جناب رفیق احمد لاہور کے ایک باکمال اور‘ معروف ویگن ڈرائیور ہیں اَور اِس َ میدان میںبے شمار کارنامے انجام دے چکے ہیں۔ ہم اِنٹرو ِیو کے لیے اُن کے در ِ َ دولت پرپہنچے تو ُوہ بڑی ّمحبت سے ملے۔ پھر ہمارے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اَند ر کو چلے۔ ُوہ ہمارے بازو کو ُیوں ِہلا رہے تھے گویا ہمارا گیئر بدل رہے ہوں۔ اُن کے اِس عمل سے ہماری رفتار سچ مچ تیز ہو گئی اَور ہم چند ہی سکینڈ میں ڈرائنگ رُوم میں پہنچ گئے۔اپنے برخودار کو چائے کا کہہ کر اُنھوں نے سگریٹ ُسلگا یا۔ اُن کا اِشارہ پا کر‘ ہم نے سوال جواب کا سلسلہ شروع کر دیا: ’’ رفیق احمد صاحب‘ کیا آپ بچپن ہی سے ڈرائیور بننے کا خواب دیکھا کرتے تھے؟‘‘ ’’بچپن میں تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔ والد صاحب ّقصاب تھے۔ خیال تھا کہ میں بھی قصائی بن جائوں گا لیکن میں ڈرائیور بن گیا۔‘‘ ’’ایک ہی بات ہے۔ اچھا یہ بتائیں‘ آپ کب اَور کہاں َپیدا ہوئے؟‘‘ ’’یہ سوال ُپوچھ کر آپ نے ُپرانی یادیں تازہ کر دی ہیں… میں21؍ جون1980ء کو جیکب آباد میں َپیدا ُہوا تھا۔‘‘ ’’ رفیق صاحب‘ یہ بات یقینا آپ کے علم میں ہو گی کہ21؍ جون سال کا گرم ترین د ِن ہے۔‘‘ ’’ہاں شاید یہی وجہ ہے کہ میرا مزاج بھی بہت گرم ہے۔ر ِشتے دار تو ُکجا ‘میرے بیوی بچے بھی میرے قریب نہیں پھٹکتے۔ ویگن چلاتے وقت میرا یہ حال ہوتا ہے کہ ایک بار ہارن دینے پر اگر کوئی آگے سے نہ ہٹے تو میں اُس پر ویگن چڑھا دیتا ُہوں۔ ایک دفعہ تو بڑا مزہ آیا۔ ایک کانسٹیبل نے سیٹی بجا کر‘ مجھے روکنا چاہا ۔ اَب کہاں مریل سی سیٹی اَور کہاں میری ویگن کا ٹرپل ہارن جس کی آواز ُسن کر لوگ اِ دھر اُدھر بھاگ نکلتے ہیں! میں نے سیٹی کے جواب میں فل والیوم پر ہارن بجا دیا۔ لوگ ُیوں بھاگے جیسے َمست ہاتھی نے حملہ کر دیا ہو ۔ لیکن ُوہ کانسٹیبل بھی عجیب ڈھیٹ شخص تھا۔ اُچھل کر ویگن کے سامنے آ گیا ۔میں چاہتا تو بریکیں لگا سکتا تھا لیکن میری غیرت نے یہ گوارا نہ کیا ۔ چنانچہ ویگن کی ایک ہی ّٹکر سے اُس کا دم برابر ہو گیا۔ یہ لوگ َوردی پہن کر ُخدا بن جاتے ہیں۔ بندے کو بندہ ہی نہیں سمجھتے۔‘‘ ’’لوگوں نے آپ کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا ہوگا۔‘‘ ’’چھڈ ّو جی ، لوگوں میں اِتنی جرأت کہاں…اَور پھر ہم اُنھیں موقع ہیکب دیتے ہیں! اُستاد نے پہلا سبق ہی یہ دیا تھا کہ مو قعہ ٔ واردات سے فرار ہو جائو!‘‘ ’’ہاں رفیق صاحب‘ یاد آیا۔ اَخباروں میں اکثرلکھا ہوتا ہے کہ ڈرائیورمو قعہ ٔ واردات سے فرار ہو گیا ۔ یہ فرار ہونے میں کیا حکمت ہے؟‘‘ ’’اگر ہم فرار نہ ہوں تو لوگ ہمیں وہیں نہ مار ڈالیں! جان کس کو پیاری نہیں ہوتی جناب؟ بندہ مار کر بھاگنا ضروری ہو جاتا ہے۔‘‘ ’’لیکن پولیس تو آپ کو پھر بھی پکڑ لیتی ہو گی۔‘‘ ’’پولیس کو پکڑنے کی کیا ضرورت ہے … ہم خود ہی تھانے پہنچ جاتے ہیں! گاڑی چھڑوانی ہوتی ہے اَور رپورٹ سے بچنا ہوتا ہے۔‘‘ ’’رپورٹ سے کیسے بچتے ہیں آپ؟‘‘ ’’پولیس سے ُمک ُمکا کر لیں تو ہر کام آسان ہو جاتا ہے ۔ او ّل تو پولیس والے رپورٹ لکھتے ہی نہیں ۔اگر مجبوراً لکھنی ہی پڑ جائے تو بڑی کمزور سی رپورٹ لکھتے ہیں۔جو عدالت میں پہنچتے ہی دم توڑ دیتی ہے۔‘‘ ’’زندگی کے پہلے مہلک حادثے کی تفصیل یاد ہو تو فرمائیے!‘‘ ’’ہاں!پہلا مہلک حاد ِثہ ویگن سنبھالنے کے چند روز بعد ہی پیش آ گیا تھا۔ ویسے تو پہلے د ِن ہی َمیں نے ایک ُبوڑھے کی ٹانگیں توڑ دی تھیں‘ لیکن مہلک حاد ِثہ گلاب دیوی ہسپتال کے سامنے پیش آیا تھا۔ میں نے ایک لاری کو اوور ٹیک کیا تو اچانک ایک شخص ویگن کے سامنے آ گیا ۔بعد میں پتا چلا کہ ُ وہ ٹی بی کا مریض تھا۔مجھے اُس کے َمرنے کا افسوس نہ ُہوا کیونکہ چند د ِن بعد اُس نے ویسے ہی َمرجانا تھا۔‘‘ ’’رفیق صاحب ‘ اکثر اَوقات پڑھنے میں آتا ہے کہ تیز رفتار َویگن کا ٹائی راڈ ُکھل گیا اَور بس سٹاپ پر کھڑے مسافروں پر چڑھ گئی۔ آپ لوگ ٹائی راڈ کو اچھی طرح باندھ کر کیوں نہیں رکھتے؟‘‘ ’’جناب ٹائی راڈ کوئی گٹھڑی تو ہوتی نہیں کہ اُسے ہم باندھ کر رکھیں ۔یہ موٹر مکینکوں کی ّہڈ حرامی ہے۔‘‘ ’’بعض اَوقات ٹائر َپھٹ جاتا ہے۔ آپ ٹائروں کی حالت تو خود بھی دیکھ سکتے ہیں۔‘‘ ہم نے کہا ’’نئے ٹائر کی قیمت کا کچھ اَندازہ ہے آپ کو؟… ٹائروں کی حالت دیکھیں کہ اپنی حالت دیکھیں؟ ویسے بھی ٹائر ٹھیک ٹھاک ہی چل رہے ہوتے ہیں۔ اچانک پھٹتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ حالت خراب تھی ۔ پھٹنے سے پہلے وُہ کبھی نہیں پھٹتے۔‘‘ ’’آپ سال میں اوسطاً کتنے حادثے کر لیتے ہیں؟‘‘ ’’سال کا تو اَندازہ نہیں ‘البتہ مہینے میں آٹھ دس اَفراد ضرور زخمی ہو جاتے ہیں جن میں سے ایک دو َمر بھی جاتے ہیں۔ ویسے اکثر زخمی‘ ہسپتال جا کر َمرتے ہیں۔‘‘ ’’اَیسا کیوں؟‘‘ ’’ ُوہ ُیوں کہ جب کسی شدید زخمی کو ہسپتال لے جایا جاتا ہے‘ ڈاکٹر اُسے ہاتھ لگانے سے بھی اِنکار کر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں: یہ پولیس کیس ہے۔ پہلے پولیس اپنی کارروائی مکمل کر ے‘ پھر مریض کو دیکھیں گے ۔ اِسی َرولے غولے میں ُوہ غریب َمر جاتا ہے۔‘‘ ’’پولیس سے آپ کے تعلقات کیسے ہیں؟‘‘ ’’ بالکلبھائیوں جیسے ! ہم اُنھیں نہ صرف باقاعدگی سے ماہانہ دیتے ہیں بلکہ روزانہ بھی دیتے ہیں۔ دیکھو جی‘ اگر پولیس تعاون نہ کرے تو ویگنیں چل ہی نہیں سکتیں۔ ویگنیں نہ ہوں تو بے چاری عوام کیا کرے گی۔ ٹیکسی کا تو کرایہ ُسن کر ہی اِنسان کا رنگ پیلا پڑ جاتا ہے۔ ہم تو اَپنی عوام کی خدمت کرتے ہیں جناب!‘‘ ’’آپ عوام کو کوئی پیغام دینا پسند فرمائیں گے؟‘‘ ’’جی بس یہی کہ جیو اَور جینے دو!‘‘ ’’ معاف کیجئے گا رفیق صاحب ، عام طور پر تو آپ ’’ مارو اور مرنے دو ‘‘ کے اُصول پر عمل کرتے ہیں‘‘۔ ’’بڑے افسوس کی بات ہے … بڑے ہی افسوس کی بات ہے بلکہ دُکھ کی بات ہے!آپ نے یہ کہہ کر ُپھیکو کا د ِل توڑدیا ہے ۔ شکر کریں‘ اِس وقت َمیں ویگن میں نہیں ُہوں اَور آپ سڑک پر نہیں ہیں ۔خیر کوئی بات نہیں‘ اِنشاء اللہ کبھی نہ کبھی سڑک پر بھی آپ سے ملاقات ہو ہی جائے گی!‘‘ ’’رفیق صاحب‘ آپ تو ُبرا مان گئے! میں نے تو یونہی مذاق میںکہہ دیا تھا۔ اگر میری بات سے آپ کے نازک جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے تو میں معافی کا خواست گار ُہوں۔مجھے پتا نہیں تھا کہ آپ اِس قدر ّحساس اِنسان ہیں۔‘‘ ’’آپ نے اِس سے پہلے بھی ایک بات کہی تھی کہ قصائی ہونا اَور ویگن ڈرائیور ہونا‘ ایک ہی بات ہے؛ مگر میں نے اُس کا نوٹس نہ لیا… کیا ُوہ بھی مذاق تھا؟ ’’جی ہاں‘ مذاق کرنا میری عادت ہے!‘‘ ’’ تو پھرکوئی بات نہیں ۔آپ ِبلا خوف دفتر آئیں جائیں۔ میری طرف سے آپ تسلی رکھیں‘ البتہ دُوسرے ویگن ڈرائیوروں سے ہوشیار رہیں!‘‘ ’’شکریہ رفیق صاحب‘ ُخدا حافظ!‘‘