دست بستہ دعا گو ہوں کہ خدا ہمارے سدا بہار وفاقی وزیر ریلوے محترم شیخ رشید احمد کو طویل حیاتی دے کہ اُن کے دم سے ہمار ی خشک ،تلخ و ترش ہیجانی سیاست میں رونق میلہ لگا رہتا ہے۔ورنہ، وزیر اعظم عمران خان سمیت تحریک انصاف کی قیادت ہو یا پیپلز پارٹی کے زرداریز اور ن لیگ کے شریف ، اسکرینوں پر ہمیشہ انہیں ماتھے پر شکنیں ڈالے زبانوں سے شعلے نکلتے ہی دیکھتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا اور یہ میں پچاس ،ساٹھ ،ستر کی دہائی کی بات کررہاہوں کہ سیاستدانوں کی ایک پوری پیڑھی حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں۔ لکھی پڑھی تو ہوتی ہی تھی۔ مگر ساتھ ہی ان کے بیانوں اور تقریروں میں بھی ایک خاص Sense of humourیعنی حس ِ مزاح چھلکتی تھی۔ستّر کی دہائی میں جب سیاسی جلسوں میں آنا جانا شروع ہوا تو۔ یہ عوامی لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی ،نیشنل عوامی پارٹی ،جماعت اسلامی اورہاں پیر پگاڑا کی لنگڑی لولی مسلم لیگ کے عروج کا زمانہ تھا۔ شیخ مجیب الرحمان ،ذوالفقار علی بھٹو ،خان عبدالولی خان، میرغوث بخش بزنجو،مولانا ابو الاعلیٰ مودودی،پیر صاحب پگاڑااور ہاں ’’تانگہ پارٹی‘‘کی شہرت رکھنے والے نوابزادہ نصر اللہ خان جب عوامی جلسوں یا پریس کانفرنسوں سے خطاب کرتے تو سامعین گھنٹو ں انہیں سنا کرتے۔ہمارے ایم کیو ایم کے الطاف بھائی کا دور ذرا بعد میں آیا۔ الطاف بھائی کے جلسے کیا ہوتے ایک ڈرامہ چل رہا ہوتا تھا۔ ایک ۔ ۔ ۔ دو۔ ۔ ۔ تین۔ ۔ ۔ لاکھوں کا مجمع ساکت ہوجاتا۔مکھی کی بھنبھناہٹ بھی سنا ئی نہیں دیتی تھی۔ ہئے ہئے۔ ۔ ۔ ایک یہ دور ہے کہ الطاف بھائی کی آواز سنے کوئی ڈھائی ،پونے تین سال ہونے کو آرہے ہیں۔فیس بُک اور یوٹیوب کا آدمی نہیں ہوں۔سنا ہے ڈھیروں وزن بھی کم کر بیٹھے ہیں اور بولتے ،چلتے بھی رہتے ہیں۔مگر معذرت کے ساتھ بات وہ ’’جنگل میں مور ناچا ‘‘ والی بات ہے۔ یہ لیجئے، بات محترم شیخ رشید سے شروع ہوئی تھی اور اُس کا سبب بھی اُن کے ریلوے کیلئے کارہائے نمایاں کے حوالے سے نہیں۔ اُن کی حس مزاح پر کرنا چاہتا تھاکہ جب اسکرینوں پر اُن کی زبان ِ مبارک سے پھول بلکہ پھلجڑیاں جھڑتی ہیں تو اُن کی بازگشت دنوں نہیں،ہفتوں سنائی دیتی ہے۔ اب کراچی میں ہفتے کو اُن کے اس بیان نے بڑا لطف دیا ۔ جس میں انہوں نے بھارت کی مشہور اداکارہ ہیما مالنی کا ذکر کیا ۔ہمارے تیسرے مرحوم فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں بڑی سخت سنسر شپ تھی۔اس لئے افواہیں خبر بنتی تھیں۔جنرل ضیاء الحق کی سانولے چہرے پر سیاسی مونچھیں بڑی سجتی تھیں ۔مگر کیمرے کی آنکھ سے لگتا کہ اُن کی ایک آنکھ دوسری آنکھ سے نہیں ملتی۔اسی حوالے سے سینہ بہ سینہ یہ خبر چلی کہ جنرل صاحب کی آنکھیں ہیما مالنی سے ملتی ہیں۔اس پر زبان خلق پر یہ جملہ زبان زد عام ہواکہ۔ و ہ تو ایک دوسرے سے نہیں ملتیں۔ شیخ صاحب کا یہ جملہ اسی حوالے سے تھا کہ حکمراں ہو تو کہتے ہیں ان کی آنکھیں ہیما مالنی سے ملتی ہیں،کرسی سے اتر ے تو کہتے ہیں یہ تو ایک دوسرے سے ہی نہیں ملتیں۔ اب اس بات کو آگے کے لئے اٹھا رکھتا ہوں کہ خود ہمارے شیخ صاحب نے ایک پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور کو چھوڑ کر گزشتہ چار دہائی میں ہر سویلین اور فوجی حکومت کے گھاٹ کا پیٹ بھر کر پانی پیا ہے ۔ہمارے شیخ صاحب جتنی بار وفاقی وزیر بنے ہیں ۔ اگر ان کا نام گینزبُک میں بھیجا جائے تو ایشیا کیا ساری دنیا میں وہ سب سے زیادہ مرتبہ وفاقی وزیر بننے کا اعزاز حاصل کریں گے۔راولپنڈی سے انہوں نے ستّر کی دہائی میں ایک باغی طالب علم رہنما کی حیثیت سے شہرت کی منزلیں بڑی تیزی سے طے کیں ۔اُس زمانے میں وہ بھٹو صاحب کی شخصیت اور سیاست سے بڑے متاثر تھے۔مگر جب پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو وہ اپنے خاص مزاج کے سبب اس سے دور رہے۔بھٹو صاحب کے خلاف جب قومی اتحاد کی تحریک چلی تو وہ صفِ اول کے قائدین میں شمار ہونے لگے تھے۔جنرل ضیاء الحق کی فوجی آمریت میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ سے قریب ہوئے۔اور پھر ان سے love and hateکا رشتہ دہائی اوپر تک چلتا رہا۔ اکتوبر 1999ء میں جب جنرل پرویز مشرف کا دور آیا تو وہ جلدہی ان کی good bookمیں آگئے۔شیخ صاحب اس دوران تواتر سے الیکشن لڑتے رہے ۔ سوائے ایک بار کے،ہمیشہ راولپنڈی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے تو وزارت اُن کے پیر کی جوتی ہوتی۔شیخ صاحب کی میں نے حس ِ مزاح کا ذکر کیا مگر معذرت کے ساتھ اُن کے اُس ایک خاص مزاج کا ذکر بھول بیٹھا کہ اگر کسی کے دوست ہوں تو پھر ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔جیسے ان دنوں تحریک انصاف کے قائد وزیر اعظم عمران خان کے ہیں اگر مخالفت بلکہ نفرت پر آئیں تو بھلے وہ میاں نواز شریف ،یا پھر آصف علی زرداری ، حتی ٰ کہ نوجوان بلاو ل بھٹو زرداری ہوں شیخ صاحب کی زبان ان کا ذکر کرتے ایسی پھسلتی ہے کہ ’’توبہ بھلی‘‘۔ ۔ ۔ میں اپنے شیخ رشید صاحب کی حس ِ مزاح کا ذکر کرتے ہوئے انہیں اس ’’میدان ‘‘کا آخری آدمی سمجھتا ہوں۔ زیادہ دور نہیں جاؤں گا لیکن سیاست کو عوامی بلکہ میلہ ٹھیلہ بنانے کا کریڈٹ تو بانی ِ پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کو جائے گا۔ کہ ایوب خان کے خلاف جب سیاسی میدان میں اترے تو اُن کے جلسوں ،جلوسوں میں انہیں دیکھنے اور سننے کے لئے ایک عوامی ریلہ امنڈ پڑتا۔ایک تو سوُ ٹِڈ بوُ ٹِد ، شیروانیاں ،واسکٹ پہنے نپی تلی سیاسی گفتگو کرنے والے سیاست دانوں کے مقابلے میں یکسر مختلف اور منفرد۔ گِرے رنگ کے کرتے شلوار پر آستینیں اوپر چڑھائے ٹوٹی پھوٹی اردو میں جب جلسے سے خطاب کرتے تو ایک سماں بن جاتا۔ نظام مصطفی کی تحریک کے عروج میں وزیر اعظم ہوتے ہوئے سرکاری اسکرین پر خطاب میں فرما رہے ہیں ۔ ۔۔ یہ الزام لگاتے ہیں کہ میں پیتاہوں۔ہاں ، میں پیتا ہوں مگر عوام کا خون نہیں ۔سارے دن کے بعد جب تھک جاتا ہوں تو ایک دو پیگ لگا لیتا ہوں ۔اس پر جیالوں کا جوش و خرو ش دیدنی ہوتا۔’جئے بھٹو‘‘ کے فلک شگاف نعرے آسمان کو چھو رہے ہوتے۔یہ لیجئے،پہلے بھی اپنے بھٹکنے کی عادت کا ذکر کر چکا ہوں ۔ذکر شیخ صاحب کی حس ِ مزاح کا تھا۔ کھینچ کے لے آیا بھٹو صاحب کو ۔ بھٹو صاحب کہاں ایک کیا دو چار کالموں میں سما سکتے ہیں۔سومحترم شیخ رشید ان دنوں عمران خان کی ناک کا بال بنے ہوئے ہیں۔خواہش تو اُن کی وزیر اطلاعات بننے کی تھی۔مگر شیخ صاحب کسی بھی وزارت میں ہوں ’’وزیر اعظم‘‘ کے بعد ان کا کہا سنا ہی شہ سرخیاں بنتا ہے۔اور پھر یہ تو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ دھرنوں کے درمیان ،عمران خان کے بعد شیخ رشید صاحب ہی جلسہ لوٹا کرتے تھے۔اکثر زبان ،بد زبان بلکہ بے لگام بھی ہوجاتی تو اگلے ہی دن معذرت کرنے کا ہنر بھی شیخ صاحب پر ختم ہے۔کالم آخری دموں پر ہے۔مگر لگتا ہے کہ شیخ صاحب کا حق ادا نہیں ہوا۔ہو بھی نہیں سکتا۔شیخ صاحب کا کہا سننے کی چیز ہے،لکھنے کی نہیں ۔سیاستداں شیخ صاحب پاکستانی سیاست میں گزشتہ چار دہائی سے ’’دولہا‘‘ بنے ہوئے ہیں۔مگر کنوارے کی حیثیت سے بھی گینز بک میں ان کا نام جاسکتا ہے۔