خالق ارض و سماء مالک رب ذوالجلال نے اس کائنات کو ایک لطیف ضابطے اور حکمت کے تحت وجود بخشا ہے ۔نظام رنگ و بو کو چلانے کے لیے دن اور رات بنائے ۔ دن اور راتوں کے تغیر و تبدل سے ہفتے بنائے اوراس طرح وہ ہفتے مہینوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔یوں کل بارہ ماہ کی تکمیل پر ایک سال مکمل ہوتا ہے ۔اسی بات کو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا ’’ بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اس کی کتاب میں بارہ مہینے ہے جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا چار ان میں سے حرمت والے ہیں‘‘ (التوبہ:36) اسلامی سال کا آغاز ماہ محرم الحرام سے ہوتا ہے اور اختتام ماہ ذوالحجہ پر ہوتا ہے ۔ماہ ربیع الثانی اسلامی سال کا چوتھا مہینہ ہے ۔ربیع میں ’’رَ‘‘ مفتوح (زبر کے ساتھ) ’’بِ‘‘ مکسور (زیر کے ساتھ) اور ’’ع‘‘ ساکن ہے ۔ربیع کی جمع اربعائ،ارباع آتی ہے (کتاب الازمنہ والامکنہ ،ص205)ربیع کا معنی ہے موسم بہار یعنی سردی و گرمی کا درمیان والا موسم اسی طرح موسم بہار کی بارش کو بھی ربیع کہتے ہیں۔(القامو س الوحید ج۱،ص593) صاحب فیروز اللغات ربیع کا معنی ’’موسم بہار‘‘ لکھتے ہیں ۔(فیروزاللغات اردو: 703)مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر نعیمی میں لفظ ربیع کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ ربیع کا معنی ہے ’’ بہار،اول کے معنی ہیں پہلی جس وقت مہینوں کے نام رکھے گئے تب ان دو مہینوں میں بہار کا موسم تھااس لیے انہیں ربیع کہا گیا‘‘(تفسیر نعیمی،ج 10 ص 275) اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں ربیع الثانی کے بارے میں ہے کہ ’’ اسلامی تقویم کا چوتھا مہینہ یہ نام انجیل کے سریانی ترجمے میں لفظ ملقوش (تاخیر سے ہونے والی بارش)کا مرادف ہے ربیع کا اصلی مفہوم ہے وہ موسم جس میں بارش کے سبب سے زمین سبزے سے ڈھک جاتی ہے ‘‘(اردو دائرہ معارف اسلامیہ ج10ص183) ربیع الثانی کی وجہ شہرت: ماہ ربیع الثانی کی وجہ شہرت سیدنا غوث الثقلین الشیخ محی الدین ابو محمد عبدالقادر الحسنی و الحسینی الجیلانی المعروف پیرانِ پیر،غوث اعظم دستگیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا وصال مبارک ہے ۔آپ کے تذکرہ نگاروں میں سے بعض نے نویں، بعض نے سترہویں اور بعض نے گیارہویں ربیع الآخر کو وصال شریف بتایا ہے ۔ محقق علی الاطلاق عطائے مصطفی فی الہندشیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں: ’’وَقَدِ اشْتَہَرَ فِیْ دِیَارِ نَا ہٰذَا الْیَوْمُ الْحَادِیْ عَشَرَ وَہُوَ الْمُتَعَارِفُ عِنْدَ مَشَائِخِنَا مِنْ اَہْلِ الْہِنْدِ مِنْ اَوْلَادِہٖ‘‘ ’’ ہمارے ملک میں آج کل آپ کی تاریخ وصال، گیارہویں تاریخ کو مشہور ہے اور ہمارے ہندوستان کے مشائخ اور ان کی اولاد کے نزدیک یہی متعارف و مشہور ہے ‘‘(ماثبت من السنّۃ فی ایّام السنۃ، صفحہ 167)سال بھر اس تاریخ کو لوگ سرکارِ غوثیت کا عرس مبارک کرتے ہیں جس کو بڑی گیارہویں کہا جاتا ہے ۔ اور اسی مناسبت سے اس 5ہ کو ’’گیارہویں شریف‘‘ کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ربیع الثانی اور روزے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر و حضر میں ایام بیض کے روزے کبھی ترک نہ فرماتے ۔(سنن نسائی:5432) ہر ماہ ایام ِبیض یعنی قمری مہینہ کی تیرہ، چودہ،اور پندرہ تاریخ میں روزے رکھنا تمام عمر روزے رکھنے کے برابر شمار کیا جاتا ہے (مشکوۃ، کتاب الصوم)اس ماہ مبارکہ میں بھی عبادت وریاضت،شب بیداری و روزہ رکھنا صالحین کامعمول ہے ۔ ربیع الثانی کے نوافل و عبادات اس ماہ مقدس میں صالحین ،بزرگان دین او ر پاکانِ امت سے جو عبادات منقول ہیں ان میں درج ذیل نوافل معروف ہیں۔ چار رکعت نوافل: اس مہینہ کی پہلی اور پندرہویں اور انتیسویں تاریخوں میں جو کوئی چار رکعت نفل پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد ’’قُل ہُوَ اللّٰہُ اَحَد‘‘ پانچ پانچ مرتبہ پڑھے ۔ تو اس کے لیے ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اور ہزار گناہ معاف ہوتے ہیں اور اس کے لیے چار حوریں پیدا ہوتی ہیں۔( ’’فضائل الایام والشہور‘‘ صفحہ 573 بحوالہ ’’جواہر غیبی‘‘)تیسری شب کے نوافل: ربیع الثانی کے مہینے کی تیسری شب کو چار رکعت نماز ادا کرے ، قرآن حکیم میں سے جو کچھ یاد ہے پڑھے ۔ سلام کے بعد ’’یَا بَدِیْعُ‘‘ بکثرت پڑھے ( ’’لطائف اشرفی‘‘ ج2،ص 143۔) پندرہویں شب کے نوافل: اس ماہ کی پندرہ کو چاشت کے بعد چودہ رکعتیں دو، دو رکعات ادا کرے ۔ اس نماز کی ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ علق سات بار پڑھے ۔(المرجع السابق) اللہ تبارک وتعالی ہم مسلمانوں کو بزرگان دین کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور ان کے ایام عقیدت و احترام سے منانے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین