مغربی دنیا کو اس بات سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیںکہ توہینِ رسالت یا توہینِ مذہب کی ’’وارداتوں‘‘ کا مسلم دنیا پر کیا اثر ہوتا ہے۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ پوری مسلم دنیا ایسی ’’قومی ریاستوں‘‘ کا مجموعہ ہے، جو آئینی اور عملی طور پر جمہوری، سیکولر اور لبرل حکومتیں ہیں۔ ان تمام اسلامی ممالک میںدیکھنے کو تو مسلمان رہتے ہیں، لیکن ان کی بود وباش ، طرزِ تعلیم ، معیارِ قیادت اور معیشت و معاشرت سب کی سب’’ سیکولر‘‘ اور’’ جمہوری‘‘ ہے۔ برونائی سے لے کر مراکش تک جہاں کہیں بھی الیکشن ہوتے ہیں، وہاں وضع قطع سے ہی اگر کوئی شخص مسلمان نظر آتاہو توعوام اسے اپنے لیئے قائد کے طور پر منتخب کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان جیسا ملک کہ واحد ایسی ریاست جو ’’کلمۂ طیبہ‘‘ کے نام پر قائم ہوئی، وہاں کا سیکولر اور لبرل دانشور بھی پوری دنیا کے سامنے سینہ پھلا کر کہتا اور تحریروں میں لکھتا ہے کہ پاکستان میں کبھی شرعی قوانین نافذ نہیں ہو سکتے ،کیونکہ یہاں کاووٹر ہر الیکشن میںنیک، پارسا،تہجد گزار، دیانت دار، اور اسلامی اصولوں پر کاربند امیدواروں کو بری طرح مسترد کرتا ہے اور سیکولر، لبرل، بددیانت، چور، اٹھائی گیر، رسہ گیر، منشیات فروش، ذخیرہ اندوز اور بود و باش سے ’’مغرب زدہ‘‘ نظر آنے والے کو منتخب کرتا ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال مسلمانوں کے آسودہ حال ممالک میں شروع دن سے ہی ایسی بادشاہتیں قائم کی گئیںجن کے اقتدار کو دوام ،امریکہ اور یورپی ممالک کی تھپکی اور عسکری مدد سے ملتا ہے۔یوں دنیا پر ایک ایسی مسلم اُمّہ وجود رکھتی ہے جس میں ملائیشیا، انڈونیشیا، پاکستان، سوڈان اور تیونس جیسی سیکولر، لبرل جمہوری حکومتیں ہیں، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین، کویت اور مسقط جیسی سیکولر، لبرل اور آزاد خیال بادشاہتیں ہیں ، عراق اور افغانستان جیسی امریکی افواج کی سرپرستی میں قائم جمہوریتیں اور ایران اور سعودی عرب جیسی نیم مذہبی، اور مجموعی طور پر نسلی تفاخر پر قائم سلطنتیں ہیں۔اب ایسی مسلم اُمّت سے کونسا مغرب ڈرے گا، قرضوں میں جکڑی ہوئی، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین بینک کی محتاج، عالمی مالیاتی کاغذی کرنسی اور سود ی معیشت میں لتھڑی ہوئی۔ ان کے سربراہوں میں غیرت و حمیت کہاں سے آئے گی، انہیں سید الانبیا ﷺ کی حرمت سے کیا سروکار۔ کارٹون یورپ میںچھپتے ہیں، اسلامی ملکوں کا میڈیا ان کی خبر سے اپنا چورن بیچنے کے لیئے یہاں نشر کرتا ہے، کچھ دن ہنگامے برپا ہوتے ہیں، توڑ پھوڑ ہوتی ہے، گستاخ ملک کے مال کے بائیکاٹ کی مہم چلتی ہے، سفیر کو بلا کر احتجاج ریکارڈ کروایا جاتا ہے اور پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد سب زخم مندمل ہو جاتے ہیں۔ ’’رات گئی، بات گئی‘‘ والا معاملہ ہو جاتا ہے اور سب کچھ نارمل ہو جاتا ہے۔ ایسے خاکے باربارچھپے اور بار بار بس اتنا ہی اور اتنی ہی دیر ’’ردِ عمل‘‘ نظر آیا۔سید الانبیاء ﷺ سے ’’بحیثیت اُمّت‘‘ہماری محبت اور عشق کی اتنی ہی معراج ہے۔مسلمانوں میں سے کسی شخص نے اگر کبھی کسی دوسرے شخص کو ماں، باپ یا بیٹی کی گالی پچاس سال پہلے بھی دی ہو اور وہ شخص اس کی پہنچ سے دور ہو ،وہ کچھ نہ کر سکتا ہو، مگر اس کا سینہ اس دکھ، درد اور کرب سے پچاس سال کھولتا رہے گا۔ وہ کبھی گالی بھولے گا اور نہ ہی دینے والے کی شکل۔ دنیا کو اب تقریباًیقین ہو چلا ہے کہ یہ سب مسلمان ملکوں کے عوام کا وقتی اُبال اور غصہ ہے اور بحیثیت اُمّت ان کا یہ دعویٰ باطل ہے کہ وہ اپنے نبیؐ کو ماں باپ، اولاد، بہن ، بھائیوں اور رشتے داروں سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔ مغرب ان خاکوں کو بنیادی طور پر اپنے اندر آباد مسلمانوں کی غیرت و حمیت اور سید الانبیاء ﷺسے انکی محبت آزمانے کے لیئے شائع کرتا ہے۔ مغرب کو اندازہ ہے کہ یورپ میں آباد پونے تین کروڑ مسلمان ، باقی اُمّت سے مختلف نہیں ہیں، بلکہ یہ تومغرب زدگی اور مفاد پرستی میں تو ان سے بھی آگے ہیں۔ ان کی اکثریت مغربی طرزِ زندگی (Life Style) میں ایسی ڈوب چکی ہے کہ پہچانی نہیں جاتی جو چند ایک مذہب کو سینے سے لگائے ہیںاور اس پر عملدرآمد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، انہیں حکومتیں اور عوام ملک کر آسانی سے دہشت گرد اور شدت پسندٹھہراسکتے ہیں۔ یہ وہ شدت پسند کہلانے والے یورپی مسلمان وہ ہیںجو چنگاری کی طرح سلگتے رہتے ہیں اور کسی بھی دن ان چنگاریوں کی وجہ سے مغرب میں آباد مسلمانوںمیںغیرت و حمیت کی آگ بھڑک سکتی ہے۔ دنیا بھر کی رپورٹیں یورپ کو خوفزدہ کرتی ہیں کہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی ، ایک دن سب کچھ بدل کر رکھ دے گی۔ مانع حمل ادویات اور خاندانی زندگی سے بیزاری گورے کی آبادی زیادہ تر بوڑھوں پر مشتمل ہو چکی ہے۔ یہاں پیدا ہونے اور رہنے والا مسلمان اس معاشرے کی خامیوں، کمزوریوں اور مجبوریوں سے مکمل آشنا ہے۔ ایک جانب مسلمانوں کے خلاف گزشتہ پچاس سالوں سے بڑھتی ہوئی نفرت ہے اوردوسری جانب مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی ۔یہ صورت حال ایک دن ایک بڑا تصادم پیدا کر سکتی ہے۔ تحقیقی ادارے ’’PEW‘‘ کے مطابق دس سال پہلے یورپ میںمسلمان ایک کروڑ پچانوے لاکھ کے قریب تھے، یہ اب دو کروڑ پچہتر لاکھ ہیں اور 2050ء تک نوکروڑ سے زیادہ ہو جائیں گے، جبکہ اس وقت غیر مسلم آبادی اڑتالیس کروڑہو گی۔ ان اڑتالیس کروڑ میں بوڑھوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو گی کہ بحیثیت مجموعی پلہ مسلمانوں کا بھاری ہو گا۔ یورپ کو ایسے کسی مسلمان سے کوئی خوف نہیں جوہم جنس شادی کے لیئے ووٹ دیتا ہو، بغیر شادی کے اپنے پارٹنر کے ساتھ رہتا ہواور سب رنگ ڈھنگ یور پ والے اختیار کرے ۔انہیں چارلی ہیبڈو کے کارٹون بنانے والوں کو قتل کرنے والوں اور چیچن نوجوان جیسے حرمتِ رسول ﷺ پر تن من دھن قربان کرنے والوں کی تلاش ہے۔ یورپ انہیں اور ان سے ہمدردی رکھنے والے یورپی مسلمانوں کو خوفزدہ کرکے اپنے ’’لائف سٹائل‘‘ میں مدغم کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیئے یہ خاکے شائع کیئے جاتے ہیں، حجاب پر پابندی لگائی جاتی ہے، مسجد کے میناروں کی اجازت نہیں ملتی، اذان دینے سے منع کیا جاتا ہے۔ مقصد صرف ایک ہے کہ عبد اللہ، عبد الرحمٰن اور ہیرس، ہارڈی کے درمیان ، صرف ناموں کے اور کوئی فرق باقی نہ رہے۔ یہ سب کچھ یہاںتک نہیں رکے گا۔ پوری اُمّت جس دور میں داخل ہو چکی ہے، اسے ’’آخرالزمان‘‘ اور ’’دورِ فتن‘‘ کہا جاتا ہے۔ عیسائی اور یہودی بھی اس دور میں ہونے والی لڑائی سے باخبر ہیںاور سب اس کے لیئے کمربستہ ہیں۔ یہودیوں کی تیاری سب سے زیادہ ہے۔ عیسائی دنیا میں ’’اینونجلسٹ‘‘ (Evanglist) اور چند ایک دیگر گروہ اس میں تیزی لا رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت انہی گروہوں کی قوت کے اظہار کی علامت ہے۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، صرف یورپ میں آباد مسلمانوں کو رسول اکرم ﷺ کی دی گئی ایک وارننگ پہنچانا مقصود ہے، جوکتاب الفتن کی ایک طویل حدیث میں دی گئی ہے۔ اس حدیث کے مطابق، اس بڑی جنگ کا آخری معرکہ شام کے علاقے حلب کے ساتھ’’ میدانِ ا عماق‘‘میں لڑا جائے گا، جس میں یورپ سے 80جھنڈوں تلے فوج آئے گی اور ہر جھنڈے تلے بارہ ہزار افراد ہوں گے۔ یہ ترکی کو روندتے، قسطنطنیہ کو فتح کرتے ہوئے اعماق کے میدان میں لڑیں گے، شکست کے بعد وہ مسلمانوں سے امان لے لیں گے۔مگر ایک چال سے مسلمانوں میں افواہ پھیلائی جائے گی کہ ان کے پیچھے ملکوں میں دجال نکل آیا ہے۔ وہ اپنے علاقوں میں لوٹیں گے توپتہ چلے گا کہ یہ جھوٹ ہے۔ اس کے بعد حدیث کے الفاظ میں ایک قتلِ عام کا ذکر ہے،فرمایا ’’رومی باقی ماندہ عربوں پر حملہ کر دیں گے، انہیں قتل کریں گے یہاں تک کہ روم کی زمین میں کوئی عربی مرد، نہ عورت اور نہ ہی عربی بچہ باقی رہے گا۔ سب قتل کر دیئے جائیں گے‘‘ (کتاب الفتن: الاعماق و فتح القسطنطنیہ)۔ اس پر مسلمان غضبناک ہو کر لوٹیں گے اور پھر رومیوں کو شکست دے کر فتح یاب ہوں گے اور پھر قسطنطنیہ بھی واپس لیں گے۔ یورپ میں بسنے والوں کو خود بھی اندازہ ہو چکاہو گاکہ اگر یہی نفرت ایک دفعہ جنگ و جدل تک آپہنچی تو پھر وہاںکا حال وہی ہوگاجو سپین میں آباد مسلمانوں کا ہوا تھا۔