شوکت صدیقی کے مشہور ناول جانگلوس کا کردارلالی جیل سے بھاگنے اور مجرم ہونے کے باوجود بھلا محسوس ہوتا ہے اور ہر قدم پر پڑھنے والے کی ہمدردی سمیٹتا رہتا ہے ۔ قاری کی خواہش رہتی ہے وہ کسی مصیبت میں نہ پڑے اور اس کے راستے آسان ہوتے رہیں۔ منٹو کے مشہور افسانے ہتک کی کردار سوگندھی اگرچہ جسم فروش ہے لیکن مجال ہے پڑھنے والا اس کی جسم فروشی کو بُرا سمجھے اور اس سے نفرت کرے بلکہ الٹا اس سے ہمدردی محسوس ہوتی ہے ۔ہسپانوی ڈرامہ سیریل منی ہائسٹ کا پروفیسرہیرو معلوم ہوتا ہے باوجود اس کے کہ وہ تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی کا ماسٹر مائنڈ ہے اور اس نے کھلے عام اسٹیٹ کو چیلنج کر رکھا ہے ۔ مشہور امریکی سیریز پرزن بریک (Prison Break ) کا کردار مائیکل سکوفیلڈ اگرچہ جیل توڑ کر بھاگتا ہے ،اپنے ساتھ دس اور لوگوں کو بھی بھگا لے جاتا ہے مگر دیکھنے والے کی نظر میں ہیرو ہے باوجود اس کے کہ جیل توڑنا ایک جرم ہے ۔ ایک مشہور انگلش فلم کا مرکزی کردار بینک کو لوٹنے کے بعد تمام کرنسی نوٹ ایک اونچی عمارت سے ہوا میں اچھال دیتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی قانون میں یہ ایک جرم ہے لیکن دیکھنے والوں کو ایسا کرنے والا ہیرو معلوم ہوتا ہے ۔ دوسری طرف منشی پریم چند کے مشہور افسانے کفن کے کردار گھسو اور مادھو محض نکھٹو اور کام چور ہونے کی وجہ سے پڑھنے والے کی نفرت سمیٹتے ہیںحالانکہ وہ ڈاکو ہیں نہ قاتل۔علی پور کا ایلی کا کردار علی احمد محض اس بنیاد پر بدکردار بنا کر پیش کیا گیا ہے کہ اسے زیادہ شادیوں کا شوق تھا۔ اکثر فلموں میں ہیروئن کا دوسرا عاشق محض اس لیے ناپسندیدہ کردار گردانا جاتا ہے کہ وہ ہیروئن سے عشق کرتا ہے حالانکہ ہیرو بھی یہی کرتا ہے مگر برا نہیں لگتا۔ میچ فکسنگ کے موضوع پر بننے والی ایک دلچسپ ویب سیریز Inside Edge میں دو اہم کردار جوئے کے کاروبار سے وابستہ ہیں ایک سے دیکھنے والا نفرت کرتا ہے اور دوسرے سے ہمدردی رکھتا ہے ، دیکھنے والے جوئے کو جرم بھی سمجھتے ہیںمگر ڈرامے کے ایک دوسرے کردار کے لیے خواہش بھی رکھتے ہیں کہ وہ جوا جیت جائے۔ کیوں؟ سوال یہ ہے کہ بعض اوقات اچھے خاصے بڑے مجرم پڑھنے اور دیکھنے والوں کو اچھے کیوں لگتے ہیں اور کم برے کردار قاری اور ناظر کے لیے نفرت کی علامت کیوں بن جاتے ہیں۔ اس کی دو تین وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ شاید ایک بُرے کردار کو دوسرے بُرے کردار کے مقابلے میں پرکھا جاتا ہے اور کم برے کواچھامان لیا جاتا ہے۔جانگلوس کا لالی مجرم ہے لیکن قاری نے اس کو ایک اور ظالم اور گھٹیا کردار حیات وٹو کے ساتھ موازنے میں معصوم گردانا۔ سوگندی جسم فروش تو ہے لیکن اسے بیچنے ،خریدنے اور جھنجوڑنے والے کو لکھاری نے زیادہ بُرا پیش کیا ہے۔پرزن بریک کا مائیکل سکوفیلڈ جیل توڑ کر بھاگتا ہوا اس لیے اچھا لگتا ہے کہ کہانی لکھنے والے نے نظام انصاف پر کئی سوال کھڑے کیے ہیں۔ دوسری بات اس سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ لکھاری قاری اور ناظر کے ذہن پہ قابض ہوتا ہے۔ وہ دیکھنے اور پڑھنے والے کو جیسے چاہے سوچنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ بعض کہانیوں میں ایک ہی کردار ایک وقت میں قابل نفرت ہوتا ہے اور آگے چل کر دیکھنے والے کے دل میں گھر کر لیتا ہے ۔ ڈرامہ سیریل ارتغل کی سیلجن کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا، دیکھنے والے پہلے اس کا انجام دیکھنا چاہتے تھے اور پھر اس کے کمالات۔ایچ بی او پر چلنے والی مشہورِ زمانہ ڈرامہ سیریز گیم آف تھرونز کی مدر آف ڈریگنز پچھتر قسطوں تک دیکھنے والوں کی محبوبہ بنی رہی اور آخری قسط میں اس کے ایک ہی غلط عمل نے اسے نفرت کی علامت بنا دیا یہاں تک کہ اسے قتل کر دیا گیا تو کسی کو افسوس نہ تھا۔ ٹی وی پر چلنے والی سکرپٹڈ ریسلنگ کا بھی یہی قصہ ہے، ایک ریسلر آج ولن کے طور پر رِنگ میں اترتا ہے تو چند دن کے بعد ایک ہی منظر اسے ہیرو بنا دیتا ہے دیکھنے والا سب کچھ بھول بھال کے اس کے لیے تالیاں بجانے لگتاہے ۔ بعض اوقات یوں لگتا ہے لکھاری نے قاری اور ناظر کو ہیپناٹائز کر کے اسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے ۔تبھی تو وہ مجرموں کو ہیرو مان لیتا ہے ، تبھی تو وہ کم برے کو زیادہ برا اور زیادہ برے کے مقابلے میں کم برے کو بہت اچھا سمجھنے لگتا ہے ۔ تبھی تو وہ کل کے مجرم کو آج تخت نشیں کرنے پر خوش ہو جاتا ہے اورتالیاں پیٹنے لگتا ہے۔ توکیا ناظر اور قاری کی یادداشت کمزور ہوتی ہے یا اس کا دماغ کسی اور کے ہاتھ میں ہوتاہے؟ یہ سیاسی کہانیاں کون لکھتا ہے۔ ایوب خان کی کہانی کا ایک ولن راتوں رات ہیرو بن جاتا ہے اور اسے ذوالفقار علی بھٹو کے نام سے شہرت ،محبت اور تخت سب کچھ ملتا ہے ۔ کہانی کا رخ بدلتا ہے تو ہیرو پھانسی پہ لٹکا دیا جاتا ہے دیکھنے والے کہتے ہیں اچھا ہی ہوا۔ کہانی آگے چلتی ہے تو پھانسی پہ لٹکنے والے ولن کی بیٹی کو لوگ مسیحا مان لیتے ہیں ۔دو ہی سال کے عرصے میں لوگ ولن کی ہیرو بیٹی کو بھول کر کسی اور کے لیے تالیاں بجانے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔کچھ عرصے بعد پھانسی پہ لٹکنے والا ولن زندہ ہو جاتا ہے اور ہیرو بن کر سامنے آتا ہے۔ یہاںفلم ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو جاتی ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے موازنہ کر کے کبھی ایک کے مقابلے میں دوسرے کو اچھا سمجھنے لگتے ہیں اور کبھی دوسرے کے مقابلے میں پہلے کو۔ کہانی چلتے چلتے 2016 تک پہنچ جاتی ہے ۔ وہ جسے تین سال پہلے لوگوں نے زیادہ بُرے کے مقابلے میں کم بُرا جان کر اچھا مان لیا تھا اب اس کے مقابلے میں کوئی اور آ چکا ہے ۔ وقت گزرا، اُسے آئے ہوئے بھی دو سال ہو گئے ، قاری جھنجلاہٹ کا شکار ہے ،کہانی کے اُسی کردار کو اچھا سمجھنے لگا ہے جسے برا جان کر فراموش کر دیا تھا، کہتا ہے کہ وہی اچھا تھا کیونکہ کم برا تھا۔اب اس موڑ پر لکھنے والے پہ منحصر ہے کہ پڑھنے اور دیکھنے والے کے دماغ پہ کیسے قبضہ جمائے اور مستقبل میں کس کردار کو تخت پر بٹھائے ۔