جینے کا حوصلہ مجھے اچھا دیا گیا مجھ کو خیال خام میں الجھا دیا گیا بس اس سبب سے مجھ کو نہیں مل سکے گا کچھ میں سوچتا جو ہوں کہ مجھے کیا دیا گیا لیکن شکوہ اور شکایت سے کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا،کچھ دل کی باتیں کرتے ہیں‘اے سعدؔ اس کتاب کو کہتے ہیں لوگ دل جس کو گل خیال سے مہکا دیا گیا۔سیاست کی بات بھی کریں گے اور دین کی بھی کہ صرف چنگیزی درست نہیں۔ دونوں صورتوں میں ادب تو ملحوظ خاطر رہنا چاہیے۔بات کچھ یوں ہے کہ آج درس میں مولانا حبیب اللہ چیزوں کی حلت و حرمت پر بات کر رہے تھے کہ خون ،مردہ کا گوشت اور وہ جانور جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہوحرام ہیں مگر ساتھ جو یہ کہا گیا کہ انتہائی مجبوری کی حالت میں کہ جان کو خطرہ ہے تو ممنوعہ چیز کھا کر جان بچا سکتا ہے ۔مگر اس کے اندر حکمت یہ کہ اللہ کو اپنے بندے کی جان اتنی عزیز ہے کہ چھوٹ اور رخصت دے دی۔ اس بات سے مجھے اپنے مرحوم دوست اظہار شاہین یاد آئے کہ کیا بلا کے شاعر تھے اور کیا نفیس آدمی تھے مرے پاس آتے، چائے چلتی اور وہ ہنستی ہوئی آنکھوں سے خوشبودار باتیں کرتے ۔ ’’کھلونوں کی دکانوں راستو دو ،میرے بچے گزرنا چاہتے ہیں‘‘ ’’کوہساروں کا فیض ہے ورنہ ،کون دیتا ہے دوسری آواز ‘‘ ’’اتناتجھ کو ڈھونڈا ہے، آنکھیں بھر گئیں چہروں سے‘‘ ’’تم کسی راستے سے آ جانا،میرے چاروں طرف محبت ہے‘‘ اور’’ چاند کچھ دیر تو ٹھہر گھر میںِ آسماں سے تجھے اتارا ہے‘‘۔ حلال رزق کے اثرات بچوں پر کیسے ہوتے ہیں۔ وہ کثیر العیال تھے 9 بیٹوں کو میں نے خود اپنے سامنے ایک دوسرے سے اس بات پر جھگڑتے دیکھا کہ ہر کوئی والد کو اپنے پاس رکھنے پر بضد تھا۔ کیا کریں ہم احسن تقویم سے نا جانے جانے کیوں اسفل سافلین کے درجے پر آ گئے۔ مولانا حمید حسین صاحب نے ایک حدیث کی روشنی میںاس معاملے پر خوبصورت اظہار کیا۔ قربان جائوں اپنے آقا محمد ﷺ پر کہ آپ کی تعلیم اور تربیت یہ بتاتی ہے کہ آپ کا عمل کیا ہے؟ اس کو چھوڑیں کہ سامنے کون ہے اور کس سزا کا مستحق ہے اگر آپ اسے معاف کر سکیں درگزر کر سکیں ایک عظمت اور ایک وقار آپ کی شخصیت میں ہونا چاہیے۔وہی کہ پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر۔بات تو سبق سیکھنے کی ہے اور فطرت آپ کے اردگرد پھیلی ہوئی ہے: ہم نے تو اڑتے پرندوں سے یہی سیکھا ہے کام آئے تو فقط اپنے ہی بازو آئے کہنے کا مطلب یہ کہ انسان تو ایک طرف آپ جانور یا پرندے سے بھی کچھ سیکھ سکتے ہیں اور تو اور درختوں کی طرح سایہ مہیا کر سکتے ہیں اور تو اور میں نے ایک بندریا کو دیکھا کہ وہ اپنے بچوں کو زیادہ اچھل کود سے منع کر رہی تھی ، بار بارکھینچ کر اپنے پاس بٹھا دیتی مگر ایک انسان ہیں کہ ان کی حرکتیں دیکھنے والی ہوتی ہیں۔اس بندے کیلئے ناچ ناچ کر ہلکان ہو رہے ہوتے ہیں جس نے کبھی ان کو ملنا تک نہیں ہوتا۔ عبداللہ دیوانہ کا محاورہ تو پرانا ہو گیا اب تو آپس میں قریبی دوست اور رشتہ دار لڑ پڑتے ہیں۔ بات تو ہم نے سیاست کی بھی کرنا تھی کہ حمزہ شریف فارغ ہو چکے اور اب پرویز الٰہی وزارت اعلیٰ پر متمکن ہیں ۔ ویسے ان کا کمال ہے کہ وہ کہ سخت صورتحال میں بھیڈٹے رہے کہ وہ پرانے دوستوں سے ناامید نہیں تھے ۔یہ الگ بات کہ چودھری شجاعت حسین نے اپنی جگہ پرانی دوستی وضعداری سے نبھائی اور سرعام بتا بھی دیا ۔ حکمران اتحاد نے کچھ زیادہ ہی سخت زبان استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو ’’جوڈیشل کو‘‘ کہا ہے گویا وہی پرویز مشرف کے کو جیسا ن لیگ کو باردگر زخم لگا ہے۔بہرحال پی ٹی آئی والے بھنگڑے ڈال رہے ہیں اور ان کا حق بھی ہے کہ ان کا امیدوار وزیر اعلیٰ پنجاب بن گیا ۔سیاست تو سیاست ہے ۔مفاد ،مفاہمت اور منافقت جیسے سارے الفاظ ’’م‘‘ سے شروع ہوتے ہیں جہاں تک پرویز الٰہی کی شخصیت کا تعلق ہے وہ بہرحال بزدار سے بہتر ہیں۔ صرف میں نہیں ،لکھنے والے کئی لوگ لکھ چکے کہ آغاز ہی سے پرویز الٰہی کو اس منصب پر لایا جاتا تو پی ٹی آئی کیلئے بہتر تھا ۔ کئی مرتبہ پرویز الٰہی کے بارے میں لکھ چکا ہوں کہ ان کے کریڈیٹ پر 1122کے علاوہ پڑھے لکھے سارجنٹس بھی ہیں، وہ خاندانی آدمی ہیں، ہاں شہباز شریف کے کریڈٹ پر بھی بہت کچھ ہے مگر وہ وزارت عظمیٰ پر پہنچ کر ٹھس ہو گئے۔ ڈالر کی اڑان بہت آگے ہے۔ مولانا فضل الرحمن بہت زیادہ مضطرب نظر آ رہے ہیں ۔دونوں مریم بھی ششد رہیں کہ مر مر جیسے خواب دیکھتی تھیں، محاورہ تو شیرنی کے زخمی ہونے کا ہے مگر یہاں شیر خود زخمی ہے۔ دلچسپ بات یہ سننے میں آئی ہے کہ اب نواز شریف آنا چاہتے ہیں تو انہیں لانے والے رضا مند نہیں ۔آخری بات یہ کہ بجلی کی قیمتوں سے تنگ آ کر ہم نے بھی سولر لگا لیا ہے مگر تب سے بادل نہیں ہٹ رہے ۔مہنگے پٹرول کا حل بھی نکال لیا ہے کہ جو بھی ہمیں مشاعرے پر بلاتے تو لے کر بھی جائے وگرنہ ہم اپنے گھر میں آرام سے ہیں۔ ایک اور بات کہ ہمیں آمنہ الفت ضرور مبارکباد دینی ہے کہ وہ پرویز الٰہی کی مخلص ساتھی ہیں۔