اردو زبان کی ترویج و ترقی میں، ہندوئوں کا بھی بڑا کردار رہا ہے۔ ان میں ایسے ایسے بزرگ ہو گزر ے ہیں، جو اپنے اپنے رنگ میں یکتا تھے۔ مثلا پنڈت دتاتریہ کیفی، جو مولوی عبدالحق کے ہم سِن اور ہم عصر ہی نہیں تھے، انہی کی طرح اردو کے غم میں گھْلتے بھی رہے۔ بابائے اردو سے وہ مذاقاً کہا کرتے تھے کہ آپ مسلمان اردو کیا جانیں، اردو تو ہم کائستھوں کی زبان ہے! حد یہ ہے کہ پنڈت جی فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنا دھرم چھوڑ سکتا ہوں، مگر اپنی زبان نہیں! کم لوگ واقف ہوں گے کہ آزادی کے بعد، وہ کراچی منتقل ہونا چاہتے تھے۔ لیکن بابائے اردو نے انہیں ہندوستانی مورچہ سنبھالنے پر آمادہ کیا۔ مثلا منشی پریم چند، جنہیں اردو پبلشروں کی بدعہدی نے ہندی کی طرف دھکیل دیا، لیکن اردو کے وہ معترف و مداح، آخر تک رہے۔ مثلاً فراق گورکھپوری، جو مرتے مرتے بھی نصیحت اور تنبیہہ کر گئے کہ اردو کی حفاظت کرو، اگر اردو نہ رہی تو سمجھو کہ ہندوستان بھی گیا! اور جگن ناتھ آزاد, جن کا اقبال اور اقبالیات سے عشق، جنون کی حد کو پہنچا ہوا تھا۔ ان کی بعض تحریریں اور تحقیقیں ایسی ہیں کہ اقبالیات کے سرمائے میں، طرہ امتیاز کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکن   ع

خدا پنج انگشت یکسان نہ کرد

مسلمانوں کی طرح، ہنود میں بھی، ایسے بزعم ِخویش شاعر اور محقق پیدا ہو گئے ہیں، جن کے کمال کی کیفیت اور کمیت غالب کے بیان کردہ فاصلے،یعنی   ع 

کہ اپنے ساے سے، سر پائوں سے ہے دو قدم آگے

سے بھی، منزلوں آگے کی چیز ہے! انہیں غرہ ہے کہ میں نے اتنی کتابیں پڑھی اور لکھی ہیں! حالاںکہ، پڑھنے اور لکھنے کا یہ عمل، پتھر کے باٹوں سے تولنے کے لائق ہے! یعنی، اتنے کلو کتابیں پڑھ ڈالیں اور اتنے کلو لکھ چکا۔ انہیں اس سے زیادہ اہمیت دینا، حقداروں کی حق تلفی کے برابر ہے۔ اس معاملے کو شیخ سعدی، صدیوں پہلے یوں صاف کر گئے ہیں۔

چارپائی برو کتابی چند

نہ محقق بود نہ دانشمند

مہاشے ستیہ پال آنند، اس گروہ کے سرخیل، بلکہ سرغنہ ہیں! اپنا ڈھنڈورا، یہ آپ پیٹتے اور بے طرح پیٹتے ہیں اور ساتھ ہی، دوسروں سے بھی پٹواتے ہیں۔ زمانے کی حالت اور رفتار کے حساب سے، اس میں شاید کچھ مضائقہ بھی نہیں۔ لیکن ظلم در ظلم یہ ہے کہ, بقول ایک لکھنوی بزرگ کے، مہاشے جہاں کسی دوسرے شاعر کی شہرت دیکھتے یا سنتے ہیں، ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔ زندہ ہوا تو اْسے گاڑ کر رہتے ہیں۔ اور بدقسمتی سے مرحوم ہے، تو اْسے کھود کر دوبارہ گاڑنے کی سعی کرتے ہیں!

اس تمہید کے بعد، اب اس واقعے کی طرف آتے ہیں، جس کا بیان مقصود ہے اور جس سے اپنے قارئین کو محروم رکھنا، ظلم ہو گا! میں خانہ نشین اور گھر گھسنا آدمی ہوں۔ تتو تھمبو کر کے بھی، کم ہی مجھے کسی محفل میں لے جانے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ استثنائی مثال صرف میرے بزرگ ابوالحسن صاحب نغمی کی ہے۔ اپنے ادبی اجلاس میں، بْلاتے وہ مجھے بلاناغہ ہر مہینے ہیں، مگر جانے کی نوبت کئی کئی مہینے نہیں آتی۔ اس دفعہ انہوں نے خاص تاکید کی کہ ضرور آنا، اجلاس حسرت موہانی کی یاد میں ہو رہا ہے۔ اسی  روز میرے پروگرام کی ریکارڈنگ بھی ہونا تھی۔ مگر ریکارڈنگ کے منسوخ ہو جانے پر اجلاس میں، لشٹم پشٹم، بروقت پہنچ گیا۔ حرف ِآغاز نغمی صاحب کا ہوتا ہے اور سچ ہے کہ خوب ہی ہوتا ہے۔ اس کے بعد عبیدالرحمن صدیقی صاحب نے مضمون پڑھا۔ یہ لکھنوی بزرگ اور پْرانوں کی آنکھیں دیکھے ہوئے ہیں۔ حسرت کے بارے میں دیدہ و شنیدہ، کئی نئی باتیں, ان سے پتا چلیں۔۔ آخری مضمون، جو دراصل ایک مکالمہ تھا، نور نغمی نے پیش کیا۔ تحریر نغمی صاحب کی اور پڑھنت نور نغمی کی، یعنی نورْْ علیٰ نور!

اجلاس اختتام کو پہنچ رہا تھا کہ اعلان ہوا۔ اردو کے نامور شاعر اور محقق، ستیہ پال آنند، ایک نہایت معروف شاعر کی زندگی اور کلام کے بارے میں، کچھ نئے ’’انکشافات‘‘ کریں گے۔ ستیہ جی، مائیک کے سامنے پہنچ کر، پہلے تو شکوہ کناں ہوئے کہ نغمی صاحب سے میں نے مارچ اور پھر اپریل میں اس مضمون کے لیے گنجائش نکالنے کی درخواست کی مگر وہ آنا کانی کرتے رہے۔ اس کے بعد مہاشے نے اپنی ہوا یوں باندھی کہ میں ساٹھ سال سے تحقیق کر رہا ہوں۔ پھر اپنی ساٹھ سالہ تحقیق کا جو نمونہ انہوں نے پیش کیا، اس نے

پس از سی سال این نکتہ محقق شد بخاقانی

کہ بورانی ست بادنجان و بادنجان بورانی

کی یاد تازہ کر دی! اپنے ویاکھیان میں مہاشہ نے بتایا کہ یہ نامور شاعر مجرا دیکھتے تھے اور کبوتر بازی بھی کرتے تھے! (گویا کبوتر بازی بھی، اچھا خاصا جرم ہے!) پھر مذاق اڑانے کے انداز میں، یہ ’’لطیفہ‘‘ سنایا کہ ان شاعر کا وہ شعر سن کر، جس میں نئی تہذیب کے انڈوں کو گندہ قرار دے کر، گلی میں پھینکنے کی بات کی گئی ہے، مہاشے کی کسی طالبہ نے کہا کہ یہ شاعر کیا بنیادی تہذیب سے بھی عاری تھے؟ اس کے بعد مہاشے نے شاعر کی نظموں کا پوسٹ مارٹم کرنا شروع کیا۔ حالت یہ تھی کہ پہلا شعر ہی وزن سے خارج پڑھا۔ پہلے مصرع میں "جفا جو" کے بجائے "جفا کار" کا لفظ، بے تامل پڑھ گئے۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور تصحیح کر دی۔ لیکن آگے چل کر کھلا کہ     ع

دہن کا ذکر کیا، یاں سر ہی غائب ہے گریباں سے

نہ کسی لفظ کا تلفظ صحیح، نہ وزن ہی درست۔ پھر جو اعتراضات کیے گئے وہ سراسر سطحی تھے۔ لگتا تھا کہ "محقق" صاحب کے نزدیک، اصل اعتراض کی شے، ہمارے شاعر کی اسلامیت اور پاکستانیت ہیں۔ نغمی صاحب کی طرف دیکھا تو وہ پہلو پر پہلو بدل رہے تھے۔ ان کا چہرہ متغیر دکھائی دیا۔ میدہ و شہاب رنگ، اَور شہابی ہو رہا تھا۔ خیر، کسی نہ کسی طرح یہ دس پندرہ منٹ کا عذاب ختم ہوا اور اس خاکسار نے کھڑے ہو کر، جو کچھ کہا، وہ من و عن درج کیا جاتا ہے۔ 

"مجھے ایک دو باتیں عرض کرنا تھیں۔ ایک تو تاثرات تھے اور ایک اشکال ہے جسے اگر آپ دور فرما سکیں۔ تاثرات میں یہ ہے کہ یہ جو ساٹھ سالہ آپ کی تحقیق ہے، اس سے ایک تو نکلا مجرا، ذرا سی کبوتر بازی اور ایک گندہ انڈا، وہ ہم نے دیکھ لیا! پھر آپ نے ان کی نظم سنانا شروع کی۔ معری کو آپ معرٰی کِہ رہے ہیں۔ اور پہلا شعر ہی آپ نے وزن سے خارج پڑھا۔ اشکال میرا یہ ہے کہ ان شاعر(شاعر کا نام) کو پڑھنے کے لیے، میں سمجھنے کے لیے نہیں کِہ رہا، پڑھنے کے لیے عربی اور فارسی جاننا ضروری ہے۔ آپ نے اس کو سمجھا کیسے؟"

مہاشے "آپ کا فرمانا صحیح ہے" کِہ کر اپنی نشست پر آ بیٹھے۔ اس سے یہ نہ لگے کہ ان کے پاس کہنے کو تو کچھ تھا لیکن جان بوجھ کر خاموش رہے۔ دراصل، اس وقت مہاشے کی حالت، دلدل میں پھنسے ہوئے اس آدمی کی تھی، جو جتنے زیادہ ہاتھ پائوں مارتا ہے، اتنا ہی دھنستا جاتا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ اپنی باتوں کی پچ کرتے، جس کے لیے میں تیار تھا۔ ان کا سپر انداز ہونا، ان کی "تحقیق" کے سطحی ہونے کی دلیل تھی۔ (یہ مکالمہ، فیس بک پر بھی موجود ہے) 

اس واقعے کے اگلے روز، مجھے ایک لکھنوی بزرگ کا فون آیا۔ چھوٹتے ہی کہنے لگے کہ کل ستیہ پال آنند نے جو ستیا ناس کیا ہے، اس پر آپ کی گرفت بجا تھی۔ "ستیا ناس" کا لفظ سنتے ہی میں پھڑک گیا۔ اور یہ لفظی رعایت، مستعار لے کر، کالم کا عنوان بنا دی گئی۔ دوسرا فون نغمی صاحب کا تھا۔ بولے کہ ارے آپ نے تو بھانبڑ مچا دیا۔ پھر کہا کہ بابا بلھے شاہ کا مصرع ہے۔

سچ آکھاں تے بھانبڑ مچدا اے

میں ہنس پڑا۔

ہاں! ایک ذکر رہا جاتا ہے۔ اسی اجلاس میں ملاقات مبشر علی زیدی سے ہوئی۔ یہ سو لفظوں کی کہانی کے خالق اور خوش ذوق آدمی ہیں۔ ان کے چہرے پر کھلتی مسکراہٹ سے، ان کی شرارتی طبیعت کا پتا ملتا ہے- چہرے بشرے سے، لگتا ہے کہ بال انہوں نے دھوپ میں سفید کیے ہیں! چند منٹ کی ملاقات میں ہی، دل ان سے مل سا گیا۔ یہی کیفیت ان کی بھی تھی۔ کہنے لگے کہ ملاقات تو ابھی ہوئی ہے، مگر لگتا ہے کہ جنم جنم کی واقفیت ہے۔ انہیں دیکھ کر، بار بار، خیال آیا کہ     ع

ایسا کہاں خراب، جہان ِخراب ہے