اس نگوڑی سیاست کا کیاکریں جو کساد بازاری کا بوجھ اسی طبقے پر لاد رہی ہے جسے خود سہارے کی ضرورت ہے؟ ایک چھوٹے سے طبقے کے مفادات کا تحفظ ہو رہا ہے۔اکثریتی آبادی کو حالات کی بے رحم موجوں کے حوالے کردیا گیا ہے۔ یوں نہ تو یہ سیاست معاشرتی امن قائم کرنے میں ممدو معاون ہے۔ اس وقت سردست مسئلہ مہنگائی ہے۔ کیوں؟ عوام کو تو نہیں نا پتہ کہ کتنے بیسیوں سو بنتے ہیں۔ انہیں تو یہ پتہ ہے کہ دالیں، گھی ، گوشت، گندم،چاول اور چنا ان کی قوت خرید سے کوسوں دور جاچکے ہیں۔۔ بقیہ آدھی آبادی میں سے پانچ فیصد کے پاس ذرائع پیداوار بھی ہیں اور صنعت و تجارت پر انہیں کا تصرف ہے۔ یہی لوگ ایوان اقتدار کے جھولے بھی جھولتے ہیں۔ ریاست کے اعلی ترین عہدے بھی انہیں کے پاس ہیں۔ معیشت مٹھی میں ہے تو سیاست پر بھی یہی قابض ہیں۔ جمہوریت، ایک اعزاز ہے ، اور مہنگا کام۔ تاحال اشرافیہ کے لیے مخصوص ہے۔ دیکھیں نا کہ کیسے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات وقت پر ہوتے ہیں لیکن مقامی حکومتوں کے انتخابات میں مسلسل روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔بنیادی حقوق کی فراہمی،آزاد عدلیہ ،مقامی حکومتوں اور آزاد علاقائی تجارت کے بغیر اس کے فوائد عام آدمی تک نہیں پہنچ سکتے۔ ایک معاشی طور پر غیر متوازن معاشرے میں عدل نہیں بلکہ طاقت کا توازن سیاست کا نقطہ محور ہوتا ہے۔ پارلیمان بالادست ،صوبے (مالی، انتظامی اور سیاسی طور پر) خود مختار اور سیاسی تبدیلی کا راستہ انتخابات۔ یہ ہے اٹھارویں ترمیم کالب لباب۔ بنیادی حقوق اور قانو ن کی بالا دستی کی ضمانت تاہم آزاد عدلیہ کو دینی ہوتی ہے۔ آئین سازوں نے جہاں صوبوں کو خود مختاری دی وہاں انہیں اس امرکاپابند بنایا کہ وہ اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کا انتظام کریں گے تاکہ وسائل کی مساوی تقسیم کو یقینی بنایا جاسکے۔ پنجاب اور سندھ، جہاں آبادی کی اکثریت ہے وہاں پر یہ نظام مفلوج ہے اور انتخابات میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔ بنیادی حقوق کی تو صورتحال یہ ہے پاکستان کی آدھی آبادی تک مناسب خوراک کی تک رسائی مخدوش ہے۔ ان میں آدھے تو واقعی غذائی قلت کا شکار ہوچکے ہیں۔ یعنی نہ وہ اپنی کھیتی باڑی کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی مستقل ذریعہ روزگار ہے۔ دریائوں کی سرزمین میں لوگوں کے پاس پینے کا صاف پانی تک نہیں ہے۔ یوں بھوک اور بیماری دونوں کا بوجھ سر پر ہے۔ ایسے میں یہ کمر توڑ مہنگائی ! دیکھیں نا کہ کیسے نو سیاسی پارٹیاں جو اٹھارویں ترمیم کی خالق ہیں اقتدار میں واپس آئی ہیں۔ نعرہ مہنگائی ختم کرنے کا تھا لیکن ان اشیائے ضرورت پر بھی ٹیکس لگادیا ہے جو اس سے پہلے مستشنیٰ تھیں۔ بجلی اور تیل کی قیمتیں بڑھیں تو نہ صرف مہنگائی سونامی کی شکل اختیار کر گئی ہے بلکہ موسمی تبدیلی کی زد میں آئی زراعت بھی جان بلب ہوگئی ہے کہ اسکی پیداواریت کا انحصار مکینکی ذرائع پر ہے۔ چھوٹے اور متوسط کسان غربت کی لکیر کے نیچے دھکیل دیے گئے ہیں۔ نہری پانی یا تو وسطی پنجاب لیتا ہے یا پھر سندھ، جہاں نقد آور فصلیں ، چاول اور گندم کاشت ہوتی ہیں۔ جہاں دالیں ، چنا ، روغنی بیج ہوسکتے ہیں ، وہاں پانی ہی نہیں ہے۔برطانوی ہند کے ترقیاتی نظریے کو ایک بدعت کے طور پر اپنایا گیا ہے۔ دریاوں پر بند باندھ کر اور وہاںسے نکالی گئی نہروں سے صحراوں کو گلستان کرنے کے چکر میں پانی کے وسائل بھی صحیح استعمال نہیں ہورہے بلکہ ماحولیاتی نظام میں ہوئے بگاڑ نے ملک کی اکثریتی آبادی کو بھی بھوک اور بیماری کے چنگل میں پھنسا دیاہے۔ یہی دریا تجارتی گزرگاہیں بھی تھیں اور دالوں روغنی بیجوں اور دودھ وگوشت (لحمیات) کی فراوانی کے ذمہ دار بھی۔ سمجھنے والی بات ہے کہ زراعت میں بائیس کروڑ لوگوں کی بھوک مٹانے کی سکت نہیں رہی تو تجارتی خسارے پر قابو پانے میں کیا کردار ادا کرسکتی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کرکے الٹا اشیا خوردونوش مہنگی کردی گئی ہیں۔ علاقائی تجارت سے اگر کوئی فائدے کی توقع ہوسکتی ہے کہ سستا خام مال اور اشیائے صرف کی سپلائی ممکن ہوتی ہے تو صورتحال یہ ہے کہ ہمارا ایک ہمسایہ تو افغانستان ہے دوسرا بھارت۔ چین سے تجارت کریں گے تو اسکے مال کی کھپت تو بہت ہے لیکن ہم اسے کیا بیچیں۔ پچانے فیصد پانی زراعت پر لگ رہا ہے لیکن نتیجہ یہ ہے کہ بہت عرصے تک اس شعبے کی افزائش کی شرح آبادی میں اضافے کی شرح سے بھی کم رہی ہے۔ اس شعبے کو نہ ہی تو ریسرچ کی سپورٹ ہے اور نہ ہی سستے اور موسمیاتی تغیر کا مقابلہ کرنے والے بیج میسر ہیں۔ دوسری طرف زراعت مچھلی، لائیو سٹاک، دالوں اور خوردنی تیل کی قیمت پر ، پچانوے فیصد پانی کے وسائل استعمال کر رہی ہے۔پاکستان کے پاس قدرتی وسائل میں ہے ہی زرخیز مٹی اور مون سون اور گلیشئرز سے حاصل ہونیوالا پانی، ان وسائل کے دانشمندانہ استعمال سے ہی پائیدار ترقی کا راستہ نکالنا پڑے گا۔ غذائی خود کفالت کا مطلب ہر گز نہیں کہ صرف گندم اگانے پر زور ہو بلکہ جنگلات، دالیں، مچھلی اور لائیوسٹاک پر توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ تب ہوگا جب صنعت توانائی کے متبادل ذرائع پر منتقل ہو، گندم اور دالیں سیلابی علاقوں میں ہی کاشت ہوں، ان فصلوں کو پانی کی ضرورت پڑے تو زیر زمین ذخائر استعمال ہوسکیں۔ تھل اور چولستان میں کاشتکاری پر پابندی ہو ، نہریں زمین کی سطح پر بہائی جائیں اور انکا پانی صرف لائیوسٹاک اور جنگلات کو ہی میسر ہو۔ وفاق کچھ بھی کرے لیکن توانائی اور اشیائے خوردونوش کو درآمدی اور دیگر ٹیکسوں سے مبرا رکھے۔ روپے کی قدر میں استحکام قیمتوں کو مستحکم رکھے گا۔ جہاں تک مہنگائی پر قابو پانے کے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تو اس معاملے کو صوبائی سطح پر نمٹانے کی ضرورت ہے کہ فصلوں کے لیے علاقے مخصوص کرنے، نہری پانی کا استعمال اور بیجوں، کھاد کی سپلائی وہی بہتر طور پر کرسکتے ہیں۔ مہنگائی کی ایک وجہ ضلعی انتظامیہ کی غفلت بھی ہے جو ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کا ہاتھ روکنے میں ناکام ہورہی ہے۔ جتنی زراعت ہے وہ مشکل سے مقامی ضروریات ہی پورا کرسکتی ہے۔ بہتر ہے کہ خود مختار مقامی حکومتیں بنائی جائیں اور انہیں تعلیم، صحت اور غذائی تحفظ یقینی بنانے کا پابند بنایا جائے۔