مارک ٹوئن بیسویں صدی کے انتہائی معروف امریکی ادیب ہیں ۔۔ایک لاجواب ناول نگار اور بے بدل مزاح نگار ۔ اُن کے ناولوں پر فلمیں بنیں اور انہیں عظیم امریکی ناول کہا گیا ۔ مارک ٹوئن کا اصل تعارف ایک شاندار مزاح نگار کے طور پر ہے۔اُن کے چھوٹے چھوٹے سادہ اور بے ساختہ طنزیہ اور مزاحیہ جملے ظرافت کے ایسے نمونے پیش کرتے ہیں جس کی مثال دیگر کسی امریکی ادیب کے ہاں نہیں ملتی ۔ 1910 ء میں مارک ٹوئن کی وفات پر اُس وقت کے امریکی صدر نے خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ انگریزی ادب پڑھنے والوں کے لیے Intellectual enjoyment کا بڑا ذریعہ تھے ۔ مارک ٹوئن کے تمام ناول اور دیگر تحریریں پڑھنے کے قابل ہیں لیکن اُن کی مختصر اور شاندار سوانح عمری کا مطالعہ بلاشبہ انگریزی اد ب کے قارئین کے لیے بے پناہ لُطف اندوزی کا باعث ہے۔آج مارک ٹوئن ہمیں یوں یاد آئے کہ1845ء میں جب مارک ٹوئن ابھی دس سال کے تھے تو اُن کے شہر اور آس پاس کے دیگر شہروں اور قصبوں میں خسرے کی انتہائی شدید اور بے حد موزی وبا پھوٹی جس نے انسانی زندگی کو معطل کر کے رکھ دیا ۔شہر بھر سے روزانہ جنازے اُٹھتے جس سے ہر طرف خوف و ہراس پھیلا ہو ا تھا ۔ مارک ٹوئن کی والدہ اس خطرناک وباء کی وجہ سے اپنے تین بچوں کے بارے میں سخت پریشان اور خوفزدہ تھی ۔ مارک ٹوئن اور اُن کے بھائی بہن مکمل ’’ لاک ڈائون ‘‘ میں تھے ۔ باہر نکلنے اور آس پاس کے لوگوں سے ملنے پر پابندی تھی ۔ سارا دن باہر کھیلنے والے بچوں کو جب گھر میں قید کر کے بٹھا دیا گیا تو اُن کے لیے وقت کاٹنا بے حد مشکل ہو گیا۔ مارک ٹوئن لکھتے ہیں کہ وہ اس صورتحال میں سخت بے چین تھے کچھ دنوں بعد اُن کا اضطراب اپنی انتہا کو پہنچ گیا اور انہیں لگا کہ یہ لاک ڈائون کسی عذاب سے کم نہیں چنانچہ اُن میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ ۔مرنا یا جینا ۔جو فیصلہ بھی ہونا ہے فوری طور پر ہوجائے تاکہ اس اذیت ناک ’’ لاک ڈائون‘‘سے نجات ممکن ہو سکے ۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے انہوں نے خود ہی راست اقدام کرتے ہوئے ایک عجیب وغریب کام کیا ۔ مارک ٹوئن کو پتہ چلا کہ اُن کے پڑوس میں ایک لڑکا خسرے کی وباء کا بُری طرح شکار ہوا ہے اور اس وقت گھر میں شدید بخار میں مبتلا ہو کر بستر پر لیٹا ہوا ہے ۔ مارک ٹوئن جنہیں گلی تک بھی جانے کی اجازت نہیں تھی انہوں نے تمام احتیاطیں بالائے طاق رکھتے ہوئے اور سب سے چھپ چھپا کر اس بیمار لڑکے کے پاس جانے کا فیصلہ کیا اور پھر اس فیصلے پر بڑے غیر یقینی اور کمال انداز سے عمل بھی کر ڈالا ۔ یہ اُس لڑکے کے پاس پہنچے اور پھر بڑے مزے سے اُس کے ساتھ بستر میں لیٹ گئے ۔ لڑکے بیچارے کو شدید بیماری کی وجہ سے کسی کے پاس آنے کا پتہ ہی نہ چلا۔ کافی دیر بعد اُس لڑکے کی والدہ وہاں آئی اور اُس نے مارک ٹوئن صاحب کو بستر سے برآمد کر کے اُن کی والدہ کے حوالے کیا ۔ مارک ٹوئن کو یقین تھا کہ اُن کی اس اعلیٰ حرکت سے وہ اس وبا میں مبتلا ہو کر آرام سے ملک عدم سدھار جائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا ۔ وہ لکھتے ہیں کہ اُس وقت انہیں جس قدر مرنے کا شوق ہو رہا تھا زندگی بھر کبھی کسی چیز کا اتنا شوق نہیں ہوا ۔ پچھلے دنوں دنیا کرونا کی زبردست لپیٹ میں رہی ۔ وبا کی دہشت ہر جگہ موجود رہی( ابھی بھی ہے ) ۔بڑے بڑے بے بس نظر آئے ۔ گنگو تیلی سے لے کر راجا بھوج تک ۔۔کرونا کی وبانے ہر ایک کے ساتھ مساویانہ سلوک کیا ہے ۔ بلکہ دیکھا جائے تو راجا بھوجوں کے ساتھ اس کا رویہ زیادہ بے رحمانہ رہا ۔ پوری دنیا کو لاک ڈائون کا سامنا بھی رہا ۔ان حالات میں بچوں کو گھروں کے اندر محدود رکھنا ایک بڑا چیلنج تھا ۔ ہمارے پڑوس میں دس بارہ سال کا ایک لڑکا شیخو رہتا ہے ۔ شیخو مجسّم شرارت ہے ۔ شہر بھر کے شرارتی بچوں کی اگر ایک فہرست بنائی جائی تو شیخو کا نام ، بلا مبالغہ ، پہلے نمبر سے بھی قدرے پہلے آئے گا ۔ وہ چوبیس گھنٹوں میں کوئی چھبیس گھنٹے شرارتیں کرنے والا بچہ ہے۔گھر والے اُس کے سامنے بالکل بے بس نظر آتے ہیں ۔ وہ ابھی دو تین سال کا ہی ہو گا کہ اُس کی ماں نے ہاتھ کھڑے کر دئیے تھے کہ یہ اُس سے سنبھلنے کا نہیں ۔ کچھ عرصہ باپ نے سنبھالا اور اب ماں باپ کے ہوتے ہوئے محلّے والے یہ ذمہ داری ادا کر رہے ہیں ۔ اب آپ سوچیے کہ ایسے عدیم المثال شرارتی لڑکے کو لاک ڈائون میں رکھنا کیسا ہوگا ۔ جب یہ وبا یہاں عروج پہ تھی تو شیخو کے والدین کو دو چیلنج کا سامنا رہا۔ ایک کرونا اور دوسرا شیخو ۔اُن دنوںشیخوسارا دن محلے میں اس بات کا عملی مظاہرہ کرتا رہا کہ لاک ڈائون کی خلاف ورزی کر کے بھی بندہ زندہ رہ سکتا ہے ۔ ماں باپ کے بعد محلے والے بھی اسے سمجھا بجھا کر تھک گئے کہ بھئی اپنا نہیں تودوسروں کا ہی خیال کرو۔۔لیکن بے سود۔شدید لاک ڈائون کے دوران بھی وہ مجھے کبھی تو گھر سے کافی دور کسی ریڑھی سے گنڈیریاں کھاتا نظر آتا ۔اور کبھی کسی دوسرے لڑکے کے ساتھ’ چنگ چی ‘ پر بیٹھاگول گپوں کی تلاش میں کہیں جاتا ہوا پایا گیا ۔ایک دن اُس کے والد نے مجھے کہا کہ اُسے کچھ سمجھایئے۔شیخو کو کچھ سمجھانے کے کئی مضمرات ہیں جس میں اُس کی مخالفت مول لینے کا رِسک بھی شامل ہے ۔لیکن پھر بھی حقِ ہمسائیگی کے پیشِ نظر میں نے یہ سعیِ لاحاصل کرنے کا ارادہ کیا اور اُس کو سمجھانے چلا گیا ۔ اُدھر میں نے چھ فُٹ کے فاصلے پر کھڑے ہوکر شیخو کو ایک مختصر سا لیکچر دیا جس کا لُبّ لباب یہ تھا کہ ایسی گھمبیر صورت حال میں گھر پر محدود رہنے اور ’ لاک ڈائون ‘ پر عمل میں ہی عافیت ہے ۔ میرے اس دو منٹ کے لیکچر کے جواب میں شیخو نے کوئی دس منٹ کا نہایت مدلّل خطاب کیا جس میں اُس نے تخلیقِ کائنات ، فلسفہئِ حیات و ممات ، انسان کی اس کائنات میں حیثیت ، مصائب و آلام اور وبائوں کے مقاصد اور اس دوران مطلوب انسانی طرزِ عمل اور وبائی تناظر میں گنڈیریوں ، گول گپوں اور دہی بھلوں وغیرہ کے فوائد پر سیرحاصل روشنی ڈالی ۔مجھے لگا کہ’’ لاک ڈائون ‘‘ کے بارے میں میرا اپنا ایمان کمزور پڑ رہا ہے ۔ شیخو کی گفتگو ابھی جاری تھی ۔وہ کہہ رہا تھا ، ’’ انکل ! ویسے یہ لاک ڈائون بھی تو ایک عذاب سے کم نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ۔مرنا یا جینا ۔۔جو فیصلہ بھی ہونا ہے وہ ایک ہی بار اور فوراً ہو جائے ۔‘‘ مجھے لگا کہ یہ 1845 ء ہے اور مارک ٹوئن میرے سامنے کھڑا ہے ۔