بیان حلفی سے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی گنجلک شخصیت سامنے آتی ہے۔ ذاتی زندگی میں ویسی بشری کمزوریاں ‘جس کا شکار ہم میں سے اکثر ہیں‘ مجلس آرائی کے شوقین‘ رنگین مزاج اور دوست نواز‘ اس کا فائدہ ملتان کے میاں طارق نے اٹھایا اور ناصر جنجوعہ و ناصر بٹ نے بھی۔ بیان حلفی پڑھ کر ناصر جنجوعہ اور ناصر بٹ کے بارے میں تفصیل سے پتہ چلتا ہے‘ میاں نواز شریف سے قربت‘ جج ارشد ملک کو رام کرنے کے لئے ترغیب اوردبائو کے حربے اور اندرون و بیرون ملک مشکوک ملاقاتوں کا اہتمام‘مگر میاں طارق کا ذکر سرسری ہے۔ حالانکہ میاں طارق کے بغیر ناصر بٹ اور ناصر جنجوعہ ارشد ملک کو بلیک میل کر سکتے تھے نہ انہیں جاتی اُمرا لے جانے میں کامیاب‘ جہاں میاں نواز شریف نے احتساب عدالت کے جج کو شرف بازیابی بخشااورحق میں فیصلہ نہ دینے پر اظہار ناراضگی کیا۔ بیان حلفی کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج کو فرائض منصبی کی ادائیگی سے روک دیا ‘جو قانونی اور اخلاقی تقاضہ تھا ۔ شریف خاندان اور ان کے مداحوں کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ احتساب عدالت سے جج کی علیحدگی کے بعد ارشد ملک کے فیصلے بھی کالعدم ہو گئے ‘اب میاں نواز شریف کو جیل میں بند کر رکھنا غیر قانونی ہے۔ ویڈیو سکینڈل کے حوالے سے ایک قانون دان کی درخواست پر سپریم کورٹ 16جولائی کو معاملے کا جائزہ لے رہی ہے یقینا دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو گا۔ تاہم مریم نواز شریف نے اپنے والد گرامی کو بچانے کے لئے جو بازی کھیلی تھی وہ الٹی پڑتی نظر آ رہی ہے۔ ارشد ملک کا بیان حلفی پڑھ کر آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ اس ملک میں اہم مناصب پر کس طرح کے لوگ براجمان ہیں اور من پسند فیصلے حاصل کرنے کے لئے لوگ کس حد تک گرتے ہیں‘ دوستی اور تعلق کا ناجائز فائدہ اٹھانا‘اپنے جرائم کی پردہ پوشی کے لئے بلیک میلنگ اور مدینہ منورہ کی مقدس سرزمین پر رشوت کا مکروہ کاروبار۔ پانامہ سکینڈل پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے اقلیتی فیصلے میں چیف جسٹس سردار آصف سعید کھوسہ نے مافیا اور ڈان کا ذکر کیا‘ جسٹس شیخ عظمت سعید نے دوران سماعت سسیلین مافیا کا حوالہ دیا تو ہمارے دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا‘ ان ریمارکس کو سیاستدانوں کی توہین اور جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیا گیا لیکن جج ارشد ملک کا بیان پڑھ کر جسٹس آصف سعید کھوسہ کی بصیرت اور دور اندیشی پر رشک آتا ہے ۔پانامہ پیپرز کے مطالعہ سے انہوں نے کس طرح مافیاکاسراغ لگایا اور کیسے قبل از وقت ان واقعات‘ شواہد اور طریقہ کار کی نشاندہی کی جو بعدازاں جے آئی ٹی کی رپورٹ‘ نیب کے پیش کردہ ثبوتوں اور ارشد ملک کے بیان حلفی سے منکشف ہوئے۔ میاں طارق کا تعلق ملتان سے ہے لاہور سے کوسوں دور اور شریف خاندان یا ناصر جنجوعہ و ناصر بٹ سے لاتعلق ۔نیو طارق ٹی وی سنٹر اور ملتان دواخانہ کے نام سے کاروبار میں منہمک‘ سیشن جج کے طور پر کام کرتے ہوئے ارشد ملک کو علم تھانہ میاں طارق کو اندازہ کہ ایک نہ ایک دن یہ جج احتساب عدالت میں میاں نواز شریف کے مقدمے کی سماعت کرے گا‘ قابل داد ہیں ناصر جنجوعہ اور ناصر بٹ جو میاں نواز شریف کی محبت اور عقیدت میں میاں طارق تک پہنچے اور مبینہ طور پر وہ ویڈیو حاصل کی جو سولہ سال قبل ملتانی گرگے نے اپنے بھائی میاں ادریس کی سزائے موت کو ختم کرانے کے لئے بنائی اور اور سنبھال کر رکھی کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ مریم نواز شریف نے ایک قابل اعتراض ویڈیو کا ذکر کیا جو جج صاحب کو دکھا کر انہیں میرٹ پر فیصلہ کرنے کے لئے دبائو ڈالا گیا۔ ارشد ملک کے بیان حلفی سے میری اس رائے کی تصدیق ہوئی ہے کہ جج دراصل ترغیب اور دبائو کا شکار شریف خاندان کی طرف سے تھے اور انہیں جو ویڈیو دکھائی گئی وہ میاں طارق کی فراہم کردہ ذاتی حوالے سے قابل اعتراض نہیں بلکہ شریف خاندان سے رابطوں اور لین دین کی گفتگو پر مبنی تھی اور یہ ویڈیو دکھا کر انہیں قانون اور انصاف کے برعکس فیصلہ کرنے پر مجبور کیا نہ سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور نہ پچاس کروڑ ڈالر رشوت کی پیش کش ہوئی۔ درخواست ان سے بظاہر یہ کی گئی کہ آپ کسی ترغیب اور دبائو کا شکار ہوئے بغیر فیصلہ عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق کریں اور کسی خوف کا شکار نہ ہوں۔ فیصلے کے بعد اگر جج موصو ف واقعی ضمیر کے دبائو کا شکار ہوئے اور عمرہ انہوں نے اپنے ’’گناہ‘‘ کی معافی کے لئے کیا ہوتا تو وہ اپنی مشکل اور درد کو شریف خاندان کے کسی وکیل کے سامنے بیان کرتے‘ حجاز مقدس میں زیادہ وقت خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں گزارتے اور احتساب عدالت سے ازخود الگ ہو جاتے تاکہ دوبارہ کسی بے گناہ سیاستدان بالخصوص آصف علی زرداری ‘راجہ پرویز اشرف کے خلاف فیصلے کے لئے دبائو کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بیان حلفی سامنے آنے کے بعد مریم نواز شریف کی پریس کانفرنس اور اس موقع پر میاں شہباز شریف سمیت دیگر مسلم لیگی رہنمائوں کی پریشانی اور خاموشی کا راز کھل گیا یہ اور اس قسم کی دیگر دھماکہ خیز ویڈیوز عدالتوں میں پیش نہ کرنے اور من پسند صحافیوں کے ذریعے مزید ویڈیوز کی دھمکیاں دینے کی وجہ بھی سمجھ آتی ہے۔ بیان حلفی کے مطابق ارشد ملک کو استعفے کے عوض بیرون ملک ادائیگی‘ رہائش اور دیگر مراعات کی جو پیشکش کی گئی ہے ایسی ہی ایک پیشکش کا انکشاف ڈیڑھ سال قبل نیب کے چیئرمین جسٹس(ر) جاوید اقبال نے ممتاز صحافی ضیاء شاہد کے آف دی ریکارڈ گفتگو میں کیا تھا۔ چیئرمین نیب کے مطابق انہیں شریف خاندان کے فرد نے بتایا تھا کہ اگر وہ استعفیٰ دے کر بحران پیدا کر دیں‘ شریف خاندان کے بارے میں مقدمات اور ریفرنسز التواء کا شکارہوں تو انہیں صدر ممنون حسین کی ریٹائرمنٹ پر اس اعلیٰ ترین منصب پر فائز کرنے کے علاوہ اربوں روپے نقد ادائیگی اور بیرون ملک قیام کا موقع فراہم کیا جائے گا‘ یہ لین دین خانہ کعبہ میں ہو گا اور عملدرآمد کے لئے بااعتماد ضمانت کا بندوبست کیا جائے گا۔ ضیاء شاہد سمیت کئی ٹی وی اینکرز اور کالم نگاروں نے بار بار اس کا ذکر کیا مگر شریف خاندان کی طرف سے کبھی تردید نہ ہوئی۔ ججوں کو خریدنے‘ دبائو ڈال کر مرضی کے فیصلے حاصل کرنے اور ناکامی پر اعلیٰ ترین عدلیہ اور نیک نام ججوں پر حملوں کی ایک تاریخ ہے۔ جس میں ہمیشہ شریف خاندان کا نام آتا ہے ارشد ملک پر حیرت مگر اس لئے ہے کہ وہ ملتان سے لے کر اسلام آباد تک کبھی طارق ملک اور کبھی ناصر بٹ کے ہاتھوں بلیک میل ہوتا رہا‘ بار بار بلیک میلنگ کی بھاری قیمت ادا کی مگر نگران جج جسٹس اعجاز الاحسن کے سامنے زبان کھولی نہ کسی ادارے کو بتایا اور نہ عوام و اہل خانہ کو اعتماد میں لیا۔ جس جرأت کا مظاہرہ انہوں نے مریم نواز کی پریس کانفرنس کے بعد کیا اور میرے خیال میں مافیا ایک بار پھر بے نقاب ہوا‘ اس میں دلیری وہ کئی ماہ قبل دکھاتے تو شائد انہیں اور عدالتی نظام کو شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ جج ارشد ملک کی احتساب عدالت سے علیحدگی کے بعد بیان حلفی کے دیگرکرداروں ناصر جنجوعہ ‘ مہر جیلانی اور میاں طارق کی فوری نگرانی اور گرفتاری ازبس ضروری ہے تاکہ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران یہ اپنی گواہی ریکارڈ کرا سکیں اور کوئی انہیں نقصان پہنچا کر گواہوں اور شواہد کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں کامیاب نہ ہو۔ میاں طارق نے بلیک میلنگ کے کاروبار میں اور کس کس سے کیا نفع سمیٹا‘یہ پتہ چلانا ہمارے اداروں کا کام ہے جو ارشد ملک کی سرگرمیوں کو مانیٹر کرنے میں بہرحال ناکام رہے حتیٰ کہ میاں نواز شریف سے ملاقاتوں سے بھی بے خبر۔ اگر خبر تھی تو یہ ع اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا