چینی کہاوت ہے بڑی بات سوچو بڑے بن جائو۔ آدمی اپنے آئیڈیل اور اپنے خوابوں سے پہچانا جاتا ہے۔ آدرش بلند ہو اور خواب پاکیزہ اور دل فریب ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ کوشش اور محنت بے ثمر ٹھہریں۔ ہم بحیثیت قوم کوئی بڑا آئیڈیل نہیں رکھتے، ہمارے خواب بھی خواب پریشان ہیں۔ ہم چھوٹے اور فروعی معاملات میں الجھے رہتے ہیں، ہمارے اختلافات اور تنازعات بھی کم و بیش گھٹیا ہی ہوتے ہیں۔ فکری اور نظریاتی اختلافات کا تو اب دور دور پتا نہیں چلتا۔ ہر معاملے کا سرا جا کر مالی مفادات سے جڑ جاتا ہے۔ عہدے اور منصب سے بھی ہمارا لگائو مالیاتی فوائد ہی کی وجہ سے ہے۔ دوسرے معاشروں کا تو تذکرہ ہی کیا لیکن ہمارے معاشرے میں دولت ہی خدا ہے۔ اس کے حصول کے لیے ہم سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ دولت کی اہمیت سے انکار نہیں کہ ہر درد کا درماں دولت ہی سے ممکن ہے۔ لیکن کیا دولت فی الواقع اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے کہ ہم اس کی خاطر زندگی کی ساری اقدار کو فراموش کردیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو تونگروں کو خوش نصیب ہونا چاہیے کہ وہ اپنی دولت سے سب کچھ خرید سکتے ہیں۔ لیکن عملاً ایسا تو نہیں، خواب آور گولیاں اور راحت بھری نیند سے محرومی دولت مندوں ہی کا مقدر کیوں ہیں۔ امراض قلب کے ہسپتال تونگروں ہی سے کیوں بھرے ہیں؟ لہٰذا یہ کہنا کچھ ایسا غلط بھی نہیں کہ آپ دولت سے آرام دہ بستر تو خرید سکتے ہیں لیکن پرسکون نیند نہیں۔ آپ بڑے سے بڑے ڈاکٹر اور کنسلٹنٹ کی فیس تو ادا کرسکتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ یہ مہنگے معالج آپ کو صحت بھی عطا کردیں۔ ہمارے آئیڈیلز بھی اسی لیے چھوٹے اور گھٹیا ہیں کہ ہم نے دولت اور اسٹیٹس ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ اخبارات بدعنوانیوں کی ہوش ربا داستانوں سے بھرے رہتے ہیں۔ ہر روز کوئی نہ کوئی بدعنوانی کا چشم کشا واقعہ ضرور درجِ اخبار ہوتا ہے۔ کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارے ملک میں کرپشن کی گنگا بہہ رہی ہے جس میں کوئی ہے جو ہاتھ دھونے سے پیچھے رہ جاتا ہے۔ مذہبی لا مذہبی، سیکولر، لبرل، شاید ہی کوئی طبقہ فکر ایسا ہو جو بدعنوانی اور بدمعاملگی سے مستثنیٰ ہو۔ ایک سیلاب بلاخیز ہے جس نے چار اطراف سے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ یہاں تک کہ اب حرام و حلال کی تمیز بھی مٹ چکی ہے۔ ہم نے بدعنوانی کو برا سمجھنا بھی تقریباً چھوڑ دیا ہے جو سیاست دان اور سابق وزراء کرپشن کے الزام میں دھرے پکڑے جاتے ہیں ان کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی میں بھی خاطر خواہ کمی نہیں آتی۔ ’’سب چلتا ہے‘‘ کا ایک فقرہ ادا کر کے ہم بڑے بڑے قومی مجرموں کو بھی معاف کردیتے ہیں۔ اور دلاور فگار کا یہ مصرعہ کہ ’’لے کے رشوت پھنس گیا ہے دے کے رشوت چھوٹ جا‘‘ پکڑے جانے کی صورت میں جاں بخشی کی راہ بھی سمجھا دیتا ہے۔ پینسٹھ ستر برسوں میں ہم نے ایک ایسا کلچر تشکیل دیا ہے جس میں روحانی اور جمالیاتی اقدار کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ یہ ایک مادہ پرستانہ کلچر ہے جس میں اعلیٰ ترین قدر دولت کی بہتات ہے، خواہ کسی قیمت پر سہی۔ پچھلے تیس چالیس برسوں میں جو حکمران برسراقتدار آئے، ان میں عقل و فہم اور بصیرت کا اس درجہ فقدان رہا کہ وہ یہ قیاس ہی نہیں کرسکے کہ معاشرہ غلط ترجیحات کے سبب کس تیزی سے آبرو باختہ ہوتا جارہا ہے۔ سستی اور سطحی ذہنیت رکھنے والے ان حکمرانوں نے تدبر اور تعقل سے محرومی کے سبب یہ اندازہ ہی نہیں لگایا کہ ملک و معاشرہ اخلاقی انحطاط اور زوال کی کس پستی سے جالگا ہے۔ یہ حکمران یا تو خود کرپٹ تھے اور اگر خود کرپٹ نہیں تھے تو اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے ان لوگوں کو کرپٹ کیا جن کی تائید و حمایت انہیں مطلوب تھی۔ علم، عقل، دانائی، بصیرت، ان سب کی اہمیت ایک ایک کرکے صفر ہوتی چلی گئی اور باقی رہی کوئی چیز تو وہ تھی ’’عقل معاش۔‘‘ ’’عقل معاش‘‘ کا ایک ہی مقصد تھا کہ کسی طرح اپنے اکائونٹ کو نوٹوں سے بھرلو۔ جتنی جائیدادیں بنا سکتے ہو بنالو، ملک کے اندر اور باہر جتنی رقم بنکوں میں ڈال سکتے ہو ڈالو۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اتنی دولت خرچ کرنے کے لیے یہ زندگی کتنی مختصر ہے۔ اس دولت کا استعمال ہی کیا ہے؟ لیکن انسان حریص اور لالچی واقع ہوا ہے جب جمع کرنے پر آتا ہے توہل من مزید کی ایک رٹ اسے جمع کرنے سے روکتی ہی نہیں۔ قدرت رسی دراز کئے جاتی ہے اور آدمی سمجھتا ہے کہ قدرت اس پر کس درجہ مہربان ہے لیکن جب رسی کھینچ لی جاتی ہے تو یہی زمین اس کے لیے تنگ ہو جاتی ہے اور تب آنکھوں کے آگے سے غفلت کا پردہ ہٹ جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ جس عبوری دور سے گزر رہا ہے اور جو ہاہا کار اردگرد مچی ہے اس سے شبہ کچھ ایسا ہوتا ہے کہ ابھی اس معاشرے کو نیک چلن بننے میں کم از کم صدیاں درکار ہیں۔ کون سی برائی ہے جو ہم میں نہیں۔ لیکن یہ بھی ہے کہ اس برے معاشرے میں آج بھی نیکی اور روشنی کی مثالیں بھی کردار کی راستی کی صورت میں موجود ہیں۔ لوگ آج بھی اپنی زندگی کے موجودہ چلن سے غیر مطمئن ہیں اور وہ تبدیلی چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ معاشرہ بدلے، ہم سب خود کو تبدیل کریں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو عمران خان اور ان کی پارٹی کو کسی طرح بھی یہ ہر دلعزیزی نصیب نہ ہوتی اور انہیں حکومت کا موقع نہ دیا جاتا۔ عمران خان سے میری جو امیدیں وابستہ ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ایک صاحب مطالعہ سیاست داں ہیں۔ ان کے پاس معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے ایک وژن ہے۔ ان کا آئیڈیل بلند اور ان کے خواب دلفریب ہیں۔ اگر وہ راہ مستقیم سے نہ بھٹکے اور جن وعدوں اور دعوئوں کے ساتھ وہ اقتدار میں آئے ہیں،انہوں نے ایمانداری اور اچھی حکمت عملی وضع کی تو کوئی وجہ نہیں کہ تبدیلی نہ آئے۔ اخلاقی تبدیلی بالعموم اوپر سے ہی آتی ہے۔ حکمران کے انداز حکمرانی کا جو اور جیسا کلچر ہوتا ہے، معاشرہ اسی رنگ میں بتدریج رنگتا جاتا ہے۔ البتہ ایک چیز جس کا اندیشہ مجھے کھائے جاتا ہے، وہ عمران خان کے حامیوں کا طرز عمل ہے کہ وہ آزادی اظہار رائے کے دشمن ہیں۔ کوئی نیک نیتی سے بھی حکومت کے معاملات یا وزیراعظم کے رفقائے کار پہ تنقید و احتساب کرے تو سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی برپا کردی جاتی ہے۔ یہ کوئی صحت مندانہ رویہ نہیں ہے۔ عمران خان ہوں یا ان کے رفقائے کار، وہ دو دھوں نہائے نہیں کہ ان سے کوئی غلطی سرزد ہی نہ ہو۔ ان کی ذات اور ان کی ٹیم بھی فرشتوں کی جماعت نہیں کہ جس سے کوئی لغزش ہی صادر نہ ہو۔ یہ غیر جمہوری رویہ ہے کہ آپ کسی معترضی یا نکتہ چینی کو اعتراض یا تنقید کا حق ہی نہ دیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ تنقید برائے تعمیر اور نکتہ چینی برائے اصلاح ہونی چاہیے۔ ملک طویل عرصے تک فوجی راج کے زیر اثر رہا اور اس کا اثر یہ ہوا کہ مکالمے کی روایت کا ہی خاتمہ ہوگیا۔ بات چیت، تبادلہ خیال، اختلاف فکرو نظر کی روایات کے خاتمے سے فسطائیت نے جنم لیا اور ایسی پارٹیاں وجود میں آئیں جو اسلحے کی زبان میں بات کرتی تھیں۔ ان کا انجام بھی سب کے سامنے ہے۔ تبدیلی رویے کی تبدیلی کا بھی تقاضا کرتی ہے۔ شائستگی، شرافت اور تہذیب نفس اسی کا نام ہے کہ آپ سب کچھ سننے کا اپنے اندر حوصلہ پیدا کریں اور دلیل کا جواب دلیل سے دیں۔ ایک تعلیم یافتہ اور مہذب سیاسی جماعت اگر یہ رویہ اختیار نہیں کرے گی تو وہ معاشرے کو کیسے بدلے گی۔ عمران خان کے حامیوں میں اکثریت نوجوانوں کی ہے اس لیے یہ ذمہ داری بھی کپتان ہی کی ہے کہ وہ اپنے حامیوں کو تہذیب و شائستگی سکھائیں تاکہ جو تبدیلی آئے وہ مہذب اور شائستہ ہو۔