پاکستان میں متوسط طبقہ کی بہت ڈھیلی ڈھالی تعریف کی جاتی ہے۔ ہر وہ شخص جو غریب نہیں اسے متوسط طبقہ ‘ مڈل کلاس میں شامل کرلیا جاتا ہے۔ یہ حد بندی درست نہیں۔حقیقی متوسط طبقہ کا مطلب ہے خوشحال لوگوں کا گروہ جس کے پاس بنیادی ضروریات پوری کرنے کے بعد خاصا فاضل سرمایہ بچ جاتا ہو۔ جو کھانے پینے‘ لباس‘ سواری‘ تعلیم‘ علاج معالجہ کے ساتھ ساتھ تفریح‘ سیاحت‘ثقافتی سرگرمیوںپر اخراجات کرنے کی استطاعت رکھتا ہو‘ جائیداد اور بینک بیلنس کا مالک ہو۔پاکستان کے موجودہ حالات میں ایک خاندان جس کی اوسط آمدن پانچ لاکھ روپے سے زیادہ ہو اسی کومتوسط طبقہ میںشمار کرنا چاہیے۔آپ اسے اعلیٰ متوسط طبقہ ‘ اپر مڈل کلاس کہہ لیں۔ ایسے گھرانے ہی اپنے بچوں کو مہنگے نجی اسکولوں یا کالجوں میں تعلیم دلواسکتے ہیں۔ چند سال بعد نئی کار خرید سکتے ہیں۔ سال میںایک دو بار سیاحت کے لیے جاسکتے ہیں۔پاکستان کی بائیس کروڑ آبادی تقریبا تین کروڑ چالیس لاکھ گھرانوں پر مشتمل ہے۔ایک خاندان میں اوسطاً ساڑھے چھ افراد رہتے ہیں۔تحقیقی رپورٹس کے مطابق پاکستان کی نصف آمدن ملک کی بیس فیصد آبادی لے جاتی ہے۔ یعنی پینتالیس لاکھ خاندان۔ان میں سے آدھوں کو اَمیر اورنصف کو اَپر مڈل کلاس میںشمار کرلیں۔ یہ ہمارے ملک کی اشرافیہ ہے۔اس کلاس میں بڑے زمیندار‘ بڑے تاجر‘ کارخانوں‘ کمپنیوں کے مالک‘ پراپرٹی ٹائیکون‘ کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو و‘ اینکر پرسنز‘ سرکردہ پیشہ ور ماہرین‘ اعلیٰ سطح کی سول‘ ملٹری بیوروکریسی‘ سیاسی مذہبی قائدین وغیرہ شامل ہیں۔ ملک کا نظام بیس فیصد خوشحال گھرانوں کی خدمت کے لیے وقف ہے۔ سرکاری ‘ ریاستی ادارے ہوں یا بینک ان کی خدمات بنیادی طور پر اس بیس فیصد آبادی کے لیے ہیں۔نظریاتی طور پرلبرل‘ مغربیت پسند افرادکی اکثریت بھی اس طبقہ سے تعلق رکھتی ہے۔ ملک کی باقی آبادی غریب ہے یا سفیدپوش۔ ان کا درجہ شہری سے زیادہ غیر اعلانیہ طور پر رعایا کا ہے۔یہ لوگ ایسے رہائشی علاقوںمیں رہتے ہیںجہاںاکثر و بیشتر پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔ گلیاں‘سڑکیں شکستہ حالت میںہیں۔نکاسیٔ آب کا گندا پانی گلیوںمیں بہتا رہتا ہے۔مثلاً کراچی کی نصف آبادی کچی بستیوں میں رہتی ہے۔غریب گھرانوں میں بچوں کی اوسط تعداد دیگر طبقات کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ دیہات میںعام مشاہدہ ہے کہ اکثر خاندانوں میں سات آٹھ بچے ہوتے ہیں۔ غریب لوگ علاج معالجہ کے اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔سنگین بیماری آجائے تو قرض یا خیرات لے کر علاج معالجہ کرواتے ہیں۔ ان کے بچے یا تو سرے سے اسکول نہیں جاتے۔ اگر اسکول چلے جائیں تواکثر پانچویں جماعت پاس کرنے سے پہلے تعلیم ترک کردیتے ہیں۔ بچپن سے کام کاج سیکھنے کے لیے مزدوری شروع کردیتے ہیں۔ ایک موٹے اندازہ کے مطابق پاکستان کی تقریباً نصف آبادی یعنی گیارہ کروڑ لوگ غربت کی زندگی سے دوچار ہیں۔مطلب‘ ایک کروڑ ستّر لاکھ گھرانے ۔ غریب طبقہ کے اندر کچھ زیادہ غریب ہیں اور کچھ کم غریب۔ مثلاً پاکستان کی مجموعی آمدن کا صرف چار فیصد نچلی دس فیصد آبادی کو ملتا ہے۔ یہ غریب ترین لوگ ہیں۔ غریب طبقہ میں ذات‘ برادری ‘قبیلہ کی شناخت اوراس سے وابستگی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کلاس کی اکثریت نظریاتی سیاست سے دُور اپنی بقا کی جنگ میں مصروف رہتی ہے۔ ان کی سب سے بڑی فکر یہ ہوتی ہے کہ گھر والوں کو دو وقت کا روکھا سوکھا کھانامل جائے‘ فاقہ نہ کرنا پڑے‘ کسی سے مانگنا نہ پڑے۔ ہمارے ہاں اکثر ایسے خاندان ہیں جو چھوٹے چھوٹے مکانوں میں رہتے ہیں ‘کفایت شعاری سے کھانے پینے کے اخراجات بمشکل پورا کرتے ہیں اور کم فیسوں والے اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ چونکہ یہ لوگ پیٹ بھر کر کھانا کھاسکتے ہیں اور سخت جسمانی مزدوری نہیں کرنا پڑتی اِنہیں بھی متوسط طبقہ میں شمار کرلیا جاتا ہے لیکن یہ درجہ بندی درست نہیں۔ یہ درحقیقت لوئر مڈل کلاس یا نچلے متوسط طبقہ کے لوگ ہیں۔انہیں سفید پوش کہنا چاہیے۔ ان میں سرکاری اور نجی دفاتر میں کام کرنے والے‘ کارخانوں میں سپروائزری عہدوں پرکام کرنے والے ‘ چھوٹے تاجر‘ پیشہ ور ماہرین (ڈاکٹر‘ انجینئر)‘ بیرون ممالک میں مقیم افراد کی کمائی سے مستفید ہونے والے‘ چھوٹے زمیندار وغیرہ شامل ہیں۔ موجودہ دور میں وہ سب خاندان جن کی ماہانہ آمدن پانچ لاکھ روپے سے کم ہے لوئر مڈل کلاس یا نچلے متوسط طبقہ میں شامل ہیں۔ اس طبقہ کے اندر بھی کئی طبقے ہیں۔ تین لاکھ سے پانچ لاکھ آمدن والے نسبتاً زیادہ خوشحال گھرانے ۔ ڈیڑھ سے تین لاکھ والے نسبتاً کم خوشحال گھرانے اور ستر ہزار سے ڈیڑھ لاکھ آمدن والے خاندان۔ لوئر مڈل کلاس کے لوگ خود کو غربت میں جانے سے بچانے اور اشرافیہ میں شامل ہونے کے لیے جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں۔ میرے اندازہ کے مطابق ملک کی تیس فیصد آبادی لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ کم و بیش پچانوے لاکھ خاندان بنتے ہیں۔ لوئر مڈل کلاس باتونی طبقہ ہے۔ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے۔ تبصرے کرتا ہے۔سیاسی تماش بینی کا شوقین ہے ۔ ادب‘ آرٹ ‘ سائنسی تحقیق میں کم دلچسپی ہے۔اسکی غالب اکثریت مذہبی ہے۔مذہبی اور معاشرتی رسوم و رواج کا پابند ہے۔ سماجی طور پر روایت پسند ہے۔اس کے نزدیک عقلیت اور سائنسی سوچ کی حیثیت ثانوی ہے۔یہ لوگ سازشی نظریات پر یقین کھتے ہیں۔ احساسِ عدم تحفظ شدید ہے۔ سفید پوشی سے غربت میں لڑھک جانے کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔اپنے بچوں کی تعلیم پر زور دیتے ہیں۔ سرکاری سہولتیں نہ ہونے اورنظامِ حکمرانی خراب ہونے کی شکایت کرتے رہتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ رشوت اور سفارش کے نظام سے مستفید ہونا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت میںلوئر مڈل کلاس نے سب سے زیادہ مشکلات اٹھائی ہیں۔ اسکی وجہ ماضی کی معاشی پالیسیوں کے نتائج ہوں یا کورونا وبا سے پیش آنے والی دشواریاں ۔لیکن روپے کی قدر میں کمی‘ اشیا ئے ضرورت کی زبردست مہنگائی نے سفید پوش طبقہ کے کڑاکے نکال دیے ہیں۔بجلی ‘ پیٹرول اور کھادوں کی مہنگائی نے اس کلاس کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ موجودہ حکومت میں معاشی ترقی میں اضافہ سے کاروباری اداروں نے زیادہ منافع کمایا ہے۔اشرافیہ مزید خوشحال ہوئی ہے۔ حکومت نے غریب افراد کی امداد کے لیے کئی پروگرام شروع کیے۔ احساس کیش پروگرام‘ راشن پروگرام وغیرہ لیکن لوئر مڈل کلاس کو کوئی ریلیف نہیں دیا۔ صرف ایک صحت انصاف (انشورنس)کارڈ ہے جسے پنجاب میں شروع ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔اس لیے اسکی افادیت لوگ رجسٹر نہیں کرسکے۔ نچلے متوسط کے لوگ الیکشن عمل ‘ ووٹنگ میں زیادہ شریک ہوتے ہیں۔ امیر اور خوشحال لوگ کم تناسب سے ووٹ ڈالتے ہیں۔ لوئر مڈل کلاس کے سیاسی فیصلے اگلے الیکشن اور سیاست کا رُخ متعین کرنے میں اہمیت کے حامل ہوں گے۔