قتل کردو، مار دو، اس لیے کہ تم نااہل یہی کچھ کرسکتے ہو۔ ایک ایک پارک کو ختم کرو، سیرگاہوںکے گلے گھونٹ دو۔ باغوں کو اجاڑ دو، جنگل کاٹ دو، درختوں پر آرے کلہاڑے چلائو۔ اس لیے کہ اس کے علاوہ تم کچھ کرنہیں سکتے۔ تم نااہل ہو، راشی ہو، تم ترقیاتی ادارے نہیں، تم بدانتظامی کی سڑاند ہو۔ تمہارے دہانوں سے نالائقی کے بھبکے اٹھ رہے ہیں۔ تم سراپا تعفن ہو، تم تعمیر نہیں کرسکتے جو پہلے سے تعمیر شدہ ہو اسے منہدم کردو۔ سینکڑوں ہزاروں کی افرادی قوت کے باوجود تم نے دارالحکومت کو غلاظت کا گڑھ بنا دیا۔ رشوت تمہارا طرۂ امتیاز ہے۔ اقرباپروری تمہاری شناخت ہے، تمہاری یونین عوام کی دشمن ہے۔ تم اس یونین کے آلہ کار ہو، تم خود عوام سے لاتعلق ہو۔ یونین تمہاری آلہ کار ہے۔ تم نے گرین ایریا کاٹ کاٹ کر پلاٹوں میں بدل دیا اور اب تم اس پارک کوقتل کرنا چاہتے ہو جو پچاس سال سے دکھ بھرے شہریوں کی پنا گاہ بنا ہوا تھا۔ یہ 1971ء تھا۔ مشرقی پاکستان کٹ کر الگ ہو چکا تھا۔ بھارت اپنے نوکیلے دانت نکالے، خونی پنجے لہراتے، دندناتا پھر رہا تھا۔ اس لیے کہ ایک بڑی طاقت سوویت یونین کا رکھیل بنا ہوا تھا۔ سوویت یونین ویٹو کا تیز پھل والا چاقو، ہاتھ میں پکڑے اقوام متحدہ میں ہر اس قرارداد کو کاٹ کر رکھ دیتا تھا جو پاکستان کے حق میں ہو۔ ایسے میں ارجنٹائن نے پاکستان کی بھرپور مدد کی۔ ارجنٹینا کے پاس سکیورٹی کونسل کی صدارت تھی۔ اس نے سوویت یونین کے ارادوں کے آگے بند باندھ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹووزیراعظم ہوئے تو انہیں یہ احسان یاد تھا۔ احسان مندی کے جذبے کوبروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے دارالحکومت کے وسط میں واقع اس پارک کو ارجنٹینا پارک کے نام سے موسوم کردیا۔ گزشتہ پچاس برس سے یہ پارک ارجنٹینا اور پاکستان کی دوستی کا نشان ہے۔ بقول فیض ؎ بساط رقص پہ صد شرق و غرب سے سرشام چمک رہا ہے تری دوستی کا ماہ تمام اس پارک کو خوبصورت بنانے میں ارجنٹینا کے ہر سفیر نے دلچسپی لی، تقریبات کیں، درخت لگائے، وہ درخت بھی جو مقامی ہیں۔ وہ بھی جو ارجنٹائن کے ہیں۔ دارالحکومت کے شہریوں کے لیے یہ پارک ایک محبت کرنے والی ماں سے کم نہیں۔ یہ انہیں اس وقت اپنی آغوش میں سمیٹ لیتا ہے جب وہ تھکن سے چور ہوتے ہیں اور پریشانیوں میں محصور ہوتے ہیں، بچے یہاں کھیلتے ہیں۔ بڑے سرما میں دھوپ سینکتے ہیں، گرما میں ٹھنڈک پاتے ہیں۔ بچھاتا ہوں سنہری دھوپ سرما میں زمیں پر کڑکتی دوپہر میں سر پہ بادل تانتا ہوں مانا یہ پارک ارجنٹینا کے سفارت خانے کا حصہ ہے نہ ملکیت، مگر اس کا دونوں ملکوں کی باہمی محبت کے ساتھ ایک لازوال رشتہ ہے۔ ارجنٹینا کے ہر سفیر نے اسے اپنا سمجھا، اپنا دل دیا، توجہ دی۔ اسے خوب سے خوب تر بنایا۔ مگر افسوس! حیف! صد حیف! آج ترقیاتی ادارے اور حکومت کی نااہلی، کوتاہ بینی اور سنگدلی کے باعث اس پارک کی زندگی خطرے میں ہے، شدید خطرے میں ہے۔ دارالحکومت بن رہا تھا تو 1960ء کی دہائی میں جہاں سیکرٹریٹ کی عمارتیں کئی کئی منزلہ بنائی جا رہی تھیں، شہر کا (اس وقت) واحد ہسپتال احمقانہ منصوبہ بندی کا شکار ہوگیا۔ عقل کے اندھوں نے اس ہسپتال کو چھوٹی سی جگہ پر بنایا اور پرلے درجے کی حماقت یہ کی کہ سنگل سٹوری بنایا۔ آنکھوں پر نالائقی کی پٹی بندھی تھی۔ جانور بھی بھٹ بناتا ہے تو مستقبل کا سوچ کر بناتا ہے۔ چوہا بل بناتا ہے تو مہینوں کی نہیں برسوں کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ چیونٹیاں ایسی پلاننگ کرتی ہیں کہ ترقیاتی اداروں کو ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا چاہیے۔ دارالحکومت پھیلتا گیا۔ نئے سیکٹر بنے۔ مضافات کے مریضوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ اسی کی دہائی میں ایک اور ہسپتال پمز بنا جسے عرف عام میں کمپلیکس کہا جاتا ہے مگر اصل سنگل سٹوری ہسپتال، پولی کلینک پر بوجھ کم نہ ہوا۔ ٹوپی چھوٹی ہو تو عقل مند ٹوپی کو بڑا کرتے ہیں۔ پاکستانی ادارے ایسی صورت حال میں ٹوپی کو اتنا ہی رہنے دیتے ہیں مگر سر کاٹ کر چھوٹا کرتے ہیں۔ ارجنٹینا پارک کی بدبختی کہ ایک منزلہ گنجان پولی کلینک اس کے پڑوس میں واقع تھا۔ نزلہ بر عضو ضعیف۔ حکومت میں بیٹھے شیخ چلیوںاور ترقیاتی ادارے میں متمکن ملا نصرالدینوں نے آنکھیں بند کرکے دماغ میں بھرے بھوسے کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ ’’تاریخ ساز‘‘ فیصلہ کیا کہ ٹوپی چھوٹی ہے تو سر کاٹ دیتے ہیں۔ ارجنٹینا پارک کو ختم کر کے پولی کلینک کی توسیع کردیتے ہیں۔ اس سنگدل احمقانہ فیصلے پر شہر دم بخود رہ گیا۔ فرشتے ہنسے، بادل روئے، دارالحکومت کے درختوں سے ماتم کرتی ہوائیں، چیختی ہوئی نکلیں اور مارگلہ کی چوٹیوں پر پہنچ کر انہوں نے سینے پر دو ہتھڑ مارے۔ کہاں کا ارجنٹینا، کہاں کی دوستی، کہاں کا ذوالفقار علی بھٹو، دنیا ماحولیات کو بہتر کر رہی ہے۔ جنگل محفوظ کئے جا رہے ہیں۔ نئے نئے پارک اور باغ بنائے جا رہے ہیں۔ یہاں پہلے سے موجود پارک کو فائلوں کے خنجر سے ہلاک کیا جارہا ہے۔ 2015ء میں دارالحکومت کے شہری روتے پیٹتے بین کرتے دہائی دیتے عدالت عظمیٰ پہنچے۔ عدالت نے حکم امتناعی جاری کیا۔ بلا ٹل گئی مگر نہیں! حکومت اور حکومت کا گماشتہ ترقیاتی ادارہ دندان آز مسلسل تیز کرتے رہے۔ چھری سان پر رگڑتے رہے۔ پارک کے پیچھے اس بھیڑیے کی طرح دوڑتے رہے جو ہرن کو بھنبھوڑنا چاہتا ہے۔ ماہ رواں کے وسط میں حکم امتناعی ختم کر دیا گیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ پارک کا ایک تہائی حصہ۔ یعنی سر کاٹ کر ہسپتال کو دے دیا جائے گا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ جو محاورہ ہے کہ تو مجھے کھڑا ہونے کی جگہ دے۔ بیٹھنے کی میں خود بنا لوں گا تو یہ ایک تہائی حصہ پارک کا پولی کلینک کو دیا گیا تو مطلب واضح ہے۔ باقی بھی تجاوزات کی نذر ہو جائے گا۔ میمنا کب تک اپنا تحفظ کرے گا۔ وہ ندی کے نشیبی حصے سے پانی پی رہا ہے مگر بھیڑیا اس کی بات سننے ہی کو تیار نہیں۔ وزارت خارجہ چپ ہے، عقل نہیں یا ہوش نہیں کہ آواز بلند کرے۔ ایک دوست ملک کے نام کیا گیا پارک لولا لنگڑا کیا جارہا ہے۔ آئندہ ہمارے لیے کون آواز اٹھائے گا؟ پیپلزپارٹی اپنے عاصموں، ایان علیوں، دامادوں، پھپھیوں کو بچانے کی فکر میں غلطاں ہے۔ اس کے جغادری جو سینٹ میں ہیں، بے نیاز ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جو پارک ارجنٹینا کی نذر کیا تھا، اس کا سر کاٹا جارہا ہے۔ مائی لارڈ! چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ۔ اس قتل ناحق کو روکیے، فریاد ہے فریاد! اس سرکاری قبضہ گروپ کو نکیل ڈالیے۔ اس پارک کو بچائیے، آج سر کٹ رہا ہے۔ کل پائوں پر کلہاڑا چلے گا۔ ہسپتال کو گن کلب کی وسیع و عریض زمین سے وافر حصہ مل سکتا ہے۔ پولی کلینک کے کھنڈر کو گرا کر اس پارک کا حصہ بنائیے۔ مائی لارڈ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ! فریاد ہے! فریاد!