پاکستان کی سیاست میں شدت کا رجحان فزوں تر ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان کی معیشت قابو میں نہیں آ رہی۔ڈالر دوسو روپے کی مد پار کر چکا ہے۔پاکستان کی سیاست اس کی معیشت کو ڈبونے کے درپے ہے۔فیصلہ سازی کا عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔کوئی نہیں جانتا کہ حتمی فیصلہ وزیر اعظم شہباز شریف کریں گے یا آصف زرداری۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ پاکستان کا وزیر اعظم فیصلے کے لئے لندن کی طرف دیکھنے پر مجبور ہے۔عمران خان کا غصے میں آنا تو سمجھ میں آتا ہے کہ ان کی حکومت کو چلتا کیا گیا ہے لیکن حکومت میں تازہ داخل ہونے والے بھی بلاوجہ غصے کا شکار نظر آتے ہیں۔محترمہ مریم نواز کی تقریر کا ہر فقرہ زہر میں بجھا نظر آتا ہے۔واحد اپوزیشن پارٹی پی ٹی آئی کے لیڈر کو وہ فتنہ قرار دیتی ہیں اور انہیں نیست و نابود کرنا چاہتی ہیں۔اس کے ساتھ جو ٹی وی چینل ان کے حق میں مہم نہیں چلاتا وہ بھی قابل گردن زدنی ہے۔وہ عوامی جلسے میں عمران خان اور ایک ٹی وی چینل کو فتنہ قرار دے چکی ہیں۔وہ اپنے چچا محترم کو تسلسل سے مشورہ دے رہی ہیں کہ ان حالات میں حکومت جاری نہیں رکھنی چاہیے اور جلد از جلد نئے انتخابات کی طرف جانا چاہیے۔حکومت کے بڑے اتحادی جناب آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن ہر قیمت پر حکومت جاری رکھنا چاہتے ہیں۔وہ وزیر اعظم کو مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ سخت معاشی فیصلے کریں تاکہ ملک کو معاشی بحران سے نکالا جا سکے۔وزیر اعظم گومگو کی کیفیت میں ہیں نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ایک بڑا اور مستحسن فیصلہ البتہ کیا گیا ہے۔38لگژری آئٹمز کی درآمد پر پابندی لگا دی گئی ہے جس سے ایک سال میں6ارب ڈالر کی بچت متوقع ہے۔دیر آید درست آید۔یہ فیصلہ حکومت آنے کے پہلے دن ہونا چاہیے تھا۔پاکستان کی موجودہ معیشت اس عیاشی کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ اربوں ڈالر کا غیر ضروری سامان تعیش درآمد کیا جائے۔بدقسمتی سے پاکستان کی کسی بھی حکومت نے اس سلسلے میں طویل المدتی منصوبے نہیں بنائے۔ورنہ کیا وجہ ہے کہ جو ملک ایٹم بم‘ جنگی طیارے اور میزائل بنا سکتا ہے وہ نہ کار بنا سکتا ہے نہ ٹریکٹر۔اگر ہم ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچتے تو آج ہم نہ صرف اپنی ضروریات پوری کر رہے ہوتے بلکہ دوسرے ممالک کو بھی برآمد کر رہے ہوتے۔کورونا کی وبا کے دوران ہماری وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی نے ذرا سی توجہ دی تو پاکستان وینٹی لیٹر خود بنانے لگا۔اس سے پہلے ہم فیس ماسک بھی دوسرے ملکوں سے درآمد کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ پاکستان کی معاشی حالت اس وقت اتنی تیزی سے خراب ہو رہی ہے کہ پاکستان کی سالمیت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔پاکستان کی قیادت کو اس وقت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دشمن کا اصل ہدف کیا ہے۔اگر ہم اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری مشکلات کا حل آئی ایم ایف اور دیگر ممالک سے قرضہ حاصل کرتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑی بھول ہے۔آئی ایم ایف کی شرائط اور فیٹف کا ڈرامہ دراصل ایک بہت بڑی مصیبت کا پیش خیمہ ہے۔پاکستان کی ایٹمی قوت ساری دنیا کی نظر میں کھٹک رہی ہے۔باقی طریقے ناکام ہونے کے بعد پاکستان کو ایک اقتصادی جال میں پھنسانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ہم خود بھی اس جال میں پھنسنے کے لئے تیار ہیں۔بدقسمتی سے ہم دشمن کی چالوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔جب تک ہم دشمن کے ہدف کو صحیح طرح نہیں سمجھیں گے اور ایک قوم کے طور پر متحد ہو کر اپنا دفاع نہیں کریں گے‘دشمن ہمیں بے وقوف بناتے رہیں گے۔ بہت سے اسلامی ممالک کو جس طرح چن چن کر عبرت کا نشان بنایا گیا۔پاکستان میں دشمن کی خواہش کیوں پوری نہیں ہو سکی پاکستان کی ایٹمی طاقت اور طاقتور فوج نے ہی اب تک پاکستان کو محفوظ رکھا ہے۔یوکرین کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔یوکرین کو جن ممالک نے ایٹمی صلاحیت کی قیمت پر اس کی سالمیت کی ضمانت دی تھی ان میں روس ‘برطانیہ اور امریکہ شامل تھے۔روس نے یوکرین پر حملہ اور امریکہ اور برطانیہ صرف محدود طریقے سے یوکرین کی مدد کر رہے ہیں۔اپنی فوج بھیجنے پر کوئی بھی تیار نہیں ہے۔اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اپنا دفاع خود ہی کرنا پڑتا ہے۔کوئی دوسرا ملک آپ کا دفاع نہیں کرے گا۔اس لئے پاکستان کو ہر قیمت پہ اپنا دفاع ناقابل تسخیر بنانا ہے۔کسی بھی پاکستانی کو سیاست کے چکر میں اپنی فوج کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولنا چاہیے کیونکہ یہی فوج آپ کے دفاع اور سالمیت کی ضامن ہے۔اگر ایک بھی پاکستانی افواج پاکستان کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو دشمن کے دل میں لڈو پھوٹتے ہیں۔ہر پاکستانی دشمن کی چال کو پہچانے اور اپنے ملک کی سالمیت کے لئے سیسہ پلائی دیوار بن جائے۔ سپریم کورٹ کا یہ اقدام قابل تحسین ہے کہ اس نے پاکستان کو حائل اندرونی اور بیرونی خطرات کا نوٹس لیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ پاکستان میں نظام انصاف سے کھلواڑ نہ کیا جائے۔سپریم کورٹ نے قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے اور ہائی پروفائل مقدمات میں تقرر اور تبادلے پر پابندی عائد کر دی ہے۔پچھلے 6ہفتے میں ہونے والی پوسٹنگ اور ٹرانسفر کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا ہے اور ای سی ایل سے نکالے جانے والے ناموں کی تفصیل بھی طلب کی ہے۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے نہ صرف پاکستان میں نظام انصاف کو تقویت ملے گی بلکہ اس اقدام سے پاکستانی عوام کا بھروسہ بھی بڑھے گا۔ سپریم کورٹ نے منحرف اراکین کے بارے میں بھی ایک بڑا فیصلہ دیا ہے جس سے ہارس ٹریڈنگ کا راستہ بند ہو گا اور کسی دشمن ملک کے لئے ہمارے منتخب اداروں کو پیسے کے دور پر ہائی جیک کرنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔اگر وقتی فائدے اور نقصان کو نہ دیکھا جائے تو یہ فیصلہ سب سیاسی جماعتوں کے لئے فائدہ مند ہے۔اگرچہ افواج پاکستان نے اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھنے کا بڑا اچھا فیصلہ کیا ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ سیاست کے اس کھیل کو ملک میں انارکی اور انتشار کی حد تک جانے کی اجازت دیں۔افواج پاکستان کا کردار خصوصی اہمیت اختیار کر لیتا ہے جب بیرونی طاقتوں کے عمل دخل کا بھی احتمال موجود ہو۔افواج پاکستان اور اعلیٰ عدالتوں کو چوکنا رہنا پڑے گا کہ خدانخواستہ حالات اتنے خراب نہ ہو جائیں کہ اس افراتفری میں دشمن اپنا ہدف حاصل کر لے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔