اردو کہاوت ہے کہ مایوسی گناہ ہے مگر یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ لوگ موجودہ حکومت سے مایوس ہو چکے۔ خوشی کا کوئی پیغام نہیں ، لوگ مایوس سے مایوس تر ہوتے جا رہے ہیں ،’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹ دینے والے کبھی حکمرانوں کو حقیقت سے آگاہ نہیں کریں گے ،مگر یہ بتائے بغیر چارہ نہیں کہ لوگ روز بروز مایوس ہو رہے ہیں ، ملک میں تعلیم ، صحت اور روزگار کی صورتحال روز بروز خراب ہو رہی ہے۔ مہنگائی ، کرپشن اور بد امنی میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے ۔تحریک انصاف کے مخالفین کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کو ووٹ دینے والے بھی ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر پوچھتے ہیں کہ کیا اس کا نام تبدیلی ہے؟ ۔ لوگوںکو ابھی تک عمران خان کی وہ تقریریں نہیں بھولیں،جو انہوں نے اقتدار میں آنے سے قبل ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنے کے دوران کی تھیں ۔ لوگ ان تقریروں اور آج کے حالات کو دیکھتے ہیں تو انہیں مایوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اگر ہم وسیب کی طرف آئیں تو وسیب کے لوگ موجودہ حکمرانوں سے سب سے زیادہ مایوس ہیں، میں جو کچھ عرض کر رہا ہوں شاید وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو ان کی جماعت یا حکومتی نمائندے یہ باتیں نہ بتائیں مگر میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر سچ کہہ رہا ہوں کہ 100دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ پورا نہ ہونے پر وسیب کے لوگوں میں مایوسی کے سائے گھنے ہو رہے تھے کہ یکم جولائی کو سب سول سیکرٹریٹ فنکشنل کرنے کا لولی پاپ دے دیا گیا مگر یکم جولائی بھی گزر گئی ، حکمرانوں کا یہ وعدہ بھی نقش برآب ثابت ہوا۔ وسیب کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ان سے بہت بڑا دھوکہ ہوا ہے ۔پہلے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا ڈھونگ رچایا گیا ، اسمبلیوں سے جاگیرداروں نے استعفیٰ دئیے بعد میں ڈرامائی انداز میں جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کو تحریک انصاف میں ضم کر کے وسیب کے لوگوں کو یہ لولی پاپ دیا گیا کہ ہم نے عمران خان سے تحریری وعدہ لے لیا ہے وہ 100دن میں صوبہ بنائیں گے۔ اگر صوبہ نہ بنا تو ہم تحریک انصاف چھوڑ دیں گے مگر صوبے کے نام پر ووٹ لینے والوں نے اپنا وعدہ اس طرح بھلا دیا جیسے جانتے تک ہی نہیں۔ وسیب کے لوگ صوبائی اور مرکزی حکومت سے اس بناء پر بھی مایوس ہیں کہ ابھی تک صوبہ کمیشن تک نہیں بنایا گیا ، لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے صوبہ کمیٹیاں تو بنائی گئیں مگر آج تک کسی ایک کمیٹی کا بھی اجلاس نہیں ہوا۔صرف لولی پاپ مل رہے ہیں ، یہ بات شاید کوئی اور نہ بتائے لیکن میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وسیب کے لوگ اس بات پر ناراض ہیں کہ موجودہ حکومت کے دور میں ڈی جی خان ، راجن پور میں سرائیکی، بلوچ تفریق پیدا کی جا رہی ہے اور اس طرح سابق ریاست بہاولپور میں چوہدری طارق بشیر چیمہ سرائیکی پنجابی تفریق پیدا کررہے ہیں ۔ حکمرانوں سے وسیب کے لوگ اس بناء پر بھی ناراض ہیں کہ وسیب کے لوگوں کو صرف ایک دوسرے سے لڑایا جا رہا ہے اور صوبہ تو کیا سول سیکرٹریٹ کیلئے ابھی تک یہ نہیں بتایا جا رہا کہ وہ کہاں بنے گاملتان ، بہاولپوریالودھراں؟۔ مجوزہ صوبے کا نام اور اس کے حدود و اربعہ کے بارے میں صوبہ کمیشن نے فیصلہ کرنا ہے مگر موجودہ حکومت نے پہلے سے یہ انائونس کر دیا ہے کہ 3ڈویژنوں کا صوبہ ہوگا اور اس کا نام جنوبی پنجاب ہوگا حالانکہ آئینی طور پر یہ کام صوبہ کمیشن کا ہے ، جو نہ بتانے والی بات تھی وہ حکومت نے پہلے بتا دی اور سول سیکرٹریٹ جو کہ آئینی معاملہ نہیں اور جس کا فیصلہ میرٹ ہونا چاہئے اس پر سیاست کی جا رہی ہے اور وسیب کے لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑایا جا رہا ہے۔ وسیب کے لوگ اس صورتحال سے سخت مایوس ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ وسیب کے لوگوں کو مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی طرح دیوار سے نہ لگایا جائے اور ان کو صوبہ دیا جائے کہ وہ الگ ملک نہیں بلکہ صوبہ مانگ رہے ہیں۔ صوبہ کے قیام کے سلسلے میں مختلف سرائیکی جماعتوں کے اجلاس ہو رہے ہیں اور احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سرائیکی تھنکر فورم کے اجلاس جو کہ مسیح اللہ جام پوری کی صدارت میں ہوا میں کہا گیا کہ ہمارے ملک پاکستان کی بقاء اور استحکام کیلئے صوبے کا قیام بہت ضروری ہے ، سرائیکی وسیب کے لوگوں کا علیحدہ صوبہ حق ہے ، وسیب کے لوگ اپنا حق اور پہچان مانگتے ہیں ، آبادی کے لحاظ سے پنجاب کو بہت بڑا صوبہ بنا دیا گیا ہے ۔ 38فیصد آبادی کے تین اور 62فیصد آبادی کا ایک ، یہ بد ترین مذاق ہے ، یہ ایسے ہے جیسے ایک پہیہ ٹریکٹر اور تین پہیے کارسے ، گاڑی کیسے چلے گی ؟ تقسیم کے بعد ہندوستانی پنجاب جو پاکستانی پنجاب کا نصف سے بھی کم ہے کے چار صوبے پنجاب ، ہریانہ ، ہماچل اور دہلی بنے ، یہاں ان حکمرانوںنے مزید صوبے بنانے کی بجائے بہاولپور کو بھی ضم کر لیا جس سے خطرناک حد تک وفاق عدم تعاون کا شکار ہوا ہے ، صوبہ بننے سے وفاق مضبوط اور صوبے متوازن ہوں گے۔ وسیب کے اہل دانش کہتے ہیں قیام پاکستان سے لیکر آج تک سرائیکی وسیب اور سرائیکی عوام کو تعلیم ، اقتصادی ترقی اور معاشی خوشحالی کے عمل میں شامل نہیں کیا گیا ، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اس لیے ہم جغرافیائی ، ثقافتی اور تاریخی بنیاد پر اپنے علیحدہ صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں ، ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان میں تمام صوبوں کی سٹیٹ ری آرگنائزیشن ایکٹ آف 1956ء کے تحت لسانی بنیاد پر تشکیل نو کی گئی ہے۔ اس اصول کے تحت پندراں بیس صوبے اور بنائے گئے وہاں بھی پنجاب کے چار صوبے بنائے گئے ، سرائیکی صوبہ سرائیکی وسیب کے کروڑوں لوگوں کا حق ہے۔ بہت سے لوگ پوچھتے کہ سرائیکی صوبے کا کیا فائدہ؟ ہم کہتے ہیں کہ فائدہ ایک نہیں ہزار ہیں ، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا اپنا علیحدہ صوبہ ، خطے کی شناخت کا ضامن ہوگا، سرائیکی صوبہ بنے گا تو خطے کی ماں بولی کو بھی اس کا حق ملے گا اور اس کی ترتی اور بہتری کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں بنے گا اور صوبہ بننے کے بعد وسیب کا اپنا گورنر، وزیر اعلیٰ ، چیف سیکرٹری ، سپیکر اسمبلی اور وزیر ہوں گے جو اپنے وسیب کی عوام کو جواب دہ ہونگے۔