چشم نمناک لئے سینہ صد چاک سیے دور تک ہم بھی گئے اپنے خریدار کے ساتھ رنجش کار زیاں دربدری تنہائی اور دنیا بھی خفا تیرے گنہگار کے ساتھ کیا کیا جائے بات کچھ کرو‘ لوگ سمجھتے کچھ ہیں‘ شکر ہے کہ ہمارے دوست ندیم خان ہی سمجھے اور کہنے لگے کہ آپ نے خان صاحب پر بڑے لطیف پیرائے میں طنز کی ہے۔ یہاں بے جا نہ ہو گا کہ آپ کو ماضی کا نہایت دلچسپ قصہ سنا دوں ایک مرتبہ میں نے سابق آئی جی پنجاب سردار محمد چودھری کی کتاب پر ایک جملہ لکھ دیا۔ اصل میں میں شہباز شریف کی کتاب عزم و ہمت کی داستان پر لکھ رہا تھا۔ میں نے کہا کہ اس کاوش کی کیا ضرورت تھی کہ اس سے پہلے اس موضوع پر سردار محمد چودھری کی کتاب ٹیڑھی راہوں پہ چلنے والا سیدھا مسافر نواز شریف موجود تھی۔ اتفاق سے اگلے روز نوائے وقت کے دفتر سے باہر سردار محمد چودھری مل گئے۔ انہوں نے مجھے گلے لگایا اور کہا کہ وہ اسلام آباد سے آ رہے ہیں اور وہ جہاں گئے آپ کے کالم میں ہونے والی تعریف سنی۔ انہوں نے اپنی گاڑی سے اپنی تمام کتب جن میں انگریزی کی ultimate crimeبھی تھی مجھے تھما دیں۔ میں شرمندہ تھا کہ شاید وہ مجھ سے مذاق کر رہے ہیں۔ خیر میں سیدھا سید ارشاد احمد عارف صاحب کے پاس آیا اور اپنا ماجرا بیان کیا کہ کیا میں نے اپنے کالم میں سردار صاحب کی تعریف کی ہے یا طنز؟شاہ صاحب مسکرائے اور کہا چھوڑ دیں اس بات کو۔ اس مغالطے کی بات میں آپ کو شاعری میں بھی سمجھاتا جائوں کہ بعض اوقات خیال سمجھ میں نہیں آتا۔ میں ایک کالج میں مہمان خصوصی تھا اور وہاں کے وائس پرنسپل جو اردو شعبہ کے صدر بھی تھے میرے ایک شعر کی تعریف کرنے لگے جو یکسر الٹ تھی مگر ان کا قصور نہیں تھا کہ اسلوب سمجھنے کی ضرورت ہوتی۔ شعر تھا: منزلیں ان کا مقدر کہ طلب ہو جن کو بے طلب لوگ تو منزل سے گزر جاتے ہیں انہوں نے ارشاد فرمایا کہ منزلیں توانہیں ملتی ہے جنہیں طلب ہوتی ہے۔ دوسرے لوگ تو ادھر ادھر ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ شعر بتا رہا ہے کہ بڑے لوگ منزل سے بے نیاز ہوتے ہیں ان کے سامنے تو مقصد ہوتا ہے۔ منزلیں تو پیچھے رہ جاتی ہیں: ہم رہروانِ شوق تھے منزل کوئی نہ تھی منزل بنی ہے نقش ہمارے دھرے ہوئے اقبال نے بھی تو کہا تھا کہ منزل نہ کر قبول۔ خیر بات ہو رہی تھی گہرائی میں سمجھنے کی اب بتائیے کہ میں نے کیا غلط لکھا تھا یا خان صاحب کی طرفداری کی تھی کہ انہوں نے پٹرول مہنگا کر کے لوگوں کو عدم پیٹرول کی مصیبت سے بچایا ہے۔ اگر چینی مہنگی کر کے لوگوں کو اس زہر سے محفوظ بنایا ہے تو کیا برا کیا۔ باقی رہی بات آٹے کی تو آپ چاول کھا لیں۔ اب آتے ہیں کالم کی طرف کہ میں نے لکھا تھا کہ خان صاحب سب کچھ اپنے آپ پر لے لیتے ہیں اور گھبراتے بھی نہیں۔ کچھ فیصلوں کا انہیں علم تک بھی نہیں ہوتا مگر اس کے نتائج وہ خود بھگتتے ہیں۔ اب دیکھیے ناں انہوں نے پٹرول کی گرانی پر شور مچانے والوں سے کہا ہے کہ برداشت کریں۔ فرماتے ہیں ہمارے سوا کوئی چوائس نہیں۔ مدت پوری کریں گے اب دیکھیے کہ یہ کتنا پرمعنی جملہ ہے۔ مدت پوری کس نے کروانی ہے؟ کس کے پاس ان کے سوا کوئی چوائس نہیں؟یہ بیان تو عوام کے سینے پر مونگ دلنے کے مترادف ہے۔ دوسرے لفظوں میں عوام کو بتا دیا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ میں رہیں اور انہیں برداشت کریں بلکہ وہ چاہے تو اب گھبرا کر بھی دیکھ لیں۔ آپ کی حیثیت ہی کیا ہے: ہم ہیں مثال ابر مگر اس ہوا سے ہم ڈر کر سمٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں تنخواہیں نہ بڑھنے پر سول سیکرٹریٹ کے ملازمین نے یکم جولائی سے احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ ان کی تنخواہیں پٹرول مہنگا کر کے بالواسطہ کم کر دی گئی ہیں۔ ہر شے کی قیمت اب بڑھ گئی ہے۔ ٹرانسپورٹ والوں نے بھی کرایوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ کراچی میں سنا ہے فنکاروں نے بہت ردعمل دیا ہے اور پتہ نہیں خان صاحب کو کیا کچھ کہا ہے۔ بے چارے فنکار تو واقعتاً بڑی مشکل سے گزارہ کرتے ہیں۔ خان صاحب کے حق میں بے چاروں کا ناچنے کو بھی کتنا جی کرتا تھا اور ہمارے لالہ عیسیٰ خیلوی بھی نیا پاکستان بناتے ہوئے بیمار ہو گئے۔ انہیں کیا پتہ تھا کہ خان صاحب اور انکے ساتھی ان سے بھی بڑے فنکار ہیں لیکن پیارے فنکارو!اب کیا کیا جائے: ٹوٹا ہے دل کا آئینہ اپنی نگاہ سے اب کیا شکست ذات کے اسباب دیکھنا خاں صاحب بھی سمجھتے ہیں کہ اس گرانی میں تنخواہ میں اضافہ نہ کرنا معاشی قتل ہے۔ منیر نیازی یاد آ گئے۔ ’’میں جس سے پیار کرتا ہوں اسی کو مار دیتا ہوں‘‘۔ ن لیگ کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے خوب بات کی کہ چینی‘ آٹا اور پٹرول چوروں کا دفاع ریلو کٹے کر رہے ہیں۔ ریلو کٹے کی اصطلاح ہم نے بڑی دیر بعد سنی۔ آپ ریلو کٹے کو لوٹا بھی کہہ سکتے ہیں۔ بچپن میں جب ہم کھیل کے لئے دو ٹیمیں بناتے تھے تو ایک اضافی لڑکا دونوں طرف سے باری لیتا تھا اسے ریلو کٹا کہتے تھے۔ مجھے یاد آیا کہ ایک اصطلاح ’’پخ‘‘ کی بھی۔پخ اصل میں وہ ننھا گدھا ہوتا ہے جسے ریڑھی والے گدھے یا گدھی کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں تاکہ اس کی ٹریننگ ہو سکے۔ خیر یہ تو اصطلاح تھی۔ مجھے یاد آیا کہ حکومت کے ساتھ ساتھ کچھ اور معاملات بھی ہیں کہ اس مشکل میں ان کے اتحادی انہیں ستا رہے ہیں۔ ق لیگ کا صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں والا معاملہ ہے۔بلاول نے اچھی بات کہی کہ اگر آپ پٹرول کی گرانی غلط سمجھتے ہیں تو الگ ہو جائیں: خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں خان صاحب نے بھی صاف کہہ دیا ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ مگر عوام کے بارے میں انہوں نے ہرگز کچھ نہیں کہا۔عوام کو خود ہی چلنا ہے۔شاید خان صاحب نے رپورٹ نہیں دیکھی کہ پی ٹی آئی کی پہلی آڈٹ رپورٹ میں 270ارب کی بدعنوانیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ویسے یہ بھی اس حکومت کا کریڈٹ ہے کہ پہلے تو انکشاف بھی نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ پہلے کی بدعنوانیوں کا انکشاف جو خان صاحب نے کنٹینر پر چڑھ کر کیا تھا وہ بھی ثابت نہیں ہوئیں۔ایک بیان تو مجھے بھی یاد ہے کہ جب پٹرول کی قیمت بڑھتی ہے تو حکمرانوں کی جیب میں پیسہ جاتا ہے۔ اس سے ملتے جلتے کئی بیانات ہیں۔ فرماتے ہیں کہ مافیاز کا پیچھا چھوڑ دوں تو سب ٹھیک ہو جائے۔ تو پھر آپ پیچھا چھوڑ دیں۔