہ اپنے ملکوں میں کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے اقدامات کرسکیںاور ماحو لیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرسکیں۔ پیرس سمجھوتہ میں اتفاق کیا گیا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک ہر سال ترقی پذیر ممالک کو ایک سو ارب ڈالر کی امداد فراہم کریں گے۔ لیکن اس وعدہ پر پوری طرح عمل نہیں ہُوا۔ شروع شروع میں امیر ملکوں نے وعدہ سے کہیں کم رقم قرض کی صورت میں فراہم کی البتہ بعد میں یہ سالانہ امداد اسیّ ارب ڈالر تک بڑھ گئی۔ غریب ملکوں کا موقف تھا کہ وہ توپہلے ہی کاربن کا اخراج کم کرتے ہیں جبکہ اُنہیں اصل میں امیر ملکوں کی پھیلائی ہوئی آلودگی سے ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ پونے دو سو سال تک امریکہ‘ کینیڈا‘ جاپان اور مغربی یورپ کے ممالک فوسل ایندھن جلا کر معاشی ترقی کرتے رہے‘ دولت جمع کرتے رہے لیکن اس عمل سے دنیا کا ماحول تباہ ہوگیا۔ زمین کا درجۂ حرارت بڑھتا گیا۔ ترقی پذیر ملکوں کا موقف تھا کہ ترقی یافتہ ممالک نے جو نقصانات پہنچائے ہیں ان کی مالی تلافی کی جائے ۔ایک اور مطالبہ تھا کہ ترقی پذیر ملکوں کو اِن ماحولیاتی نقصانات سے بچنے کی غرض سے منصوبوں کے لیے امداد دی جائے۔ ترقی یافتہ ممالک نہ تلافی دینے کو نہ امدادی رقم بڑھانے پر رضامند ہوئے۔ کانفرنس میں طے ہوا کہ امیر ممالک ترقی پذیر ملکوں کو ایک سو ارب ڈالر سالانہ ہی فراہم کریں گے لیکن اس فرق کے ساتھ کہ اس مرتبہ تقریباً نصف رقم ماحولیاتی تبدیلیوں سے نپٹنے کے منصوبوں کے لیے ہوگی اور عالمی بینک بھی اس مد میں ترقی پذیر ملکوں کو زیادہ فنڈنگ فراہم کرے گا۔ ٭٭٭٭٭