جب سے کورونا وبا آئی ہے پاکستان کے دیہات میںمعمول کے مطابق زندگی کا کاروبار چل رہا ہے۔کاشتکار کھیتوں میںکام کررہے ہیں۔گندم کی فصل پک کر تیار ہوئی اوراب تک بیشتر رقبہ پرسے کسان اسے کاٹ چکے ہیں۔ بازاروں میں دیہاتوں سے سبزیاں آرہی ہیں۔ ہر جگہ دودھ کی فراہمی جاری ہے۔ گوشت بھی دستیاب ہے۔ شہر بند ہیں لیکن دیہات کُھلے ہوئے ہیں۔ٹھیک ہے کہ دیہات میں کورونا کے ٹیسٹ نہیں کیے گئے اس لیے اعداد و شمار دستیاب نہیں لیکن اگر کوئی وبا لوگوں کو متاثر کرتی تو اس کی علامات توظاہر ہوجاتیں۔ دو مہینے ہوگئے کسی گاؤں سے یہ خبر نہیں آئی کہ وہاں کورونا سے بڑے پیمانے پر خدانخواستہ اموات ہوگئی ہوں یا لوگ بڑی تعداد میں بیمار ہوکر ہسپتالوں کا رُخ کررہے ہوں۔ دیہات میں کوئی لاک ڈاؤن نہیں ہوا۔ کسان‘ مزدور‘ مویشی پالنے والے دستور کے مطابق کام کرتے رہے۔ اس سے ایک نتیجہ تو نکلتا ہے کہ دیہات کے لوگوںتک یا تو وبانہیں پہنچی یا پہنچ گئی تواس نے دیہاتیوںکو اس طرح بیمار نہیں کیاجیسے شہر میں رہنے والے لوگ متاثر ہوئے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ چونکہ ہمارے دیہات کے رہنے والے کھلی‘ ہوا دار اور دھوپ سے روشن جگہوں میںرہتے ہیں اس لیے اُن کی وائرس کے خلاف قوتِ مدافعت شہریوں کی نسبت زیادہ مضبوط ہے۔ یہ بات تو سائنسی طور پر مستند ہے کہ سورج کی دھوپ سے انسان کے جسم کی قوت مدافعت بڑھتی ہے۔ جب سورج کی کرنیں انسانی جلد پر پڑتی ہیں تو اس میں موجود کولیسٹرول کو وٹامن ڈی میں تبدیل کردیتی ہیں۔ یہ وٹامن بدن میںمدافعت کی طاقت پیدا کرتا ہے۔ شہروں میںزیادہ تر لوگ تنگ تنگ ‘ سورج کی روشنی سے محروم مکانوں میں رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ تو مصنوعی زندگی کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ کمرہ سے باہر نکلنا پسند ہی نہیں کرتے۔ سورج سے ان کی علیک سلیک ہوتی ہی نہیں۔ قدرت نے ہمیں وباؤں سے بچانے کا ایک فطری بندوبست کیا ہوا ہے اس سے بہت سے لوگ فائدہ نہیں اٹھاتے۔ شہروں میں کورونا کے زیا دہ پھیلنے کا ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے۔ یوں بھی دیکھیے کہ امریکہ اور یورپ کے ٹھنڈے ملکوں میں اس وائرس نے جو تباہی مچائی ایشیا اور افریقہ کے گرم ممالک اس سے محفوظ رہے۔ چین کا شہر ووہان جہاں وبا پہلے نمودار ہوئی وہ بھی ایک سرد علاقہ ہے۔ ایران کا شہر قم بھی۔درجہ حرارت اور دھوپ کی روشنی کا اس وائرل انفیکشن کے پھیلنے سے کوئی تعلق ضرور ہے۔ کوئی بھی انفیکشن ہو قدرت نے انسان کو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے انسان کے جسم میں طاقت رکھی ہے۔ ہر وائرس اور بیکٹیریا کی طرح کورونا وبا کا اصل مقابلہ ہمارے جسم کی قوت ِمدافعت سے ہے۔ نوویل کورونا نامی یہ وائرس انسانی معاشرہ میںداخل ہوچکا۔ کورونا خاندان کے چار اور وائرس بھی ہیں۔ اس لیے اسے نوویل کورونا کہا جاتا ہے۔ اب یہ وائرس انسانوں کے ساتھ ساتھ رہے گا جیسے اور کھرب ہاوائرس اور بیکٹیریا رہتے ہیں۔ میں نے کھرب ہا کا لفظ بہت تحقیق کے بعد استعمال کیا ہے۔ آپ انٹرنیٹ پر جاکر سائنس کی کسی مستند ویب سائٹ سے تصدیق کرلیں۔ قدرت انسان کو بچپن سے ہی ان جراثیم کے خلاف تیار کرتی رہتی ہے۔ بچے زمین پر کھیلتے ہیں ۔ اپنے ہاتھ منہ میں لیتے ہیں‘ چیزیں منہ میں ڈال لیتے ہیں۔ اس طرح وائرس ان کے جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ان کے جسم کانظام فطری صلاحیت کو استعمال کرکے ان وائرس اور بیکٹیریا کے خلاف مدافعت (امیونٹی)پر مبنی خلیے اور کیمیائی مادے بناتا ہے جو ساری عمر اس بچہ کی حفاظت کرتے ہیں۔ہماری روایتی معاشرت میں کہا جاتا تھا کہ بچہ کو مٹی میں کھیلنا چاہیے۔ سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ جیسے ہی کوئی وائرس انسان کے بدن میںداخل ہوتا ہے ہمارامدافعتی نظام تیزی سے حرکت میں آجاتا ہے۔ جسم اس وائرس یا بیکٹیریا سے نپٹنے کے لیے کئی قسم کے نئے خلیے اور کیمیائی مادے بناتا ہے۔ یہ سب ایک دوسرے سے ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتے ہوئے اس وائرس کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلے توہمارے خلیے وائرس کی افزائش روکنے کے لیے ایک کیمیائی مادہ بناتے ہیں جسے سائنسی زبان میں سائٹوکائن کہا جاتا ہے۔اگر یہ بھی کارگر نہ ہو تو ’ٹی۔سیل‘ اور انکے بعد بی۔سیل‘ نامی خلیے پیدا ہوتے ہیں جو وائرس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ان سے اینٹی باڈیز بنتی ہیں جو ہمار ے جسم کی جراثیم کے خلاف سب سے بڑی فوج ہے۔تاہم بعض اوقات ہمارے جسم میںمدافعت کا یہ نظام فیل ہوجاتا ہے۔ ہماری حفاظت کرنے والے خون کے سفید خلیے اتنی زیادہ مقدار میں سائٹاکون نامی کیمیائی مادہ بنادیتے ہیں کہ اس کاایک طوفان آجاتا ہے جو کسی عضو جیسے دل‘ پھیپھڑے یا گردہ وغیرہ میں سوجن پیدا کردیتا ہے اور بالآخر اسے ختم کرڈالتا ہے۔ اس سے موت واقع ہوجاتی ہے۔ انفلوئنزا‘ نزلہ زکام کی طرح کورونا پھیلتا جائے گا۔ جیسے پہلے ہمارا جسم اربوں‘ کھربوں وائر سوں کا عادی ہوچکا ہے‘ اِسکا بھی ہوجائے گا۔چند ماہ تک اس کا کسی قدر علاج کرنے کے لیے کئی ایلوپیتھک دوائیں بھی آجائیں گی۔ایک ڈیڑھ سال تک کوئی ویکسین بھی آجائے گی ۔ ویکسین وائرس کا ہم شکل کمزور سا جعلی قسم کاجرثومہ جسم میںداخل کرتی ہے جس سے ہمارے جسم کی حفاظتی فوج حرکت میں آکرقدرتی فوج یعنی اینٹی باڈی بنادیتی ہے۔ اگر اصل وائرس حملہ آور ہو تو بدن میں پہلے سے موجود اینٹی باڈی اسکا فورا ًخاتمہ کردیتی ہے۔ انسان بیمار ہونے سے بچ جاتا ہے۔ جب تک یہ مصنوعی مدافعتی نظام وجود میںنہیں آتا ہمیں اپنے قدرتی امیونٹی سے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنا ہے۔ اسے مضبوط بنانے کی خاطر وٹامن کی گولیاں استعمال کرنا بھی مفید ہے لیکن یہ کافی نہیں۔ جسم کے حفاظتی نظام کو طاقتور بنانے کیلیے پندرہ بیس منٹ دھوپ میں رہنا‘ ورزش کرنا‘اچھی نیند لینا‘ مناسب مقدار میں پانی پیتے رہنا‘ شوگر اور بلڈ پریشر ایسی بیماریوں کو قابو میں رکھنا اور آلودگی سے بچنا بھی ضروری عمل ہیں۔