وزیر اعظم نے کراچی میں فرمایا کہ کرپشن کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔ تو یہ وجہ ہے سرمایہ کاری نہ ہونے کی۔ بجا فرمایا لیکن صرف چار روز پہلے آپ نے ٹویٹ کیا تھا کہ غیر ملکی سرمایہ کارمیں اضافہ ہو گیا ہے۔ شاید اس ٹویٹ کے بعد آپ کی توجہ کسی نے سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کی طرف دلائی ہو گی جن میں بتایا گیا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری تو 95فیصد کم ہو چکی؟ ایسا ہے تو پھر وزیر اعظم کا کراچی میں سرمایہ کاری نہ ہونے کی وضاحت بالکل بجا ہے۔ یہ وضاحت کرنا ہی چاہئے تھی۔ وزیر اعظم کا تازہ فرمان اگر درست ہے اور درست کیوں نہ ہو، آخر وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں، تو ثابت ہو گیا کہ دنیا کے ان تمام ممالک میں کرپشن ختم ہو گئی ہے جہاں غیر ملکی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ چاہے وہ چین ہو چاہے ملائیشیا، چاہے بنگلہ دیش ہو چاہے ترکی اور چاہے کوئی اور۔ ماننا پڑے گا کہ ان ممالک میں کرپشن ختم ہو گئی ہے اور عالمی اداروں کی وہ تمام رپورٹیں جھوٹی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ چین دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں کرپشن سب سے زیادہ ہے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم کا یہ ارشاد فرمانا بھی بالکل بجا ہے کہ موجودہ خرابیوں کی وجہ ماضی کی کرپشن ہے۔ مراد نواز شریف نے 90ء کی دہائی میں تین سو ارب روپے چوری کیے، نتیجہ آپ کے سامنے ہے، ہر طرف ڈینگی پھیلا ہوا ہے اور ہسپتالوں میں علاج کا کوئی بندوبست ہی نہیں ہے۔ پولیو نہ صرف پختونخوا میں پھیل گیا ہے بلکہ باقی صوبوں میں سردرد رفتہ کی طرح باز آید ہو گیا ہے۔ جرائم بڑھ گئے ہیں، خودکشیوں کو پر لگ گئے ہیں۔ بے روزگاری وبا کی طرح پھیل رہی ہے، گھروں میں فاقے، سڑکوں پر ناکے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ بائولے کتے ہر جگہ مار دھاڑ کر رہے ہیں اور ہسپتالوں میں نواز شریف نے تین عشرے پہلے یہ چوری نہ کی ہوتی تو آج حالات کتنے اچھے ہوتے۔ ریاست مدینہ غزوہ ہند کی تیاری کر رہی ہوتی نہ کہ دھرنا روکنے کی۔ ٭٭٭٭٭ جو ہو چکا سو ہو چکا، اب مزید دیر نہیں کرنی چاہئے۔ نواز شریف نے جو تین سو ارب چوری کیے تھے، وہ واپس لانے چاہئیں۔ نواز شریف نے تو ڈبل چوری کی۔ ایک تو یہی تین سو ارب کی، دوسری یہ کہ کوئی سراغ تک نہ چھوڑا کہ کہاں سے چوری کی، کب چوری کی، کیسے چوری کی۔ پانامہ جے آئی ٹی ڈھونڈ سکی اور نہ سر سے پائوں تک سراپا باصلاحیت چیئرمین نیب کو پتہ چل سکا اور تو اور شہزاد اکبر بھی بارہ مہینے ٹکریں مارتے مارتے تھک گئے اور تھکن اتارنے دو ماہ پہلے لندن چلے گئے اور ابھی تک تھکن ہے کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ وہ تو بھلا ہوا عمران خان کی روحانی صلاحیتوں کا کہ انہیں کشف میں اشارہ ہو گیا کہ نواز شریف نے تین سو ارب کی چوری کی ہے ورنہ تو قوم اور دنیا اتنی بڑی چوری سے بے خبربنی رہتی۔ کشف بہر حال لامحدود نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے یہ اعتراض بے معنے ہے کہ اگر انہوں نے کشف سے چوری کی مالیت معلوم کر لی تو اسی کشف سے یہ کیوں نہیں جان سکتے کہ یہ رقم کہاں سے، کب اور کیسے چوری ہوئی تا کہ مسروقہ روپے واپس لائے جا سکیں۔ ٭٭٭٭٭ واپس آنے کی جہاں تک بات ہے تو اوّ لیت ان تین سو ارب روپے کی نہیں، ان دو سو ارب ڈالر یعنی لگ بھگ بیس ہزار ارب روپے کی ہے جو خان صاحب نے اقتدار میں آنے کے پہلے روز ہی واپس لانے تھے اور پھر ان میں سے ایک سو ارب آئی ایم ایف کے اور باقی پاکستانیوں کے منہ پر مارنے تھے۔ بس، یہ رقم آ جائے، پھر تین سو ارب کی باری بھی آ جائے گی۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد کا پہلا دن بھی ابھی تک طلوع نہیں ہوا۔ قوم کی قسمت غروب ہو گئی، یہ دن ہنوز طلوع ہونے کا منتظر ہے۔ ٭٭٭٭٭ آئی ایم ایف سے یاد آیا، پاکستان کی بجلی اور گیس کے محکمہ آئی ایم ایف کے حوالے کرنے کی خبر آ رہی ہے ع سپردیم بہ تو سایہ خویش را دو فائدے ہوں گے۔ ایک تو ہماری اقتصادی جمع سیاسی خود مختاری محفوظ ہاتھوں میں چلی جائے گی، دوسرے یہ کہ بجلی اور گیس کی مزید مہنگائی کی ذمہ داری لینے سے خان صاحب کی حکومت بری ہو جائیں گے۔ تحریک انصاف کے حامی کن الفاظ میں داد دیں گے۔ یہی کہ دیکھو، کپتان ڈٹ گیا، بجلی اور گیس کے نرخ مزید بڑھانے سے صاف انکار کر دیا، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آئی ایم ایف کو بتا دیا کہ نرخ خود بڑھا لو، میں تو نہیں بڑھانے کا۔ ٭٭٭٭٭ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ میں وزیر اعظم کے خطاب کے بعد اسلامی ممالک نے بھی ہمارا ساتھ چھوڑ دیا۔ آپ ایبٹ آباد میں کشمیر مارچ سے خطاب کر رہے تھے۔ تو جماعت اسلامی نے بھی مان لیا کہ خان صاحب کا خطاب ’’نتیجہ خیز تھا۔ سچے کہئے، ماضی میں بے نظیر سے لے کر نواز شریف تک کسی ایک کے حصے میں بھی ایسی نتیجہ خیز تقریر آئی؟ ٭٭٭٭٭ جیل میں نواز شریف کے پلیٹ لیٹس خطرناک حد تک کم ہو گئے جبکہ انہیں ڈینگی نہیں ہے۔ مریم اورنگ زیب، حسین نواز اور کیپٹن صفدر کا کہنا ہے کہ انہیں سلو پوائزننگ دی جا رہی ہے۔ یاد آیا، کچھ عرصہ پہلے نواز شریف پر ’’مرسی ماڈل‘‘ نافذ کرنے کی بات ہوئی تھی اور یہ بھی سمجھ میں آیا کہ حکومت انہیں گھر کا کھانا کیوں نہیں دے رہی تھی، سرکاری کھانے پر ہی کیوں مصر تھی…۔