اعتزاز احسن نے تاریخ کی گواہی کو دلیل بنا کر ’’عدل بنا جمہور نہ گا‘‘ پاکستانیوں کو: ریاست ہو گی ماں جیسی ہر شہری سے پیار کرے گی کا خواب دکھایا۔ یہ محض خواب اس لئے بھی نہیں کہ جن مہذب معاشروں میں عد ل قائم ہے وہاں ریاست ماں ایسی ہی ہوتی ہے دور کیوں جائیں 15مارچ 2019ء کو ایک خبتی شخص برینٹین ٹارنٹ مسلمان دشمن جذبات سے بھرا ہوا ،جدید اسلحہ سے لیس کرائسٹ چرچ کی النور مسجد میں داخل ہوتا ہے اور نہتے نماز جمعہ کی ادائیگی میں مصروف مسلمانوں پر فائر کھول دیتا ہے۔ سفاکیت کی انتہا یہ اپنی بہیمانہ کارروائی کی فیس بک پر لائیو سٹریمنگ بھی کرتا ہے۔ اس شخص کے پاگل پن سے 51 بچے ،بزرگ، خواتین شہید اور لگ بھگ اتنے ہی زخمی ہو جاتے ہیں ۔دنیا بھر میں سانحہ کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ مہذب دنیا کا ہر حکمران اس وحشت کی مذمت کرتا ہے۔ برطانیہ کی وزیر اعظم ٹریزامے واقعہ کو کھلی دہشت گردی قرار دیتی ہیں۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسینڈرا اپنے ملک میں اس نوعیت کے پہلے واقعے کو کھلی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے ملزم کو عبرت کا نشان بنانے کا اعلان کرتی ہیں یہ تو وہ سطحی ردعمل تھا جو دنیا بھر سے سامنے آیا۔ مگر نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے اعتزاز احسن کی طرح ریاست ہو گی ماں جیسی ہر شہری سے پیار کرے گی کے فلسفے کو عملی شکل دی۔ متاثرین سے فرداً فرداً ملیں خواتین کو گلے لگایا صرف یہی نہیں نیوزی لینڈ کے عوام جن میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی شامل تھے نہایت منظم انداز میں النور مسجد کے گرد حصار بنا کر کھڑے ہوئے اور مسلمانوں نے اپنے ہم وطنوں کے حصار میں نماز جمعہ ادا کی۔ شہید ہونے والے مسلمانوں کو خراج عقیدت پیش کرنے اور یہ یقین دلانے کے لئے مذہب کی بنیاد پر ریاستیں اپنے ماں جیسے کردار سے اجتناب نہیں برتیں نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں اذان کی صدائیں گونج اٹھتی ہیں۔ یہ ہوتی ہے ماں جیسی ریاست!دوسری طرف اسلام کے نام پر بننے والا ملک پاکستان اور مدینہ کی ریاست بنانے کے دعویدار عمران خان ہیں 3اور چار جنوری کو نامعلوم دہشت گرد مچھ میں ہزارہ برادری کے کارکنوں کو نہایت بے دردی سے شہید کرتے ہیں سفاکیت کی انتہا کہ بے کسوں کے ہاتھ پشت پر باندھ کر ذبح کیا جاتا ہے۔ اطلاع ملنے پر ریاست حرکت میں آتی ہے اور لاشیں لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہیں یہاں غور طلب امر یہ بھی ہے کہ نہ تو مزدور کا قتل پہلی بار ہوا نہ ہی ایک مخصوص طبقہ کے لوگ پہلی بار سفاکیت کا نشانہ بنے تھے۔ متاثرین اپنے پیاروں کی لاشیں لے کر کوئٹہ میں سات روز سے صرف ایک ہی مطالبہ کر رتے رہے کہ وزیر اعظم خود آ کر ان کو انصاف کی فراہمی اور قاتلوں کو نشان عبرت بنانے کی یقین دہانی کروائیں گے تب ہی مظلوم اپنے پیاروں کی تدفین کریں گے۔ وہ عمران خان جنہوں نے کرائسٹ چرچ کے سانحے کے بعد نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کو فون کر کے نہ صرف واقعے کی مذمت کی تھی بلکہ ان کی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی اور دل جوئی کی تحسین بھی کی تھی ان کے اپنے ہم وطن بے گور لاشے سڑکوں پر رکھ کر انصاف کی دہائی رہے تھے مگر ریاست مدینہ کے دعویدار اس بات پر بضد کہ ان کے ملک میں اس قسم کی بربریت تو آئے روز کا معمول ہے وہ کس کس کو پرسہ دینے جائیں گے۔ دبائو بڑھتا ہے تو پہلے ٹویٹ کیا کہ متاثرین اپنے پیاروں کی تدفین کر دیں وہ فوراً ان کے گھر تعزیت کے لئے پہنچ جائیں گے، ٹویٹ کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ ایک تقریب میں نہایت بے باکی سے ’’ آپ ملک کے وزیر اعظم کو بلیک میل نہیں کر سکتے ‘‘کا بیان داغ دیا۔ اس سے مفر نہیں کہ ہزارہ برادری کے مزدوروں کا قتل اور پھر لاشوں کو چھ روز تک سڑکوں پر رکھ کر تدفین کو وزیر اعظم کی آمد سے مشروط کرنا پاکستان کے دشمنوں کی سازش ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے ملک دشمن وزیر اعظم کو ہجوم میں کھینچ لانا چاہتے ہوں اور مقصدپاکستان کو کسی بڑے سانحے کا شکار کر کے عدم استحکام اور تباہی سے دوچار کرنا ہو۔ ممکن ہے خفیہ اداروں نے وزیر اعظم کی جان کو خطرے کا الرٹ بھی جاری کیا ہو مگر قتل کی دھمکی تو جسینڈرا کو شہید مسلمانوں کے ورثاء کو گلے لگانے پر بھی ملی تھی ۔ کیا جسینڈرا دھمکی سے خوف زدہ ہوئیں؟ریاست اگر ہر شہری کی ماں ہوتی ہے تو کیا وزیر اعظم کا فرض باپ جیسا نہیں ہوتا ؟ تاریخ میں کوئی ایک مثال ملتی ہے کہ کسی باپ نے موت کے خوف سے اپنے بچوں کو قبروں میں اتارنے سے انکار کیا ہو؟ چلیں مان لیتے ہیں کہ پاکستان ابھی ریاست مدینہ نہیں بن سکا ، ہمارے ادارے بھی ترقی یافتہ ممالک ایسی جدید ٹیکنالوجی سے لیس نہیں مگر مرنے والوں کے ساتھ تعزیت کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں اگر واقعہ میں کسی سازش کا شبہ بھی تھا تو کیا یہ مناسب تھا کہ وزیر اعظم مظلوموں کو چیلنج کریں۔ انسانوں کو ریاست کا سب سے قیمتی اثاثے کہنے والے وزیراعظم کے لئے کیا یہ مناسب نہ تھا کہ وہ بلیک میلنگ کا طعنہ دینے کے بجائے پاکستانیوں کو ممکنہ سازش کے بارے میں بتاتے۔ مظلوموں کو متوقع خطرے سے آگاہ کرتے اور ان سے وطن کے لئے صبراور قربانی کی التجا کرتے۔ ان کے جائز مطالبات تسلیم کئے جاتے جو مطالبات غیر ملکی سازش اور ملک کو انارکی میں دھکیلنے کی سازش ہو سکتے تھے انکے بارے میں مظلوموں کو اعتماد میں لیا جاتا، 11مقتولین میں سے سات کی لاشیں افغانستان کے حوالے کرنے کی افغان حکومت کی دو بار درخواست کے بارے میں عوام کو آگاہ اور سانحے میں غیر ملکی سازش کے بارے میں لوگوں کوخبردار کیا جاتا مگر افسوس ایسا نہ ہوا ۔الٹا وزیر اعظم اور ان کے حواری جس ڈھٹائی سے اپنے غیر دانشمندانہ اور غیر منصفانہ رویہ کا دفاع کر تے رہے اس نے کرپشن میں لت پت اپوزیشن کو عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کا مواقع دیا۔ رہے متاثرین تو ان حالات میں مظلوم تو رئوف خیرکی طرح دھائی دیں گے: ہم آپ اپنا گریبان چاک کرتے ہیں ہمارا بس ہی تو سرکار پر نہیں چلتا