اسلام آباد(سپیشل رپورٹر؍این این آئی)حکومت نے اپوزیشن کو آزادی مارچ کی مشروط اجازت دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کے حق کو تسلیم کرتے ہیں، اسلام آباد میں احتجاج سے متعلق عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں، عدالتی فیصلوں کے مطابق اپوزیشن کو احتجاج کی اجازت دی جائے گی، کسی کوسڑکیں بند کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، فیصلوں پر عمل درآمد کے حوالے سے حکمت عملی وزارت داخلہ طے کرے گی۔بدھ کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں دھرنے اور مارچ سے متعلق امور پر تفصیلی غور کیا گیا۔ اپوزیشن سے مذاکرات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں کے متعلق وزیراعظم کواعتماد میں لیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ کوشش کریں گے کہ 27 اکتوبر سے پہلے اپوزیشن کو مذاکرات پرآمادہ کرلیں، امید ہے مولانا فضل الرحمان ہماری بات مان جائیں گے ۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے کہا حکومت جمہوری روایات پر یقین رکھتی ہے لیکن کسی قسم کی بلیک میلنگ میں نہیں آئے گی۔وزیراعظم نے کہا اپوزیشن سے مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں حکومت کا لائحہ عمل تیار ہے اور کسی کو بھی عوام کے جان و مال سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔علاوہ ازیں وزیراعظم سے سینئر صحافیوں نے ملاقات کی۔وزیر اعظم آفس کے مطابق ملاقات میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال، مسئلہ کشمیر اور مظلوم کشمیریوں پر بھارتی حکومت کی جانب سے ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے سلسلے میں حکومتی کوششوں، ملکی معیشت کی بہتری کے لئے حکومتی اقدامات اور سیاسی صورتحال سمیت مختلف موضوعات پر بات چیت ہوئی۔وزیراعظم نے دو ٹوک اعلان کرتے ہوئے کہاکہ اپوزیشن کے مطالبے پر کسی بھی قیمت پر استعفیٰ نہیں دوں گا، ملک کو مشکلات سے نکال کر دکھائیں گے ،مہنگائی اور بیروزگاری بڑے مسائل ہیں اور اس پر کام کر رہے ہیں،اپوزیشن کی ہر جماعت مختلف بات کر رہی ہے ، نہیں معلوم اُن کا ایجنڈا کیا ہے ، نواز شریف کچھ اورکہتے ہیں، مولانا صاحب کچھ، جبکہ بلاول بھٹو اور شہباز شریف کچھ اور کہتے ہیں۔وزیر اعظم نے مولاناکے احتجاج کا ایک مخصوص ایجنڈہ ہے ،بھارتی میڈیا دیکھیں فضل الرحمان کے دھرنے پر خوشیاں منائی جارہی ہیں، بھارت پہلے مولانا حضرات کے خلاف تھا لیکن آج دھرنے پر خوشیاں منا رہا ہے ۔انہوں نے کہا مولانا کے انٹرویو اور خبر چلانے پر کوئی پابندی نہیں۔انہوں نے کہا مولانا ہر سیاسی جماعت کو الگ الگ ایجنڈا بتاتے ہیں، حکومتی کمیٹی اپوزیشن کی رہبر کمیٹی سے مذاکرات کرے گی تاکہ ان کا ایجنڈا جان سکے ۔وزیراعظم نے کہااشارے ایسے مل رہے ہیں کہ فضل الرحمان کو باہر سے سپورٹ حاصل ہے ، فی الحال فضل الرحمان کی خواہش ہے کہ مائنس وزیراعظم ہوجائے اور ان کی یہ خواہش اس لئے ہے کہ وزیراعظم کرپشن کے خاتمے کے پیچھے ہے ۔وزیراعظم نے کہا ہمارے دھرنے اور فضل الرحمان کے مارچ میں بڑا فرق ہے ، ہم نے تمام آپشن استعمال کرنے کے بعد سٹرکوں کارخ کیا ، مولانانے سٹرکوں پر آنے سے پہلے کون سافورم استعمال کیا؟ مولانا کے مارچ کی وجہ سے توجہ کشمیر سے ہٹ رہی ہے ، سوچنا چاہئے اس میں کس کا فائدہ ہے ، ابھی مذاکرات کررہے ہیں ،باقی آپشن بعد میں دیکھیں گے ۔وزیرِ اعظم نے کہا موجودہ حکومت جمہوری اصولوں پر مکمل یقین رکھتی ہے ،اسی لئے حکومت نے اپوزیشن سے بات چیت کے لئے مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی۔ انہوں نے کہا اپوزیشن کو اپنا جمہوری حق استعمال کرنے کا مکمل حق ہے تاہم یہ حق ملکی قوانین، آئین اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی روشنی میں استعمال کیا جانا چاہئے ۔نوازشریف کی طبیعت کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا شہبازشریف کہتے ہیں نوازشریف کو کچھ ہوا تو ذمہ دار عمران خان ہوں گے ،معاملہ میرے ہاتھ میں نہیں اور نہ ہی میں کوئی عدالت یا ڈاکٹر ہوں، نوازشریف کے بیرون ملک علاج کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے ، اور اگر مریم نواز نے ملاقات کرنی ہے تو وہ فیصلہ بھی عدالت کرے گی، میں نے وزیراعلیٰ پنجاب کو ہدایت کردی ہے کہ نوازشریف کو بہترین سہولیات فراہم کریں۔ وزیراعظم نے کہا یہ ملک ہم سب کا ملک ہے اور ہم سب نے مل کر اس کی بہتری کا سوچنا ہے ، ملک میں استحکام لانے اور موجودہ چیلنجز سے نمٹنے کے لئے میڈیا کا تعاون درکار ہے ۔ انہوں نے مزید کہا اسرائیل چاہتا ہے کہ سعودی عرب اور ایران میں جنگ ہو لیکن پاکستان کی کوشش ہے کہ سعودی عرب اور ایران میں مصالحت کرائی جائے ۔مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا مسئلہ کشمیر پر دنیا کی طرف سے تاریخی ردعمل آرہا، بھارت اب کشمیر میں بری طرح پھنس چکاہے ، شروع میں ہمیں کشمیر کے معاملے پر عالمی سپورٹ نہیں ملی لیکن آج کشمیر کامسئلہ انٹرنیشلائز ہوچکاہے ، یہ معاملہ مغربی میڈیا میں آنے کے بعد زیادہ نمایاں ہوا، ہم کشمیر کے حوالے سے میڈیا سنٹر بنارہے ہیں۔اینکر پرسن ڈاکٹر معید پیرزادہ نے 92نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا وزیراعظم نے کہا کچھ لوگ پھنسے ہوئے ہیں، انہیں این آراو چاہئے ،وہ سب مولانا فضل الرحمان کی سپورٹ کررہے ہیں،جب ان سے جے یو آئی کے ارکان کی پکڑ دھکڑ کے بارے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا ہماری طرف سے گرفتاریوں کا کوئی آرڈر نہیں ۔وزیراعظم نے بتایا ہندوستان خفیہ آپریشن چاہتا تھا مگر ہم نے معاملے کو کنٹرول کرلیا ،اب ہمیں کوئی خطرہ نہیں،بھارت کی کوشش تھی کہ کوئی حملہ کیا جائے تاکہ آزاد کشمیر سائیڈ پر جنگ کا موقع مل سکے مگر ہم نے ان کے تمام خواب چکنا چور کردئیے ہیں۔معید پیرزادہ نے بتایا آصف زرداری کی صحت کے بارے کوئی بات نہیں ہوئی مگر نوازشریف کی صحت کے بارے صحافیوں کی طرف سے سوال اٹھائے گئے تو عمران خان نے جواب دیا کہ میں ان کا ذاتی ڈاکٹر یا معالج نہیں ہوں،ان کے ڈاکٹرز کو پتہ ہو گا کہ ان کی صحت کا کیا مسئلہ ہے ۔ملاقات پونے 3 گھنٹے جاری رہی۔مریدبرآں وزیر اعظم کی زیر صدارت ملک میں خصوصی اقتصادی زونز کے قیام سے متعلق اجلاس بھی ہوا۔اجلاس کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ بن قاسم، دھابیجی، رشکئی، حطار میں بجلی فراہمی کیلئے 2ارب 80کروڑ فراہم کئے جائینگے ۔وزیر اعظم نے کہا خصوصی اقتصادی زونز کا قیام جنگی بنیادوں پر مکمل کیا جائے ۔دریں اثنا وزیراعظم سے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اسد عمر نے بھی ملاقات کی۔