ایک بے آرام تنگ سی گلی جس کے دونوں جانب کے بھدے سے مکان پہلوانوں کی مانند ماتھے قریب کرتے ہوئے اک دوجے کے ساتھ بھڑ جانے کو تیار۔ ایک ایسی گلی جس میں داخل ہو کر انسان خود بھی اس گلی کی مانند تنگ اور بے آرام ہو جائے اور جب پلٹ جانے کو جی چاہے تو اس گلی کے آخر میں مکانوں میں پھنسا ہوا ایک کھنڈر ہوتا گنبد، ایسا نظر آئے کہ اس پر اصفہان کے کسی پرشکوہ گنبد کا گمان ہو۔ ایک ایسی شکستہ عمارت جس کی برباد ہو چکی خوش نمائی میں اب تک اتنی تاثیر ہو کہ اس کی پہلی جھلک دیکھ کر دل تھم جائے کہ آخر اس بے ترتیب، گنجلک اور گندی گلیوں والے شہر میں یہ سوگوار کر دینے والی قدامت کی اجڑی ہوئی تعمیر کہاں سے ظاہر ہو گئی۔ یہ گوجرانوالہ کی ایک گلی تھی اور اس کے آخر میں نانک شاہی اینٹوں سے تعمیر کردہ ایک محرابی دروازہ چوپٹ کھلا تھا اور یہ سردار مہان سنگھ کی سمادھی کے آثار تھے جو چڑت سنگھ کا بیٹا تھا اور جو تخت پنجاب کے سب سے زور آور اور بخت آور حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کا باپ تھا۔ یہاں نہ صرف مہان سنگھ کی راکھ دفن ہے بلکہ اس راکھ پر ان زمانوں میں ایک ایسی منقش،دیدہ زیب اور پرشکوہ گنبد دار عمارت تعمیر کی گئی جس کی ہر اینٹ میں ذوق جمال کے تصویری آئینے تھے۔ یہ کھنڈر ہوتی اجڑی ہوئی عمارت اگر اب بھی دل میں اداسی کے ایک تیر کی مانند کھب جاتی ہے تو جب یہ مکمل ہوئی ہو گی تو اس کی دل فریبی کا کیا عالم ہو گا۔ یہ لاہور کے آصف جاہ اور علی مردان خان کے مقبروں سے کم دل کشی کی حامل تو نہ ہو گی اور ہاں ایک ایسی تاریخی حقیقت جس سے میں بے خبر تھا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کو لاہور میں نذر آتش کرنے کے بعد اس کی راکھ پر مشتمل ایک کوزہ یہاں لا کر بھی اس کے باپ کی راکھ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ جو یقیناً اس کی وصیت کے مطابق یہاں لایا گیا ہو گا۔ یوں رنجیت سنگھ کی راکھ کا ایک حصہ بادشاہی مسجد کے متصل گوردوارے کے فرش میں روپوش ہے اور ایک حصہ اس کے باپ مہان سنگھ کی راکھ میں راکھ ہے۔ اس پرتاثیر کھنڈر نما ’’مقبرے‘‘ کے اندر داخل ہونے سے پیشتر میں اس کی چاردیواری کے ساتھ ساتھ چلا اور منہ اٹھائے ان دیواروں کی کاریگری اور بناوٹ دیکھ دیکھ حیران ہوتا رہا۔ جگہ جگہ سے اینٹیں اکھڑتی تھیں، طاقچے منہدم ہوتے تھے، مصور نقش ماند پڑتے تھے اور ان میں سے جنگلی گھاس پھوٹتی تھی۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد ہم لوگ اتنے طیش میں آئے کہ ہم نے پاکستان کے طول و عرض میں جس عمارت پر بھی مندر کا گمان ہوا اسے جذبۂ ایمانی کی آتش بجھانے کے لیے ڈھا دیا۔ وہ سینکڑوں عبادت گاہیں جو اس سرزمین کی کافر بیٹیاں تھیں، ان کو تاراج کر دیا۔ یہاں تک کہ جین مندر، گوردوارے اور بے شمار ’’ہندو‘‘ دکھائی دیتی عمارتیں بھی مسمار کر دیں۔ یوں ہم نے اس دھرتی کے بے انت دل کش اور شاندار اور دمکتے ہوئے گہنے بھی نوچ ڈالے اور وہ تواس زمین کا زیور تھے۔ ننگر پارکر میں ایک ایسا منقش اور پتھروں سے تراشیدہ چھوٹا سا جین مت کا مندر دیکھا جو مجسموں کا ایک چھوٹا سا تاج محل تھا۔ اسے بھی توڑ پھوڑ دیا گیا۔ برسوں کی ریاضت اور عبادت سے جو پوتر زیور تخلیق کیے گئے انہیں انتقام کی نابینا آنکھوں نے برباد کر دیا۔ مہان سنگھ کی سمادھی کی یہ شاہکار عمارت بھی اسی طیش کی زد میں آ گئی۔ البتہ اس کا بے مثال گنبد کوشش کے باوجود ڈھایا نہ جا سکا۔ جلایا گیا پر مکمل طور پر جل نہ سکا۔ قائم رہا۔ بارشوں سے اس کی محرابیں، طاقچے اور ستون کائی زدہ ہو رہے تھے۔ اس کی عمارت کے گرد آہستہ سے اور جو کچھ موسموں اور انسانوں کی شدت سے بچ گیا تھا اسے ایک افسوس ناک شکل کے ساتھ دیکھا۔ لیکن ابھی ایک بڑا صدمہ میرا منتظر تھا۔ میں مہان سنگھ کے ’’مقبرے‘‘ کے محراب دار کھلے ہوئے دروازے سے اندر داخل ہوا تو وہاں فرش دکھائی نہ دیتا تھا۔ کاٹھ کباڑ۔ پلاسٹک کی ردی، بوتلیں، متروک شدہ پیکنگ میٹریل، گتے کے پچکے ہوئے ناکارہ ڈبے۔ پھٹے ہوئے جوتے، مشروبات کے خالی کارٹن کے ڈھیر تھے۔ پائوں ان میں دھنس جاتے تھے اور ان کے پٹخنے اور پچکنے کی فریاد کرتی آوازیں آتی تھیں، نیم تاریکی میں پائوں تلے آتے کاٹھ کباڑ اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں میں قدم رکھتے تو وہ ان میں دفن ہو جاتا اور جو گرز کے تلوئوں تلے یوں محسوس ہوتا جیسے مرے ہوئے پرندے کچلے جا رہے ہیں۔ شاید یہ ’’مقبرہ‘‘ کسی کباڑئیے کے ہاتھ لگ گیا تھا لیکن وہاں جو کوڑا بھرا تھا وہ تو بیکار تھا اسے کیوں اس تاریخی عمارت میں سنبھالا گیا تھا۔ تب مجھے گمان ہوا کہ شاید یہ قدرت کا انتقام ہے۔ رنجیت سنگھ نے جیسے مغل لاہور کی پہچان مقبروں اور عمارتوں کو برباد کیا تھا، نور جہاں اور اس کی بیٹی کے تابوت کھول کر ان کی ہڈیوں کو ایک تہہ خانے کی مٹی میں بے نام کر دیا تھا۔ عبادت گاہوں میں گھوڑے باندھ دیئے تھے تو یہ سب ان جرائم کی قدرت کی جانب سے سزا ہے کہ اس کے باپ کا ’’مقبرہ‘‘ ایک کباڑ خانے، ایک فلتھ ڈپو میں بدل چکا تھا۔ اس ہولناکی میں چمگادڑیں بھی بسیرا نہ کرتی تھیں کہ انہیں بھی ایک متروک شدہ مقبرہ یا کھنڈر درکار ہوتا ہے ایک فلتھ ڈپو نہیں۔ ویسے میں نے ذاتی طور پر بھی اپنے آپ کو مجرم گردانا کہ ہم اگر دوسروں کو تعصب کے جرم میں مطعون کرتے ہیں تو ہمارا ’’حسنِ اخلاق‘‘ بھی تو ان سے کم نہیں۔ اس نیم اندھیارے میں شکستہ سیڑھیاں اوپر چھت تک جا رہی تھیں اور وہاں سے دن کی روشنی کے کچھ آثار نظر آ رہے تھے۔ سیڑھیاں بھی اٹی پڑی تھیں۔آگ لگی لیکن اس عمارت کو مکمل طور پر جلا نہ سکی۔ دھویں کے آثار درودیوار پر سیاہ ہوتے تھے۔ البتہ بلندی پر کہیں کہیں رنگین تصویروں کے بچے کھچے نشان دکھائی دیتے تھے۔ کیمرے کی آنکھ سے آنکھ لگا کر اس کے لینز کو ذوم کر کے میں ان منقش منظروں کے قدرے نزدیک ہو گیا۔ گئے زمانوں کی ایک آرٹ گیلری کے نقش قریب آگئے۔ سرخ گھاگروں میں ایک سرسبز درخت کے سامنے لڑکیاں رقص کرتی تھیں اور ان کی گندھی ہوئی بالوں کی چوٹیاں ان کی کمر تلے کولہوں تک آتی تھیں۔ جن اور سجنی جھولا جھول رہے ہیں اور ایک سادھو انہیں دیکھ رہا ہے۔ سرخ پھول بکھرے ہوئے ہیں اور ان میں سرخ رنگ کا ایک گھوڑا کھڑا ہے، اس کا سوار ایک لنگوٹی میں کھڑا ہے اور اس کے سامنے ایک بیل کے آگے پرانی شکلوں والے اور قدیم پیراہنوں والے دو مرد ہاتھوں میں لاٹھیاں بلند کیے چلے آ رہے ہیں اور ان کے عقب میں ایک عورت ان پر ایک چھاتا تانے حیران کھڑی ہے۔ اس پرشکوہ اجاڑپن کو ذرا سی توجہ سے بحال اب بھی کیا جا سکتا ہے اور یہ عمارت اس شہر کا شاندار امتیازی نشان بن سکتی ہے لیکن پہلوانوں کو تاریخ کی شانداری سے کیا لینا دینا۔ وہ اپنے کھاڑوں اور کھابوں میں خوش ہیں۔ یہاں اس گنبد تلے مہان سنگھ اور اس کے بیٹے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی مٹھی بھر راکھ دفن ہو گی۔ کہاں ہو گی، شاید وہاں جہاں میں کھڑا تھا۔ میرے جوگرز تلے ہو گی۔