بجٹ کے اچھا یا برا ہونے سے کیا ہوتا ہے۔ دو وقت کی روٹی بمشکل ملے تو شاید اتنا رنج نہ ہو جتنا روٹی کی قیمت لگانے والوں کی ترش زبان سے ہوتا ہے۔ پارلیمان تو اعلیٰ مقام ہے۔ اس تک کئی مشکلات پھلانگ کر پہنچناپڑتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر مقتدر طبقات کی اشیرواد نہ ہو تو اس سفر کی تھکان برداشت کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پارلیمان کی اتنی بے توقیری کی جاتی ہے۔ اگر اس منزل تک پہنچنے والے راستے پر راہزن نہ بیٹھے ہوتے، اگر معاملہ مسابقت کے اصولوں پر چھوڑ دیا جاتا۔ اگر کارکردگی کی بنا پر عوامی نمائندوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملتا اور اگر عوام کے نمائندوں کو انہیں کیذریعے پارلیمان میں آنے دیا جاتا تو شائد جو کچھ ہم نے 15 جون کو ٹی وی سکرینوں پر دیکھا، نہ دیکھنے کو ملتا۔ جس چیز میں محنت اور خلوص کی کمی ہو اس سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ ملک کو ماں سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ پارلیمان اسی ماں کو قابل احترام بنانے کا اہم ادارہ ہے۔ ملک کو چلانے والے تمام اداروں کے سوتے اسی سے پھوٹتے ہیں۔ اسی پارلیمان میں بیٹھ کر میرے اور آپ کی قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ان فیصلوں سے بڑھ کر بھی ایک فیصلہ ساز ہے وگرنہ جن نمائندوں نے اپنی ماں کی حرمت کا خیال نہ کیا ہمیں تو وہ الٹی ہنڈیا کی طرح کسی چوراہے میں بے یارو مدد گار چھوڑ دیتے۔ کئی بد قسمت جن کی داد رسی صاحب ثروت لوگوں کے ذمے لگائی گئی اسی ہنڈیا کی طرح تمام زندگی گزار دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں اگر صدقات کا اتنا موثر نظام نہ ہوتا تو بھوک اور افلاس سے لوگ ہر روز مر رہے ہوتے۔ ابھی بھی کئی گھر مہنگائی کے ہاتھوں اجڑ رہے ہیں۔والدین معصوم بچوں کو بھوک سے چھٹکارا دلانے کے لیے اپنے ہاتھوں قتل کررہے ہیں۔ جو ایسے انتہائی قدم اٹھانے کی جرات نہیں رکھتے وہ بے ایمانی کے تڑکے سے اپنی کمائی میں تری لا رہے ہیں۔ لیکن پارلیمان میں بیٹھے دیوتاوں کو اس سے کیا مطلب۔ ان کے لیے تو یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے حریف کو ایک کے بدلے کتنے تھپڑ رسید کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ ان کے لیے قانون سازی ایک پیشہ ہے جس کی اجرت شان و شوکت کی زندگی سے شروع ہو کر گالی دینے پر ختم ہو جاتی ہے۔ پہلے وقتوں میں نواب اپنے بچوں کو آداب اور رکھ رکھاو سکھانے کے لیے طوائفوں کے پاس بھیجا کرتے تھے۔ یقینا ان کوٹھوں کا ماحول بہت ہی شائشتہ ہوگا وگرنہ وہاں گالم گلوچ اور بدتہذیبی یا ایک دوسرے کاگریبان پکڑنے کی روایت ہوتی تو شرفاکیوں اپنی اولادوں کووہاں بھیجتے۔ سوچنے بیٹھوں تو کہاں سے کہاں بات نکل جاتی ہے۔ دل اداس ہے اور اس سے بڑھ کر پشیمان بھی کہ اس بند گلی سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ سب کو الزام دیکر دیکھ لیا۔ سب آزمائے گئے۔ حساب لگانے بیٹھوں تو صفر کے دائیں جانب لگانے کے لیے ہندسے نہیں ملتے کہ کارکردگی کا عدد ہی پورا کر لیا جائے۔ پھر بھی یہ ملک چل رہا ہے۔ قرضوں پر ہی سہی پر چل تو رہا ہے۔ ایک ایسی قوم ہونے کے باوجود جس میں تیس سال کی عمر تک کے لوگوں کی تعداد کل آبادی کا ستر فیصد ہے، اسے اگر نظام چلانے کے لیے دنیا بھر میں ہاتھ پھیلانے پڑیں اور ہنر مند افراد کی کمی کا طعنہ سننا پڑے، اس قوم نے کلچر کے نام پر گالی ہی دینی اور سننی ہے۔اقبال نے بتایا تھا کہ قومیں افراد سے بنتی ہیں۔انہی کو ملت کا ستارہ بھی بتایا۔ ہم ہیں کہ الٹی گنگا بہانے پر بضد ہیں۔ بجائے اسکے کہ عوام کو علم وتربیت سے مانج کر ملک کی شناخت کا ذریعہ بناتے ہم نے شناخت کو مصنوعی چیزوں سے حاصل کرنے کی دوڑ شروع کر دی۔ اس گرد کو چھانتے کبھی مذہب ، کبھی سکیورٹی اور آجکل جیو اکنامکس کے پیرہن میں شناخت کی تلاش جاری ہے۔ گو یہ تمام عوامل ملک کی ساخت کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہیں لیکن شناخت کا معاملہ مختلف ہے۔ کیا ایک سپاہی سرحدوں پر جان کی فکر کیے بغیر اس لیے ڈیوٹی دیتا ہے کہ اسے شناخت ملے؟ ایسا نہیں ہے۔ اگر ملک کے لئے جان دینے کا محرک شناخت ہوتا تو اس سے بہت جلدی لوگ اکتا جاتے۔ اس معمے کا حل یہ تھا کہ مزدور (سپاہی بھی مزدور ہی ہے ) کے لیے اسکے کام کو احترام اور وقار حاصل کرنے کا ذریعہ بنا دیا جاتا۔احساسٍ احترام اور وقار احساسٍ شناخت سے کئی گنا بڑا ہوتا ہے۔تیونس کا وہ سبزی فروش تو یاد ہوگا جس نے مٹی کا تیل چھڑک کر اپنے آپ کو اگ لگا لی تھی۔ محمد بوزیزی کی سبزی کی ریڑھی کو 17 دسمبر2010 میں پولیس افسر نے یہ کہہ کر اپنے قبضے میں لے لیا تھا کہ محمد کے پاس سبزی بیچنے کا پرمٹ نہیں تھا۔ اس کے گھر والوں کے مطابق فایدہ حسن نامی خاتون پولیس افسر نے محمد کو سر عام نہ صرف تھپڑ مارا بلکہ اس کے منہ پر تھوکا بھی اور اس کا برقی ترازو بھی چھین لیا۔ محمد اپنی فریاد لے کر گورنر کے آفس گیا جہاں گورنر نے اس سے ملنے سے انکار کر دیا۔ ان تمام رویوں نے اسکے احساسٍ احترام کو ایسی ٹھیس پہنچائی کہ اس نے یہ کہتے ہوئے اپنے آپ کو جلادیاکہ’’ کیسے امید رکھتے ہو کہ میں ایسے ماحول میں روزگار حاصل کرسکتاہوں۔’’ اس نے جان غربت سے تنگ آ کر نہیں دی بلکہ اس کا محرک وہ طمانچہ اور پولیس اور سرکاری ملازمین کا ہتک آمیز رویہ تھا۔ دیکھتے دیکھتے پہلے تیونس پھر پورے عرب میں اس واقعہ نے ہلچل مچا دی اور پھر عرب بہار کے نام سے جدو جہد کا آغازہوا۔ ان تمام مظاہرین میں حکمرانوں کے ہاتھوں ملنے والیذلت اور رسوائی سے نجات حاصل کرنے کی قدر مشترک تھی۔ پنجابی بے غیرت نہیں کہ گالی کے بغیر رہ نہ سکے۔ ہاں وہ لوگ جنہوں نے پارلیمان کو اپنی طاقت بڑھانے کا آلہ بنایا ہے ان کے لیے ہر وہ چیزگالی ہے جو ان کی انا سے بڑی ہو۔