ماحولیاتی تحفظ اور جانوروں کے حقوق کی تحریکیں جنھیں امریکا 

داخلی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرا قرار دیتا ہے

ان الزامات کی حقیقت پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں! 

رانا محمد آصف 

 نوگیارہ کے بعد دہشت گردی کو مسلمانوں سے نتھی کرنے کے باقاعدہ بیانیہ تشکیل دیا گیا۔ رفتہ رفتہ اس رجحان نے مغرب میں اسلاموفوبیا جیسے سماجی رجحانات پیدا کیے۔ کسی کسی ظاہری وضع سے کسی تصور کو نتھی کرنے کا عمل اسٹیروٹائپنگ کہلاتی ہے۔ داڑھی پگڑی اور مسلمان کو دہشت گردی سے جوڑ کر ایسی ہی اسٹیرو ٹائپنگ کی گئی اور مغربی میڈیا نے بڑی محنت سے مسلمان اور دہشت گرد کو مترادف بنادیا۔ بعض طبقات کی فکری دیانت اور بعض کی جانب سے اس رجحان کے تباہ کُن اثرات کے ادراک نے رفتہ رفتہ اس پراپیگنڈے کا جواب بھی دینا شروع کیا اور آج خود مغرب میں کئی مستحکم آوازیں اس رجحان کے خلاف اٹھ رہی ہیں۔ اس بحث میں نظریاتی بنیادوں پر تشدد کا جواز تراشنے والے کئی دیگر گروہ اس طرح دنیا کی نظر سے محو رہے جیسے ان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہو۔ سفیدفام نسل پرستوں کے منظم گروہ بھی اس میں نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ ناروے، برطانیہ، امریکا اور حال ہی میں نیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ کی مسجد میں ہونے والے سانحات نے اس طبقے کی دہشت گردی کو موضوع بحث بنایا لیکن آج بھی انسانیت اور اقدار کے علم بردار مغربی میڈیا میں اسے دہشت گردی سے منسلک کرنے کے لیے وہ یکسوئی نظر نہیں آتی جس کا مظاہرہ دیگر اقوام اور بالخصوص مسلمانوں کے معاملے میں کیا جاتا رہا۔ 

نسلی، مذہبی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر انسانوںکے ناحق قتل کے جواز کی تاریخ تو بہت طویل ہے لیکن جدید دور نے شدت پسندی کے ان رجحانات کو بھی کئی نئے عنوانات دیے ہیں۔ سائنس نے ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرنا شروع کیا اور اس کی تباہی کے باعث زمین کی بربادی کے جو اندیشے سامنے آئے کچھ گروہوں نے اس سے کچھ عجیب و غریب نتائج اخذ کیے اور اور اس چیلنج کے مقابلے کے لیے تشدد کی راہ اپنائی۔  

’’انسانیت قدرتی ماحول کے لیے کینسر بن چکی ہے‘‘ یہ جملہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ارتھ فرسٹ کے بانیوں میں سے ایک ڈیوڈ فارمین کا ہے۔ جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ’’پیپل فار ایتھکل ٹریٹمنٹ آف اینیمل‘‘ (PETA)کا کہنا ہے کہ ’’انسانوں کی آبادی کینسر کی طرح پھیل رہی ہے، ماحول کی ناگزیر تباہی کو روکنے کے لیے اگر انسانی آبادی کے بڑے حصے کو بھی ختم کرنا پڑے تو یہ مہنگا سودا نہیں ہوگا۔‘‘ یوں تو دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے کئی ادارے اور تنظیمیں مصروف عمل ہیں لیکن ایسے کئی ’’انتہا پسند‘‘ گروپس بھی پائے جاتے ہیں جو اس مقصد کے لیے ’’مسلح مزاحمت‘‘ کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان گروپس کی کارروائیوں کے نتیجے میں کروڑوں ڈالر کے املاک کو نقصان پہنچ چکا ہے اور امریکا کے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کے مطابق یہ ’’ماحول بچاؤ دہشت گرد‘‘ القاعدہ اور دیگر متشدد تنظیموں کے بعد امریکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ان میں سے کئی گروپس پر انسانی آبادی ’’کم‘‘ کرنے کے لیے حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کی منصوبہ بندی کے الزامات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔2004میں ایف بی آئی نے ایسے گروپس کے خلاف ’’آپریشن بیک فائر‘‘ کے نام سے باقاعدہ کارروائی کی تھی جس کے نتیجے میں کئی افراد گرفتار کیے گئے اور غیر قانونی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے باعث انھیں سزائیں بھی دی گئیں۔

انیسویں صدی کے وسط میں امریکا میں کئی مفکرین نے اس بارے میں سوچنا شروع کردیا تھا کہ  صنعتی انقلاب کے بعد کارخانوں اور ملوں کی بڑھتی تعداد سے ماحولیات کئی خطرات کا شکار ہورہی ہے۔ 1864میں جارج پرکنس مارش نامی مصنف کی کتاب "Man and Nature" میں ماحول کے تحفظ کے لیے احساس ذمے داری پر زور دیا گیا اور مستقبل کے بارے میں کئی خدشات ظاہر کیے گئے۔ اس کتاب کے شایع ہونے کے بعد امریکی اشرافیہ کی جانب سے بھی صنعتی انقلاب کے نتیجے میں  ماحولیات کو ہونے والے نقصانات کے بارے میں فکر مندی کا اظہار کیا جانے لگا۔ اس ضمن میں ابتداً کچھ قانون سازی بھی ہوئی، جنگلات کے رقبے میں اضافے اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے بھی بجٹ میں رقوم مختص کی گئیں لیکن دوسری جانب  دھواں اگلتی چمنیوں میں روز افزوں اضافہ ہو رہا تھا اور بڑھتی ہوئی تعمیرات کی وجہ سے بڑی سطح پر جنگلات کی کٹائی بھی جاری تھی۔  اس کے ساتھ ہی ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے افراد تنظیمیوں کی شکل اختیار کررہے تھے۔ پھر ماحولیات سے متعلق نت نئے تصورات ان کی حساسیت میں بھی اضافہ کرتے رہے تھے۔ اس طبقے میں رفتہ رفتہ  نظام قدرت میں ’’انسانی برتری‘‘ کے تصور کی مخالفت شروع ہونے لگی  اور یہ تصور عام ہوا کہ تمام حیوانات اپنے زندہ رہنے کے حق میں انسان ہی کے برابر ہیں اور انسان کو اس بات کا حق حاصل نہیں کہ وہ محض اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ان کا بے دریغ استعمال کرے۔ 

حیاتیات، فلسفے اور زمین کے ’’زندہ‘‘ ہونے جیسے تصورات سے مل کر ماحولیات کا نیا تصور سامنے آیا جسے ’’ڈیپ ایکولوجی‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس تصور کو ناروے سے تعلق رکھنے والے فلسفی آرنے نئیس نے باقاعدہ نظریے کی شکل دی اور بیسویں صدی میں   اسی تصور نے بعد ازاں ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے بہت سے افراد اور گروہوں کو عملی مزاحمت کی راہ دکھائی۔  

ماحولیاتی تحفظ کے لیے انتہا پسندانہ فکر کا آغاز امریکا میں 1970کے اوائل سے ہوا۔ اس حوالے سے "The Monkey Wrench Gang"ابتدائی کتابوں میں شمار ہوتی ہے جس نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے پُر تشدد کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کی۔ یہ کتاب ایریزونا کے علاقے میں رہایشی اسکیم کے خلاف آواز اٹھانے والے اسکول کے طلبا کی حقیقی کہانی سے ماخوذ تھی۔ 1979میں ’’Earth First!‘‘ نامی تنظیم وجود میں آئی۔ یہ تنظیم ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والے پانچ سماجی کارکنوں نے بنائی۔ اسّی کی دہائی میں یہ تنظیم خوب پھولی پھلی اور امریکا سمیت دنیا کے دیگر حصوں میں اس کے بے شمار ہم درد پیدا ہوگئے۔ ایکو ٹریرازم پر ایک برطانوی مصنف ڈیوڈ آر لڈک کی 2006 میں شایع ہونے والی کتاب { "Eco-terrorism : radical environmental and animal liberation" کے مطابق دو دہائیوں میں اس تنظیم کے کارکنان اور ہم دردوں کی تعداد 10ہزار سے تجاوز کر گئی۔ اس کے کارکنان دنیا بھر میں ماحولیات تحفظ کے لیے پُر امن احتجاج اور آگہی مہمات کے علاوہ سول نافرمانی اور املاک پر حملوں کی حکمت عملی بھی اپناتے ہیں۔  اس تنظیم کی ویب سائٹ کے مطابق یہ پُر تشدد  کارروائیوں کی مزمت کرتی ہے ، اس کے زیادہ تر کارکنان ماحولیاتی تحفظ یقینی بنانے کے لیے پُر امن طریقے استعمال کرتے ہیں لیکن بعض ایسے ہیں جو ’’زمین‘‘ کے تحفظ کے لیے مسلح مزاحمت کو برا نہیں جانتے۔ اسی تنظیم کےEMETIC نامی گروپ نے 1987میں ایریزونا کے ایک ریزورٹ کو بجلی فراہم کرنے والی لائنز تباہ کردی تھیں۔ اگلے ہی برس اس گروپ نے جوہری ایندھن کے لیے کان کَنی کی ایک سائٹ کو نشانہ بنایا اور ان کی بجلی معطل کردی۔  1989میں  ایف بی آئی نے اپنے ایک انڈر کورایجنٹ کو اس گروپ میں شامل کروایا، اور اسی کی مدد سے اس گروپ کو ایک تخریبی کارروائی کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا۔ اس گروپ کی گرفتاری کے بعد یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ گروہ ایریزونا، کیلیفورنیا اور کولوراڈو کی ریاستوں میں ایٹمی بجلی گھروں پر حملوں کا  منصوبہ رکھتی تھی۔ 

1992میں ارتھ لبریشن فرنٹ(ای ایل ایف) کے نام سے زیر زمین کام کرنے والے ایک اور گروہ نے جنم لیا۔ برطانیہ میں قائم ہونے والی یہ تنظیم 1996تک جنوبی امریکا میں بھی اپنی سرگرمیوں کا آغاز کرچکی تھی۔ اس تنظیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بھی ارتھ فرسٹ ہی کی ایک شکل ہے۔ 1997میں باقاعدہ کارراوئیاں شروع کرنے والی ای ایل ایف  اب تک اپنے مختلف حملوں میں دس کروڑ امریکی ڈالر مالیت کی املاک تباہ کرچکی ہے۔ اس تنظیم کی ویب سائٹ پر اس کے یہ مقاصد درج ہیں۔’’قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال اور ماحول کو متاثر کرکے منافع کمانے والے منصوبوں کو نشانہ بنانا۔ زمین اور اس پر آباد تمام ذی حیات کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیوں سے متعلق عوام کو آگاہی فراہم کرنا۔ حیوانات، چاہے انسان ہوں غیر انسان، کو کسی بھی قسم کے ماحولیاتی ضرر سے محفوظ بنانے کے لیے ضروری اقدامات کرنا۔‘‘

 1970کے اواخر میں برطانیہ کے ایک شہری رونی لی نے اینمل لبریشن فرنٹ(اے ایل ایف) کے نام سے تنظیم قائم کی۔ یہ تنظیم قائم کرنے سے قبل رونی لی برطانوی جنگلات میں لومڑی کے شکار کے خلاف ایک گروپ چلایا کرتا تھا جسے بعد ازاں ایک تنظیم میں تبدیل کردیا۔ رفتہ رفتہ  اس تنظیم نے اپنے پر پرُزے کئی دیگر مغربی ممالک میں پھیلانا شروع کردیے اور ای ایل ایف سے بھی اس کے روابط قائم ہوگئے۔ بعد ازاں اسے ای ایل ایف کی ’’سسٹر آرگنائزیشن‘‘ بھی کہا جانے لگا۔ ان دونوں ہی تنظیموں کا نہ تو کوئی باقاعدہ لیڈر ہے اور نہ ہی ان کے ہاں رُکن سازی کا کوئی باقاعدہ نظام  ہے۔ مختلف ملکوں میں ان کے چھوٹے چھوٹے سیل کام کرتے ہیں جو ایک یا ایک سے زاید افراد پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ای ایل ایف اپنی ویب سائٹ پر  گاہے بہ گاہے پریس ریلیز جاری کرتی ہے۔ ساتھ ہی یہ تنظیم مختلف نوعیت کا دھماکا خیز مواد تیار کرنے کے طریقے بھی اپنی ویب سائٹ پر دیتی رہی ہے۔ 

1998سے لے کر 2001تک ای ایل ایف نے امریکا میں آٹھ کارروائیاں کیں جن میں بھاری مالی نقصان ہوا۔ ان کارروائیوں میں محکمہ جنگلات کے دفاتر، جینٹکل انجنییرنگ کی تحقیقی لیبارٹریز اور سیاحتی ریزورٹس کو نشانہ بنایا گیا۔ 2002میں پنسلونیا میں ای ایل ایف کے ایک سیل نے محکمہ جنگلات کے ایک ریسرچ سینٹر کو نشانہ بنایا جس میں سات لاکھ امریکی ڈالر کی املاک تباہ ہوئیں۔ 2003میں ای ایل ایف نے سان ڈیاگو میں حکومتی اشتراک سے زیر تعمیر ایک رہایشی منصوبے کو تباہ کردیا جس کے نتیجے میں پچاس کروڑ ڈالرکا مالی نقصان ہوا۔ امریکی ایجنسی ایف بی آئی کے مطابق یہ امریکی تاریخ میں ’’ماحول بچاؤ دہشت گردی‘‘ کی سب سے بڑی کارروائی تھی۔   امریکا میں ایسے گروپس کو ایکو انارکسٹ بھی کہا جاتا ہے۔ ان گروپس نے  1995میں اپنی کارروائیوں میں تیزی سے اضافہ کیا۔ امریکا کے محکمہ جنگلات نے اس دور میں شمال مغربی ریاست اوریگن کے ولمیٹ نیشنل فاریسٹ کے کچھ حصے کو صاف کرنے کی مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم کے خلاف ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والے کئی گروپس نے جنگل کی طرف جانے والے تمام راستے بند کردیے اور 11ماہ تک جنگل کے اندر دھرنا دے کر بیٹھے رہے۔ یہ کارروائی جنگلات کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ایک چھوٹے سے گروپ کی تھی جسے پانچ امریکی نوجوان چلا رہے تھے۔ یہ ایک چھوٹے سے سیل کے طور پر کام کرتے تھے اور چھے سال کے عرصے میں اس میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے انیس نوجوان شامل ہوئے۔ یہ نوجوان خود کو ایے ایل ایف اور ای ایل ایف کا کارکن قرار دیتے تھے۔ یہ افراد اپنے مطالبات کے منظر عام پر لانے کے لیے آتش گیر اور دھماکاٰ خیز مواد استعمال کرتے تھے۔ ان حملوں میں استعمال ہونے والے ’’بم’‘‘ بھی وہ خود ہی بنایا کرتے تھے اور کسی بھی حملے میں صرف آٹھ کارکن ہی شریک ہوتے تھے۔ اس گروپ کی ایک کارکن کو پانچ برس قبل  کینڈا کی ایک عدالت سے سزا  ہوئی ہے۔ 

ای ایل ایف کی اتحادی تنظیم اینمل لبریشن فرنٹ 1976میں برطانیہ میں اپنے قیام کے تین برس کے اندر جنوبی امریکا میں اپنے ہم درد اور کارکن بنانے میں کام یاب ہوگئی۔ 1979میں اس تنظیم نے اپنی پہلی کارروائی میں نیویارک کی ایک تجربہ گاہ سے دو کتوں اور بلیوں کو ’’آزاد‘‘ کروایا۔ اے ایل ایف بھی چھوٹے چھوٹے سیلز میں تقسیم ہو کرکام کرتی ہے، اس کی کوئی مرکزی قیادت نہیں اور ہر سیل اپنی مرضی اور اہلیت کے مطابق کارروائیاں کرتا ہے۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد جانوروں کو ’’انسانی استبداد‘‘ سے ’’آزاد‘‘ کروانا   ہے۔ یہ تحقیق، خوراک، لباس اور تفریح  کے لیے جانوروں کے استعمال کو ان کی حق تلفی اور تذلیل قرار دیتے ہیں۔  لیبارٹریز، مذبح خانے، کھاد کی فیکٹریاں، چڑیا گھر اور سرکس کے جانوروں کی آزادی کے لیے کام کرنے والے ان جنگ جوؤں کے نشانے پر رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فارم ہاوس اور پالتوں جانوروں کی خرید و فروخت کے مراکز پر حملے کرکے یہ وہاں ’’پابند سلاسل‘‘ جانوروں کو آزاد کرواتے ہیں۔ اے ایل ایف پچیس ممالک میں متعدد پُرتشدد کارروائیاں کرچکی ہے۔ نوے کی دہائی میں اس گروپ نے اپنے خلاف ڈاکیومنٹری بنانے والے ایک صحافی کو اغوا کیا اور بعد ازاں محض اس کی قمیض پر اپنے مطالبات لکھ کر رہا کردیا تھا۔ صرف امریکا میں سات بڑی کارروائیاں کرکے اے ایل ایف نے کروڑوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچایا ہے۔ 

ان دو بڑی تنظیمیون کے علاوہ نوے کی دہائی میں کئی اور چھوٹے بڑے گروپس بھی منظر عام پر آئے ہیں جو ماحولیاتی تحفظ کے لیے پرُتشدد طریقوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ان گروپس کی تعداد ایک درجن کے قریب بتائی جاتی ہے اور مختلف اوقات میں یہ چھوٹی موٹی کارروائیاں بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ہونے والی مستقل کارروائیوں نے ای ایل ایف اور اے ایل ایف جیسی بڑی تنظیمیوں کے نیٹ ورک کو بہت کم زور کردیا ہے۔  

اس موضوع پر ماہر تصور کیے جانے والے ڈونلڈ آر لڈکٹ کا کہنا ہے ’’ ای ایل ایف ، اے ایل ایف اور ایسی دیگر تنظیموں کا مستبقل روشن نہیں۔ اگرچہ کچھ ڈرامائی حملے اور املاک کو بھاری نقصان پہنچانے والی کارروائیاں میڈیا کی توجہ حاصل کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کے نظریات سے متاثر ہو کر کچھ مزید شدت پسند گروہ پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن اول تو نئے گروپس ان کے مقابلے میں قدرے اعتدال پسند ہیں۔ رہی بات جانوروں کو تحقیق ، تفریح یا خوراک کے لیے استعمال کرنے کی تو اس میں کوئی بڑی کمی اب کیسے ممکن ہوگی۔ ماحولیات کے حوالے سے مجموعی طور پر انسانوں کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ ہر کوئی قیمتی جانوروں کی کھالیں پہناوے کے طور پر استعمال نہیں کرتا، لیکن بائیومیڈیکل ریسرچ میں جانوروں کے استعمال کو تو نہیں روکا جاسکتا۔ اس لیے کسی بھی مقصد کے لیے جانوروں کا استعمال ختم کرنا، دنیا بھر میں آبادیاں نیست ونابودکرکے ان کی جگہ جنگلات اگا دینا اور ماحولیات کے تحفظ کے نام پر جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو یک سر ختم کردینا ایک فرسودہ خیال اور ناقابل حصول مقصد ہے!‘‘

 

 

بات اتنی سادہ بھی نہیں! 

ایکو ٹیررازم یا ماحولیات دہشت گردی کے بارے میں ایک طبقہ مختلف رائے رکھتا ہے اور ان کے نزدیک ایک ایسی تحریک جس کی گردن پر ایک بھی انسان کا خون نہیں، اسے امریکا کا سب سے بڑا داخلی چیلنج قرار دینے کے اسباب کچھ اور رہیں۔ امریکا میں داخلی دہشت گردی کے تجزیے کے ماہر ڈیرل جونسن کا کہنا ہے کہ سفید فام نسل پرستوں کی کارروائیوں کے باوجود آج بھی ایف بی آئی اگر ماحولیات کے لیے آواز اٹھانے والوں  کو بڑا خطرہ بنا کر پیش کرتی ہے تو اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ ماحولیاتی تحفظ کی بات کرنے والے حکومت کے براہ راست اتحادی یعنی صنعت کاروں کے مفادات کو متاثر کرسکتے ہیں، اسی لیے انھیں دہشت گردی کے ساتھ نتھی کردیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ چوں کہ بڑی کمپنیوں کی جانب سے سفید فام شدت پسندی پرکبھی تشویش ظاہر نہیں کی گئی اس لیے اپنی تمام تر نفرت انگیزی کے باوجود کبھی اسے داخلی سلامتی کے لیے سب سے بڑا چیلنج قرار نہیں دیاگیا۔ جونسن کو خود اس نسلی منافرت کے بڑھتے ہوئے اس خطرے کی نشاندہی کرنے کے جرم میں ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ وہ کہتے ہیں کہ  اگر سفید فام نسل پرستوں کے خلاف بھی اسی انداز میں لابنگ کی جائے اور کانگریس کے اراکین کو ہم خیال بنانے کے لیے حربے اپنائے جائیں جو ماحولیاتی تنظیموں کی مخالفت کے لیے برتے گئے، تبھی بڑھتی ہوئی نسل پرستی کے خلاف شاید کوئی قانون بن جائے۔ 2004میں ورجینیا میں سفید فام نسل پرستوں کے مظاہرے اور ان کے جوابی مظاہرے کے قیادت کرے والے رہنما کے قتل کے بعد یہ امریکی حکام میں سے بعض نے اس خیال کا اظہار کیا  کہ داخلی سطح پر اس نسلی منافرت کو ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔ لیکن محکمہ انصاف اور قانون نافذ کرنے والوں کے پاس انسداد دہشت گردی سے متعلق ایسے اختیارات ہیں جن کا وہ برسوں سے استعمال کرتے آرہے ہیں۔ ان کا زور بھی ماحولیاتی تحفظ کی تنظیموں پر چلتا ہے نسلی منافرت پھیلانے والے ان کے زیر عتاب نہیں آتے۔ تحقیقاتی رپورٹنگ کرنے والی  ایک معروف نیوز ویب سائٹ نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ نو گیارہ کے بعد جن ماحولیاتی کارکنان کو دہشت گرد قراردے کر گرفتار کیا گیا ان میں سے 52پر  انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت الزامات ثابت نہیں ہوسکے۔ 18مقدمات میں استغاثہ نے ان قوانین کے تحت فرد جرم عائد کی جو گوشت کی فروخت سے وابستہ صنعت کی مشاورت سے بنائے گئے تھے اور زیر حراست یہ افراد جانوروں کے حقوق کی تنظیموں سے تعلق رکھتے تھے۔ ایسی کئی دیگر نظائر کی بنیاد پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے آواز اٹھانے والوں کو طاقت ور سرمایہ کاروں کی ایما پر شدت پسند بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور بہت سے ناکردہ گناہ بھی ان کے سر تھوپ دیے جاتے ہیں۔ کیا یہ کہانی کچھ سنی سنی سی محسوس نہیں ہوتی؟