لیفٹیننٹ جنرل(ر) جاوید اقبال اور بریگیڈیئر (ر) راجہ رضوان کی سزائوں کا اعلان ہوا تو ہر انصاف پسند اور محب وطن شہری نے پاک فوج کے احتسابی نظام کی تعریف کی مگر پاکستان میں سول بالادستی کے نام نہاد علمبرداروں اور’’ فوج سمیت کوئی احتساب سے بالاتر نہیں‘‘ کا نعرہ لگانے والے بعض سیاستدانوں‘ دانشوروں‘ تجزیہ کاروں‘ وکیلوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کو سانپ سونگھ گیا‘ حرف تحسین تو خیر کیا بلند ہونا تھا‘ جھوٹے منہ کسی نے یہ بھی نہ کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر قیادت پاک فوج نے قومی مفادات کو نقصان پہنچانے والے اعلیٰ فوجی افسروں کو سزا دے کر آئندہ یہ راستہ روکنے کی کوشش کی ہے۔ ماضی میں پاکستان دشمن قوتوںکا آموختہ دہرانے اورغیر ملکی ایجنڈے کے تحت پاکستانی فوج کے خلاف دشنام طرازی کرنے والے عناصر نے کرپشن‘ لوٹ مار‘ غیر ملکی دلالی اور قانون شکنی میں ملوث سیاستدانوں‘ بیوروکریٹس وغیرہ کا دفاع یہ کہہ کرکیا کہ صرف سویلین ہی گردن زدنی کیوں؟ ججوں اورجرنیلوں کا احتساب کون کرے گا؟ حسن اتفاق ہے کہ اعلیٰ فوجی افسروں کی سزائوں کا اعلان اس وقت ہوا جب ایک قابل احترام جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں بیرون ملک اثاثے چھپانے پر صدارتی ریفرنس دائر ہوا اور دو ارکان اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر فوجی چوکیوں پر حملے‘ تین فوجی اہلکاروں کی شہادت‘ پاکستان مخالف سرگرمیوں کے جرم میں گرفتار ہوئے ‘بلکہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ‘ پاکستان میں بلا تفریق احتساب کے خواہش مند قومی حلقوں کی طرف سے زور دار مطالبہ ہو رہا تھا کہ قومی مفاد کو نقصان پہنچانے والے ہر شخص کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے خواہ اس کا تعلق کسی سیاسی جماعت‘ مذہبی‘ لسانی‘ نسلی گروہ اور طبقہ اور عدلیہ و فوج سے ہو۔ کسی مہذب اور قانون پسند معاشرے میں قانون شکن رکن اسمبلی کی گرفتاری غیر معمولی واقعہ ہے نہ کسی جج کا مروجہ آئینی و قانونی طریقہ کار کے مطابق محاسبہ اچھنبے کی بات ‘جنوبی کوریا کی صدر پارک گیون کو دوست نوازی پر ہتھکڑیاں لگ چکی ہیں وہ ان دنوں جیل میں ہیں اور ان کا کوئی عزیز رشتہ دار‘ پیروکار ٹویٹر پر مظلومیت کی داستان بیان کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ ایک بار پھر وزیر اعظم منتخب ہونے والے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو زیر تفتیش ہیں اور برطانیہ میں کئی وزیر معمولی مالی بے ضابطگی پر مستعفی ہو چکے‘ جمہوریت خطرات سے دوچار ہوئی نہ انتقام اور امتیازی سلوک کا شور مچا۔ ہم تو اس رسول رحمت ﷺ کے پیرو کار ہیں جن کا حکم ہے کہ پہلی قومیں امیر و غریب‘ طاقتور و کمزور میں امتیاز کی بنا پر تباہ ہوئیں‘ لیکن مہذب معاشروں کے غیر مسلم حکمران اور عوام جانتے ہیں کہ تمیز بندہ و آقافساد آدمیت ہے‘ قانون کا بلا امتیاز نفاذ ہی معاشرے کو بدامنی ‘ ناانصافی ‘باہمی چپقلش اور تخریب و شکست سے محفوظ رکھتا ہے‘ جس سماج میں لینے کے باٹ اور‘دینے کے اور ہوں ‘ قانون کمزور کے لئے فولادی پنجہ اور طاقتور کے لئے گلاب کا پھول ہو ‘ نرم ‘عطر بیز اور راحت و فرحت افزا‘ وہ زیادہ دیر تک اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے نہ اقوام عالم میں عزت و ووفا کا حقدار‘ پاک فوج نے احتساب کی عمدہ مثال سے نیب کے سیاسی و غیر سیاسی ملزموں کے علاوہ ریاست کے خلاف سرگرم افراد اور گروہوں کو بھی پیغام دیا ہے اور سپریم کورٹ کے قابل احترام جج کی آڑ میں وکلاء اور سول سوسائٹی کو احتجاجی تحریک پر اکسانے والوں پر بھی واضح کیا ہے کہ اب ملک میں احتساب سے فرار کی گنجائش نہیں۔ بلاول بھٹو نے ریاست کو چیلنج کرنے‘ عوام کو بغاوت پر اکسانے والے محسن داوڑ اور علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر پر اصرار کر کے اپوزیشن کی کشتی میں بھاری پتھر ڈال دیے ہیں۔ اپنے والد گرامی اور پھوپی جان کو جعلی اکائونٹس کیس میں احتساب سے بچانے کے لئے وہ اس حد تک جائیں گے؟ کسی کو توقع نہ تھی‘ اس پر مستزاد ریاست کا یہ بیانیہ کہ کوئی احتساب سے بالاتر نہیں۔ مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا کوئی چھوٹا بڑا ہو ‘ جج ‘جرنیل یا جرنلسٹ۔ فوج نے تو اس بیانیے کو قبول کرتے ہوئے اپنی نیک نیتی اور اخلاص کا ثبوت دے دیا۔ عدلیہ بھی بطور ادارہ اپنی صفوں میں چھپی کالی بھیڑوں کو بچانے کے حق میں نہیں‘ البتہ قانون اور انصاف کی گاڑی کا اہم پہیہ یعنی بار اسے عدلیہ کی آزادی‘ خود مختاری اور عزت و وقار کا معاملہ قرار دے کر برہم اور 2007ء کا جیسی عدلیہ تحریک چلانے کے درپے ہے۔ بار کی قابل احترام قیادت کو یاد نہیں کہ جب جنرل پرویز مشرف نے سعید الزماں صدیقی اور دیگر ججوں کو فارغ کیا تھا تو کوئی سڑکوں پر نکلا نہ تحریک چلی‘ جسٹس افتخار محمد چودھری کے حق میں وکلاء کی تحریک کو سیاسی جماعتیں سپورٹ نہ کرتیں اور ساڑھے سال سات بعد جنرل پرویز مشرف صرف عوام ہی نہیں فوج کی نظروں سے گر نہ چکے ہوتے‘ آئی ایس آئی چیف اور پرویز مشرف کے فوجی جانشین جنرل اشفاق پرویز کیانی کی خاموش تائید و حمایت عدلیہ بحالی تحریک کو حاصل نہ ہوتی تو اس کا حشر بھی میاں نواز شریف کی تحریک نجات اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی تحریک خزاں سے مختلف نہ ہوتا‘ آغاز بھی رسوائی‘ انجام بھی رسوائی۔ اس وقت بلا امتیاز و بلا تفریق احتساب عوامی نعرہ ہے‘ ملک میں کوئی فوجی آمر نہیں ایک مقبول و منتخب سیاسی لیڈر کی حکمرانی ہے‘ اپوزیشن اخلاقی ساکھ سے محروم اور ریاست کے دفاع و سلامتی میں تن ‘ من دھن کی بازی لگانے والے ادارے امن و استحکام کے متمنی‘ کوئی بھی احتجاجی تحریک موجودہ بُری بھلی جمہوریت کا بوریا بستر ضرورلپیٹ سکتی ہے‘ میاں نواز شریف آصف علی زرداری میاں شہباز شریف مولانا فضل الرحمن کو اقتدار میں نہیں لا سکتی۔ مریم نواز شریف‘ بلاول بھٹو اور حمزہ شہباز کو عوام کی آنکھ کا تارہ بنانے کے قابل ہرگز نہیں۔ ننگی مداخلت کا امکان ہے نہ علاقائی اور بین الاقوامی حالات اس کی اجازت دیتے ہیں اور نہ دفاع وطن کے مقدس فریضے میں مشغول کسی افسر و اہلکار کو سوچنے کی فرصت۔ لیکن اگر احتساب کے موجودہ عمل کو ڈی ریل کرنے اور مافیاز کی حکمرانی کے سابقہ دور کو واپس لانے کی احمقانہ کوششیں ہوئیں تو پھر حالات جو رخ اختیار کر سکتے ہیں ان پر عمران خان کا کنٹرول ہو گا نہ نتیجہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کے لئے‘ خوشگوار ۔ یہ قوم 1990ء ‘1980ء کی دہائی سے ملک میں ایک ایسے مسیحا کا انتظار کر رہی ہے جو عشروں سے عوام کو یرغمال بنا کر قومی وسائل‘ اقتدار و اختیار اور مراعات سے داد عیش دینے والے دوچار ہزار چوروں اور سینہ زورں کا صفایا کرے اور کسی عوام دوست نظام کی بنیاد رکھے‘ پاکستان میں انقلاب کا نعرہ ہمیشہ بلند ہوا مگر کسی نے انقلاب برپا ہوتے دیکھا نہیں ‘دل پشوری کرنے کے لئے کبھی ایوب خان کے مارشل لاء پر انقلاب کا لیبل لگا دیا‘ کبھی بھٹو کی عوامی آمریت کو عوامی انقلاب کا جامہ پہنا دیا۔ فرانس‘ ایران اور چین میں انقلاب نے اشرافیہ کو کس طرح سڑکوں ‘چوراہوں پر گھسیٹا اور کردہ ‘ ناکردہ جرائم کی سزا دی ہم نے سنا ہے‘ دیکھا نہیں‘ مارشل لاء بھی ہمارے ہاں خاصے شریفانہ اور ہومیو پیتھک قسم کے لگے۔ مصر میں عبدالفتاح السیسی کا مارشل لاء چند برس پہلے کا قصہ ہے اور خاصہ تلخ و ترش واقعہ‘ امریکہ سمیت کسی جمہوریت پسند ملک نے مذمت نہیں کی‘ الٹا گلے لگایا۔ فوجی افسروں کے خلاف کارروائی میں احتساب مخالف خواتین و حضرات اور محسن داوڑ و علی وزیر کی محبت میں گرفتار بلاولوں‘ فرحت اللہ بابروں کے لئے سبق ہے کہ کوئی احتساب سے بالاتر ہے نہ مقدس گائے‘ سیاست دان ‘ جج جرنیل اورجرنلسٹ۔ مجھے گزشتہ سال مارچ کی ایک بریفنگ یاد آتی ہے‘ کہا گیا’’جس نے غلط کام کیا ہے اس کا احتساب ہو گا خواہ اس کا تعلق فوج سے ہے‘ پی ٹی آئی‘ مسلم لیگ اور پی پی سے یا کسی دیگر ادارے سے‘ اپنے ملک سے گند صاف کرنا ہے‘ کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں‘‘ تازہ فیصلے کا پیغام بھی یہی ہے۔ قوم کے لئے قربانی دینے کا وقت ہے اشرافیہ فیصلہ کر لے کہ مال بچائے یا کھال۔