کسے خبر تھی کہ لدھیانہ کی تحصیل پھلور کے ایک چھوٹے سے گاؤں تھلہ کے ایک ماتڑ سے کھوکھر راجپوت گھرانے میں پندرہ جون 1927ء کو ہیرے خاں کے چھوٹے بیٹے اور لبھو خاں کے چھوٹے بھائی منشی خاں کے ہاں پہلوٹی کے بیٹے کے طور پر جنم لینے والاشیر محمد بکریاں چراتا، تھلہ، اپرہ اور لدھیانہ کے معمولی معمولی سکولوں میں دھکے کھاتا، چھوٹی موٹی ملازمتوں سے زندگی کرنے کی سبیل ڈھونڈتا، ایک دن اُردو مزاح کے آنگن، اداس شاعری کے آسمان اور ادبی صحافت کے ماتھے پہ ابنِ انشا بن کے چمکے گا۔مَیں نے کسی زمانے میں ان کی متنوع جہات پہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ ایسا قلم کار ہے کہ نثر لکھنے پہ آئے تو ہنسا ہنسا کے مار دیتا ہے اور شاعری کرنے پہ آئے تو رُلا رُلا کے مار دیتا ہے۔ یقین جانیں مجھے کبھی کبھی زندگی میں جن شاعروں ادیبوں سے نہ مل سکنے کا قلق ہوتا ہے،ان میں ایک منٹو اور دوسرا ابنِ انشا ہے۔ بالخصوص اردو ادب کے بنجارے ابنِ انشا کا بے یقینی اور کسمپرسی کی دھند میں لپٹا دیہاتی پس منظر مجھے ہاتھ پکڑ کے اپنے بچپن میں لے جاتا ہے۔یاد رکھیں آج ہمارے اسی بنجارے قلم کار کی چورانویں سالگرہ ہے۔ سکھوں، ہندوؤں کی اکثریت میں اقلیت کاٹتے اِس رانگھڑخاندان میں تعلیم کا نام و نشان نہیں تھا۔ ان کے والد بھاگتے دوڑتے،وارث شاہ اور میاں محمد بخش کا کلام پڑھتے گاتے،دادا کی نظر بچا کے بھلے وقتوں میں چار جماعتیں پڑھ بیٹھے تھے۔دادا اور باقی خاندان کا خیال تھا کہ پڑھنے لکھنے کے بعد راجپوتی پھُوں پھاں دماغ سے پھُر کر کے اُڑ جاتی ہے لیکن یہ حضرت ہیں کہ تیسری جماعت ہی میں کلاس میں اول آنے کے ساتھ ساتھ اپنا ذاتی رسالہ نکالے بیٹھے ہیں،جس کے مدیر،مصنف کاتب،جلد ساز،تقسیم کار حتیٰ کہ قاری بھی یہ خود تھے۔ نوکری کی تلاش میں گاؤں سے لدھیانہ، لدھیانہ سے بٹھنڈہ اور پھر حمید اختر کے اکسانے پر لاہور پہنچے۔یوں ہم کہہ سکتے کہ وہ لاہور وایا بٹھنڈہ آئے۔ ان کی پہلی شادی والدین کی دھونس،خواہش اور رواج کے عین مطابق نویں جماعت ہی میں ان کی ایک قریبی عزیزہ،عزیزہ بی بی سے ہوگئی لیکن گیارہ سال ساتھ رہنے نیز عبدالستار، محمد انوار اور راحت بانو جیسے بچے جننے کے باوجود وہ حقیقی عزیزہ کے منصب پہ فائز نہ ہو سکی۔ شعر، ادب اور صحافت بھی ساس بہوکے روایتی جھگڑوں کا خاطرخواہ حل تلاش کرنے میں ناکام ٹھہری۔ دوسری شادی بیاسی برس کی عمر میں قدرت اللہ شہاب کی بیوی ڈاکٹر عفت شہاب کے تعاون سے محترمہ شکیلہ بیگم سے ہوئی۔ ان سے دو بیٹے پیدا ہوئے:ایک رومی،دوسرا سعدی۔مزاج میں ایسی رنگا رنگی ہو تو گھر میں رومی اور سعدی ہی پیدا ہوا کرتے ہیں۔ بہت سی دیگر محبتیں دل میں بسائے ہونے کے باوجود بھی یہ شادی ان کی زندگی کے آخری نو سال برقرار رہی اور کوچ نقارہ باج گیا۔ اس بستی کے اک کوچے میں ، اک انشا نام کا دیوانہ اک نار پہ جان کو ہار گیا، مشہور ہے اُس کا افسانہ گورنمنٹ ہائی سکول لدھیانہ سے شیر محمد اصغر کے نام سے شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ایک ماسٹر نے ان کی شکل و شباہت اور موڈ مزاج دیکھ کے’’مایوس عدم آبادی‘‘کے شاعرانہ نام پہ اصرار کیا۔پھر اس میں گاؤں کا ٹچ دینے کے لیے اسے ’مایوس صحرائی‘میں تبدیل کیا۔اُردو اور فارسی کے استاد مولوی برکت علی لائق نے ڈانٹا تو مایوسی کے صحرا سے نکل کے شیر محمد قیصر ہو گئے لیکن تسلی اس وقت ہوئی جب نیم شاعر والد منشی خاں کے نام کی رعایت سے ابنِ انشا ہو گئے۔اس کے بعد مڑ کر نہیں دیکھا،ان کی شاعری کا سفر بچوں اور پھر بچوں کی ماؤں کے لیے لکھی نظموں سے ہوتا ہوا،جلے تو جلاؤ گوری/کل چودھویں کی رات تھی/ چاند کسی کا ہو نہیں سکتا،چاند کسی کا ہوتا ہے،اور… آ ملنے کے،نہ ملنے کے لاکھ بہانے ہوتے ہیں،سے ہوتا ہوا ’انشا جی اٹھو اب کوچ کرو‘ پہ لندن کے ایک ہوٹل میں گیارہ جنوری 1978 ء کو تمام ہو گیا۔ آج تک ہمیشہ ان کے مزاح اور سفرناموں پہ زیادہ بات ہوتی آئی ہے۔ آئیے آج ان کو ان کی شاعری کے چند نمونوں سے ایصالِ ثواب کرتے ہیں۔ سب مایا ہے، سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے/ اس عشق میں ہم نے جو کھویا جو پایا ہے/ جو تم نے کہا ہے،فیض نے جو فرمایا ہے/سب مایا ہے! یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں تم انشا جی کا نام نہ لو،کیا انشا جی سودائی ہیں؟ پھر ان کی نظم ’’دیوارِ گریہ‘‘ دیکھیے موجودہ عالمی منظرنامے کے حوالے سے کتنی تازہ ہے: ایک دیواِ گریہ بناؤ کہیں/ یا وہ دیوارِ گریہ ہی لاؤ کہیں/ اب جو اس پار بیت المقدس میں ہے/ تاکہ اس سے لپٹ کر/ ان شہیدوں کو یک بار روئیں/ ان کے زخموں کو اشکوں سے دھوئیں/ وہ جو غازہ میں لڑ کر/ وہ جو سینائی کے دشت میں بے اماں/ وحشی دشمن کی توپوں کا ایندھن بنے/ جن پہ گِدھوں کے لشکر جھپٹتے رہے/ وہ جو مرتے رہے،وہ جو کٹتے رہے/ نعرہ تکبیر کا اپنے لب پر لیے/ کلمۂ توحید کو وظیفہ کیے محفل میں اس شخص کے ہوتے ، کیف کہاں سے آتا ہے؟ پیمانے سے آنکھوں میں یا آنکھوں سے پیمانے سے؟ ان کی نظم ’’جب عمر کی نقدی ختم ہوئی‘‘ بھی نہایت گھمبیرہے۔جمیل الدین عالی لکھتے ہیں کہ 1977 میں ابنِ انشا گلے کے سرطان میں مبتلا تھے۔ راولپنڈی کے ایک ہوٹل میں ابنِ انشا کی ایک عقیدت مند خاتون ان سے ملنے آئی۔ اسے سرطان کی بابت معلوم ہوا تو کہنے لگی: مَیں اپنی عمر کے پانچ برس آپ کو دیتی ہوں۔ انشا بہت خوش ہوا، وہ چلی گئی تو بہت رویا۔ شام کو یہ نظم مجھے فون پر سنائی، چند مصرعے دیکھیے: اب عمر کی نقدی ختم ہوئی/ اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے/ ہے کوئی جو ساہوکار بنے؟/ ہے کوئی جو دیون ہار بنے؟/ کچھ سال، مہینے، دن لوگو!/ پر سُود بیاج کے بِن لوگو!/ ہاں! اپنی جاں کے خزانے سے/ ہاں! عمر کے توشہ خانے سے/ کیا کوئی بھی ساہوکار نہیں؟/ کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں؟/ جب نام ادھار کا آیا ہے/ کیوں سب نے سر کو جھکایا ہے/ کچھ کام ہمیں نپٹانے ہیں/ جنھیں جاننے والے جانے ہیں/کچھ پیار دلار کے دھندے ہیں/ کچھ جگ کے دوسرے پھندے ہیں/ ہاں سود بیاج بھی دے لیں گے/ ہاں اور خراج بھی دے لیں گے/ … تم کون ہو، تمھارا نام ہے کیا؟/ کیوں اس مجمع میں آئی ہو؟ کیا عمر اپنی کے پانچ برس؟/ تم جاں کی ہتھیلی لائی ہوَ؟/ کیا پاگل ہو؟ سودائی ہو؟ کیا موت سے پہلے مرنا ہے؟/ تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے/ تم سوہنی ہو،من موہنی ہو/ تم جا کر اپنی عمر جیو/ یہ پانچ برس،یہ چار برس/چھن جائیں تو لگیں ہزار برس/سب دوست گئے،سب یار گئے/تھے جتنے ساہوکار گئے/ بس ایک ہی ناری بیٹھی ہے/یہ کون ہے؟ کیا ہے؟ کیسی ہے؟/ ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے/ ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے/ جب مانگیں جیون کی گھڑیاں/ ’’گستاخ اکھیاں کِت جا لڑیاں‘‘