جب سے مالشیوں اور پالشیوں کا ذکر شروع ہوا ہے مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جو ایسے لوگوں کے طریقہ واردات کے بارے میں ہے۔ ایک دوست جو کہ موبائل فون کا کاروبار کرتے تھے انکے ہاں میں کسی خریداری کے لئے گیا تو انہوں نے چائے کے لئے بٹھا لیا اور اپنی کرسی جو پیسوں والے غلے کے پاس پڑی تھی آفر کر دی۔ ابھی کچھ ہی لمحے گزرے تھے کلف شدہ لٹھے کی شلوار قمیض میں ایک صاحب دکان میں داخل ہوئے جو کہ میرے اندازے کے مطابق دوست کے شناسا تھے، انہوں نے بہت رازدار ی سے بتایا کہ انکے صاحب باہر گاڑی میں بیٹھے ہیں اور فون کی خریداری کے سلسلہ میں آنا چاہ رہے ہیں۔ جب وہ تشریف لائیں تو آپ براہ مہربانی انکا کھڑے ہو کر استقبال کریں، انہوں نے اس ہدایت کے وقت میری طرف کن انکھیوں سے دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ انکو بھی کہیں کھڑے ہو جائیں۔لیکن کچھ بولے نہیں۔میرے دوست نے انہیں یقین دلایا کہ بے فکر رہیں انکی عزت افزائی کی جائے گی۔ میرے خیال میں وہ کوئی بہت اہم عہدیدار ہونا چاہیئے تھا ۔ کچھ دیر ہم نے انتظار کیا پھر وہی صاحب آتے ہیں اور دروازہ پورا کھولتے ہوئے صدا لگاتے ہیں کہ جناب عزت مآب ڈی ایس پی صاحب (نام نہیں لکھ رہا) تشریف لاتے ہیں۔مجھے غصے کے ساتھ ہنسی بھی آ رہی تھی کہ وہ صاحب نہ صرف مجھے جانتے تھے بلکہ بہت سادہ منش انسان تھے۔ اس صورتحال میں مجھے دیکھ کر وہ بہت شرمندہ ہوئے اور معذرت کرتے ہوئے اپنے مالشئے کو ایک بہت خوفناک قسم کی گالی دیتے ہوئے باہر کھڑا ہو کر انتظار کرنے کا کہا۔وہ اس بات پر بھی انتہائی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے باہر جا کر کھڑا ہو گیا۔ میں دکان کے شیشے سے دیکھ سکتا تھا کہ اسکے چہرے پر کوئی ملال نہیں تھا بلکہ وہ صاحب کے باہر آنے تک مسلسل مسکراتا رہا۔ایسے کردار آپ کو ہمارے معاشرے میں بے شمار مل جائیں گے جن پر غالب کا مصرعہ منطبق ہوتاہے، گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا ان دنوں آپ مالش اور پالش کرنے والوں کے خلاف ایک محاذ آرائی دیکھ رہے ہونگے، خوب لعن طعن ہو رہی ہے۔انکے خلاف ڈٹ جانے والوں کے بیان بھی آپ سن رہے ہونگے۔ بیان دینے والوں میںعام سیاسی کارکن سے لے کر چوہدری نثار جیسے مسلسل عوامی حمایت کے دعویدار بھی شامل ہیں۔یہ معاملہ صرف مسلم لیگ (ن) کے متاثرین تک محدود نہیں ہے بلکہ دوسری سیاسی جماعتوں میں بھی اسی قسم کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ کیا انتخابات میں ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے یہ مسئلہ زیادہ نمایاں ہو گیا ہے ۔ یا کسی کو اصولی سیاست یاد آ گئی ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ضمیر نے اچانک انگڑائی لی ہو۔ کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے ۔ کسی کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیئے ۔یہ جاننے کے لئے کہ ہوا کیا ہے ضروری ہے کہ جانا جائے کہ یہ کون لوگ ہیں جو مالش اور پالش کا کام کرتے ہیں اور اس کے فوائد کیا کیا ہوتے ہیں۔دنیا بھر میں ایسے کردار ملتے ہیں لیکن ہمارے ہاں انکی تعداد اچھی خاصی ہے۔یہ کردار ہمارے معاشرے کے ہر شعبے میں پائے جاتے ہیں جو جی حضوری سے لیکر کوئی بھی خدمت کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔اکثر اوقات اپنی حیثیت سے بڑھکر خدمت سر انجام دیتے ہیں جسکے وسائل بھی انکے پاس نہیں ہوتے لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ وسائل سے تو کیا اثرو رسوخ میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ وہ سرکاری محکمے میں ہوں تو افسران کی انکھ کا تارا بن جاتے ہیں، سیاست میں ہوں تواپنے اور اپنے خاندان کے لئے اہم عہدوں کا حصول ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔یہ حکمرانوں کے آنکھ پر بندھی ہوئی پٹی ہوتے ہیں جو اس وقت کھلتی ہے جب یہ پالشیئے اور مالشیئے اپنے کسی فائدے کے لئے ضمیر زندہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے بغاوت کا علم بلند کرتے ہیں۔ان کے لئے پالش کے لئے نئے بوٹ ڈھونڈنا آلو پیاز لانے جیسا ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں اعلیٰ طبقوں میں ان کے لئے ہر وقت ویکینسی موجود ہوتی ہے۔ایسے لوگ دیکھنے میں بہت کم ملے لیکن انکے بارے میں سنا بہت کچھ ہے۔ جیسے کہ چوہدری نثار کے ہی ایک وزیر ساتھی ہوا کرتے تھے جو اب مختلف جماعتوں میں گھو م پھر کر دوبارہ مشرف بہ مسلم لیگ (ن) ہو چکے ہیں۔ انکے بارے میں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں یہ بات مشہور تھی کہ کابینہ کے اجلاس سے پہلے جیسے ہی انہیں معلوم ہوتا تھا کہ وزیر اعظم میٹنگ ہال میں داخل ہونے والے ہیں وہ اونچی آواز میں پکارتے تھے کہ با ادب با ملاحظہ، ہوشیار وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب میاں محمد نواز شریف تشریف لاتے ہیں۔ اور وہ اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ انکی یہ صدا وزیر اعظم کے کانوں میں ضرور پڑے۔ شاید یہی صدا آج بھی انکے کام آئی جب میاں نواز شریف جنرل مشرف کے حامیوں یا شامل اقتدار لوگوں کا نام بھی سننے کو تیار نہیں تھے انہوں نے ان صاحب کو ایک روز پہلے اپنی جماعت میں خوش آمدید کہا اور پھر سینیٹ کی نشست سے بھی نوازا۔ملا دو پیازہ اور بیربل کے کلچر کے عادی ہم لوگ ایسے مالشیوں اور پالشیوں کے بغیر بے رنگ زندگی گزارتے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کو ان مالشیوں اور پالشیوں کا اس قدر چسکا پڑ چکا ہے کہ یہ جانتے ہوئے کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسا ذہین و فطین شخص بھی جب ان کاسہ لیسوں کے ہتھے چڑھا توسولی پر چڑھ گیا۔میاں نواز شریف آج جس مقام پر کھڑے ہیں وہ کڑاکے نکالنے کے نعرے لگانے والے خوشامدیوں کی برکت سے ہیں۔ حتیٰ کی جنرل مشرف کو بار بار ملک واپسی کا بخار بھی انہی مالشیوں اور پالشیوں کی وجہ سے چڑھتا ہے حالانکہ انکو پوری طرح علم ہے کہ پہلی مرتبہ جب وہ واپس آئے تھے تو فیس بک والی تعداد کا ایک فیصد بھی انکی پذیرائی کے لئے موجود نہیں تھا۔ سنا ہے کہ عمران خان بھی پوری طرح سے ،بھاگ لگے رہن ،بریگیڈ کے کنٹرول میں آ چکے ہیں۔اگر یہ خبر درست ہے تو ہم انکے لئے دعا ہی کرسکتے ہیں۔