کتنابڑاالمیہ ہے کہ فرانس ڈنکے کی چوٹ پر اہانت رسولؐکامرتکب ہورہاہے لیکن اسلامی تنظیم اوآئی سی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔جب ایسے موقع پربھی یہ فورم اپناکرداراداکرنے سے قاصر رہے ، ایسے فورم سے پھرکونسی امیدوابستہ رکھی جاسکتی ہے ۔ آخرہمیں کیاہوگیاکہ ہم لتاڑھے جارہے ہیں اور ہمارے سینوں پرمونگ دلا جا رہا ہے ۔مٹھی بھر یہودیوں کے جذبات کے حوالے سے پوری دنیا حساس بن چکی ہے۔یہودی کہتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم میں جرمن فوجیوں نے تقریباً ’’ایک کروڑ‘‘گیس چیمبروں میں گھسا گھسا کر یہودیوں کو زندہ جلادیا تھا۔اور وہ اسے ہولو کاکہتے ہیں۔یعنی بقول ان کے خداکیلئے مارے گئے لوگ۔ یہودیوں نے قانون بنوادیا ہے،جس کی وجہ سے مغرب میں ہولو کاسٹ کا انکار کرنے یا اس کو مبالغہ آمیز قرار دیئے جانے کو ایک جرم سمجھا جاتا ہے ۔ جواس پر بولنے اور اس پر تحقیق کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے خلاف عدالتی کارروائی ہوتی ہے اور نتیجے میں نقد جرمانہ یا پھر قید کی سزا بھی بھگتنا پڑتی ہے۔ اس وقت یورپ کے ملکوں آسٹریا ، بلجیم ، جمہوریہ چک، فرانس ، جرمنی، لیتھوانیا ، پولینڈ ، رومانیہ، سلواکیہ اور سوئزرلینڈ میں ہولو کاسٹ کے انکار کو جرم سمجھا جاتا ہے ۔ اسی لئے اب تک ان ملکوں میں بہت سی علمی سیاسی اور سماجی شخصیات کو ہولو کاسٹ پر تنقید کرنے کی وجہ سے سزائوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔2006ء میں برطانیہ کے مورخ ڈیوڈ ارونگ کو ہولو کاسٹ پر تنقید کرنے کے جرم میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اسی طرح فرانسیسی محقق راجر گارودی کو بھی ہولو کاسٹ پر تنقید کرنے کی بنا پر سزائے قید کا سامنا کرنا پڑا ۔ مغربی دنیا میں ہولو کاسٹ پر بات کرنا تو جرم ہے کیونکہ اس سے یہود کی دل آزاری ہوتی ہے مگر انہی مغربی ممالک میں آزادی اظہار رائے کے نام پر ہمارے نبی محتشم ؐ کی شان اقدس میں توہین واہانت کاناپاک سلسلہ جاری ہے۔ سوال یہ ہے کیوں ایسی ناپاک جسارت کاارتکاب ہو رہاہے ۔اس سوال کا جواب جہاں صلیبیوں کی اسلام دشمنی ہے وہیں ہمیں یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہئے کہ مسلمان ممالک کے حکمران ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے وجودکوراکھ کا ڈھیر بنا چکے ہیں۔ مسلمان حکمرانوں!تمہارے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔ کون سا منہ لیکر اس دنیا سے جائو گے ،روز محشرجب رسولؐ اللہ تم سے پوچھیں گے کہ جب توہین اوراہانت ہو رہی تھی تو تم نے حرمت رسول اور ناموس رسالت پر کیاکیا تھا۔ عمران خان یہ سمجھتاہے کہ انہوں نے ممالک کے سربراہان کوخطوط لکھے بس آخرت میں یہی نجات کاذریعہ یہی ہو گا ہرگز اور قطعاًنہیں ۔جناب اردوان یہ سمجھتے ہیں کہ فرانس کے ملعون صدرکواپنے دماغ کاعلاج کرانے کامشورہ دینے سے وہ کامیاب ہو گئے جناب نہیں یہ امر کامیابی کے لئے کافی ہرگز نہیں ۔ترکی یااسلام آباد، دونوں ممالک میں سے ایک پہل کرے اوراوآئی سی کاسربراہی اجلاس منعقد کروائے اورعالمی سطح پر اسلامو فوبیا اور اسلام کے خلاف ہورہی دریدہ ذہنیت کے خلاف قانون سازی کرائے ۔جس طرح مغرب میں ہولو کاسٹ پربات کرنے پرسزائیں ، قید اور جرمانے مقرر ہیں اس سے بڑھ کرقرآن مجید ،رسولؐ اللہ ،امہات المومنین اورشعائراسلام کی توہین کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں کوچھلنی کرنے پرسخت سے سخت مقررہونی چاہئے ۔اوآئی سی کا اجلاس کوئی علامتی نہیں بلکہ عملی ہوناچاہئے ۔تب تک خاموش نہیں ہو جاناچاہئے جب تک وہ اس حوالے سے عالمی سطح کا قانون نہ بناسکے ۔ غور کریں فرانس نے ماہ ربیع الاول جو ولادت رسول کا مبارک مہینہ ہے کوچن کر درودوسلام پڑھنے والے مسلمانوں کی غیرت کو للکارتے ہوئے اہانت رسول کر رہا ہے اورملعون فرانسیسی صدر کی گستاخانہ خاکوں کی حوصلہ افزائی مسلم امہ سے نفرت کی علامت بن چکی ہے جس پر دنیا بھر کے مسلمان برسراحتجاج ہیں اورامت مسلمہ کی جانب سے ملعون فرانسیسی صدر کی یاوہ گوئی پر عالم اسلام کا ردِعمل سامنے آرہا ہے۔ ستمبر 2020ء میں رسوائے زمانہ فرانسیسی میگزین چارلی ایبڈو، جو ماضی میں گستاخانہ خاکے شائع کرتا رہا ہے، نے توہین آمیز خاکے دوبارہ شائع کئے جس سے مسلمانان عالم کے جذبات مجروح ہوئے۔ ردِعمل کے طور پر 25 سالہ پاکستانی نوجوان نے رسوائے زمانہ میگزین کے سابقہ دفتر کے باہر کھڑے دو لوگوں کو چاقو کے وار کر کے شدید زخمی کر دیا۔ اس کے بعد 16 اکتوبر 2020ء کو پیرس کے مضافات میں واقع ہائی اسکول کے ٹیچرملعون سیموئیل پیٹی نے اپنے کمرہ جماعت میں موجود مسلمان بچوں کو باہر جانے کیلئے کو کہا اور غیر مسلم بچوں کو چارلی ایبڈو میں چھپنے والے خاکے دکھاتے ہوئے گستاخانہ جملے ادا کئے۔ کلاس سے نکالے گئے مسلمان طلبا میں چیچن خاندان کا ایک 18 سالہ نوجوان عبداللہ بھی شامل تھا، اسے جب اپنے ساتھی طلبا سے ٹیچر کی گستاخانہ حرکتوں کا علم ہوا تو نوجوان نے اگلے ہی روز اسکول کے باہر مذکورہ ٹیچر پر چاقو سے حملہ کرکے اس کا سر تن سے جدا کردیا۔ملعون فرانسیسی صدر میکرون نے ملعون ٹیچر کو قومی ہیرو قرار دیتے ہوئے اسے قومی ایوارڈ سے نوازنے کا اعلان کیا اور گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو آزادی اظہار رائے قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم خاکے بنانا نہیں چھوڑیں گے اور اب اِن خاکوں کو عوامی مقامات پر لگایا جائے گا۔ مغرب ہمیشہ مسلم دہشتگردی کی بات کرتا ہے لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے کہ مغرب کی اسلام دشمن پالیسیاں کس قدرناقابل برداشت ہیں۔ فرانس میں پیش آنے والا واقعہ اپنی نوعیت پہلا واقعہ نہیں، مغرب جب بھی گستاخی کا مرتکب ہوگا،تولازماََ شدیدردعمل کے واقعات پیش آتے رہیں گے کیونکہ کوئی بھی مسلمان اپنے نبی کی شانِ اقدس میں گستاخی ہرگز برداشت نہیں کرسکتا۔ ناموس رسالت کا تحفظ ہر مسلمان پر فرض اور یہ ہر مسلمان کا ایسابیش بہاسرمایہ ہے جو انہیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے۔ موجودہ صورتحال میں او آئی سی کا کردار قابلِ مذمت ہے جس نے اس اہم معاملے پر چپ سادھ رکھی ہے۔ اس سے پہلے کہ حالات مزید خراب ہوں، مسلم دنیاکے حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اسلاموفوبیا اور مغرب کے اسلام مخالف رویئے کے خلاف ایک مربوط لائحہ عمل اختیار کریں جس کی توسط سے اسلام ،قرآن اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین واہانت کی ناپاک اورشرمناک جسارت کو بین الاقوامی جرم قرار دیا جائے تاکہ مسلمانان عالم کی باربار دل آزاری نہ ہو۔