پاکستان کے پارلیمانی نظام حکومت میں ایوان بالا(سینیٹ آف پاکستان) اور پھر ایوان زیریں(قومی اسمبلی) کے علاوہ صوبائی اسمبلیاں اس وقت کام کر رہی ہیں ان میں قانون سازی کتنی ہوتی ہے؟ عوام کے مسائل پر کتنی بحث ہوتی ہے یہ بھی ہمیں معلوم ہے۔ ان ایوانوں میں ہمارے اور آپ کے نمائندوں کی کارکردگی گزشتہ 30اور 40سال سے جو رہی ہے اس پورے عمل میں یہ حقیقت بڑی واضح طور پر کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ ان ایوانوں میں ہمارے نمائندے اپنا سرمایہ، اپنی دولت خرچ کر کے اپنی جگہ بناتے ہیں اور پھر خوب لوٹ مار ہوتی ہے ۔حکومتی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے مختلف مافیاز جنم لیتے ہیں۔ تازہ مثال ہمارے نمائندوں کا وہ قبضہ گروپ ہے جو کہ سرکاری اور غیر سرکاری املاک پر قابض ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ ڈرگ مافیا اور پھر منی لانڈرنگ کا خطرناک کینسر جو کہ اس وقت ہمارے معاشرے کا حصہ ہے۔ بیرون ملک ہمارے نمائندوں کی جائیدادیں اور اثاثے اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ہمارا نظام ہمارے اپنے عوامی نمائندوں نے کرپٹ کیا ہے۔ بیورو کریسی اور اعلیٰ افسران کو اس مافیا میں برابر شریک کر کے ان کو ایک حصہ دیا جاتا ہے۔ کسی کی کیا مجال کہ وہ یہ ثابت کر سکے کہ فلاں عوامی نمائندے نے لوٹ مار کی اور قومی دولت لوٹی۔ آج میاں نواز شریف اور صرف اسحاق ڈار ہی کو دیکھ لیں لندن اور دبئی میں ان خاندانوں کی جائیدادیں اور اثاثے کیا بتا رہے ہیں۔ آصف علی زرداری اور دیگر خاندانوں کی بیرون ملک پڑی دولت کہاں سے آئی؟ یہ تمام دولت پاکستان کی لوٹی گئی قومی دولت ہے جو کہ غریب عوام کی دولت ہے۔ موجودہ سیاسی کلچر نے عوام کو قوم رہنے ہی نہیں دیا پوری قوم ایک ہجوم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ جس کا تمام تر فائدہ ملک کے چند خاندانوں کو ہوا ہے۔ مریم نواز اور بلاول زرداری اسی ہجوم کو اپنے مقاصد کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کر رہے ہیں۔ ایوانِ بالا(سینیٹ آف پاکستان) کے مارچ میں ہونے والے انتخابات میں 40کروڑ اور 50کروڑ روپے ایک سینیٹر کا ریٹ چل رہا ہے۔ یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اس پورے نظام کو کم از کم بے نقاب تو کر دیا ہے۔ اس سلسلے کو روکنے میں موجودہ حکومت کس قدر کامیاب ہو گی یہ تو اب آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کی ٹکٹیں بھی فروخت ہوتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اس وقت ہمارے اقتدار کے ایوانوں میں یعنی سینیٹ، قومی اسمبلی اور پھر چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں تقریباً ایک ہزار ایک سو پچانوے ممبران پر مشتمل یہ ایوان ہیں۔ ان ممبروں پر قومی خزانے سے بھاری سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔ یہ ممبران اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے قومی وسائل کو لوٹتے ہیں۔ ایک مافیا کی شکل میں پورے ملک میں چھائے ہوئے ہیں، نام ہے ان کا ہمارے عوامی نمائندے ۔۔۔ان عوامی نمائندوں کی قابلیت، اہلیت اور اہمیت ہمارے سامنے ہے۔ قومی خدمت اور عوامی خدمت جو یہ کرتے ہیں وہ ہمارے سامنے ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کے نام پر ان نمائندوں کو قومی عزت احترام اور استحقاق فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ قوم کو کیا دیتے ہیں سوائے اس کے کہ اسمبلی فلورز کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں ان پر بے پناہ قومی دولت استعمال ہوتی ہے اور یہ لوٹ مار کا بازار گرم کرتے ہیں پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ عمران خان کی شکل میں کوئی غیر روایتی سیاستدان وزیر اعظم بنا ہے اور وہ ملک میں کرپشن کے خاتمے کی بات کرتا ہے۔ اس امر کا اندازہ کر لیں کہ آج تمام سابقہ حکمران ایک پلیٹ فارم پر موجود ہیں۔ آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور پھر مولانا فضل الرحمن سمیت چند چھوٹے سیاسی اور مذہبی گروپ ایک گروہ کی شکل اختیار کر کے عمران خان کی حکومت کے خلاف محاذ آراتی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ تمام گروپس ماضی میں کرپشن کا باقاعدہ حصہ رہے ہیں قومی دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے ہیں اور اب ان سب کو صاف نظر آ رہا ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں ان سے لوٹی گئی قومی دولت کا حساب مانگا جائے گا اور لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لی جائے گی۔ ذرا اندازہ لگائیں موجودہ نظام میں کیا پاکستان اقتدار کے ان ایوانوں کا متحمل ہو سکتا ہے جو کہ خود کرپشن کو فروغ دیتے ہیں۔ سینیٹ آف پاکستان میں سٹینرز کے انتخاب پر 40کروڑ اور 50کروڑ کی بولی۔۔۔کیا یہ سب کچھ ہمارے قومی اداروں کی نظروں سے چھپا ہوا ہے۔۔۔کیا سپریم کورٹ آف پاکستان یہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھ کر بھی خاموش رہے گی؟ پاکستان کے قومی ادارے اور خاص طور پر ہمارے قومی سلامتی کے ادارے یہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھ کر بھی خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟۔ میری مودبانہ گذارش ہے ہمارے قومی سلامتی کے اداروں کے اعلیٰ افسران اور اپنی عدلیہ کے معزز جج صاحبان سے کہ وہ کم از کم امریکی مصنف John Perkinsکی کتاب Confessions of an Economic Hit Man کا مطالعہ کر لیں۔ جس طرح حالات پاکستان میں بن رہے ہیں۔ اس میں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی غرض سے غیر ملکی خفیہ ہاتھ سرگرم عمل ہیں اور اس میں ملک کے اندر ہمارے اپنی سیاسی گروپس اور چند ایک مخصوص خاندان جو کہ موروشی سیاست کی پیداوار ہیں وہ محض اپنی دولت بچانے اور اپنی اولادوں کو اقتدار میں لانے کی غرض سے کسی بھی غیر ملکی لابی کا حصہ بن سکتے ہیں موجودہ نظام اب اس قابل نہیں رہا کہ اس نظام کو مزید چلایا جائے اور 40/30سال سے اقتدار میں رہنے والوں کو دوبارہ اقتدار میں آنے کا موقع ندیا جائے یہ ہی موجودہ وقت کا تقاضا ہے اور اس میں ملک و قوم کی بقا ہے۔ ہمارے عوامی نمائندے وہ ہوں جو ملک و قوم کی خدمت کر سکیں نہ کہ قومی دولت لوٹنے والوں کو قوم مواقع فراہم کرتی رہے یہ ظلم ہو گا ہماری آنے والی نسلوں کے ساتھ، حقیقی اور اصلی عوامی نمائندہ کو عوام کی نچلی سطح سے ابھرنے کا موقع ملنا چاہیے۔