پاکستان میں عاشورہ محرم کا خوش اسلوبی سے گزر جانا بھی ایک خبر ہے۔ ہم نے دہشت گردی کو بہت حد تک شکست دے دی ہے لیکن اس ناسورکی فکر سے آزاد رہنے کی خواہش کرنا اب شائد کسی ملک کے لیے ممکن نہیں۔ قومی سلامتی دنیا بھر میں باقاعدہ ایک سبجیکٹ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ امریکہ تو شائد اپنے بجٹ کا ایک کثیر حصہ قومی سلامتی پر خرچ کرتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملہ امریکی سرزمین کو مستقبل میں ایسے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا گیا تھا۔ یوں بیس سال اور دو ٹرلین ڈالر صرف قومی سلامتی پر خرچ کر ڈالے۔ پچھلے دنوں پاکستان مخالف بیانیہ میں اضافہ کرتے ہوئے بھارت نے کہا تھا کہ یہ اسی کی کوشش ہے جس کے نتیجے میں پاکستان آج بھی فیٹف کی گرے لسٹ میں شامل ہے۔ دوسری طرف افغانستان میں ایسی قوتیںموجود ہیں جو پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔ یہ تمام دشمن تاک میں رہتے ہیں کہ کب پاکستان میں دہشت گردی کا واقعہ ہو اور اسے بدنام کیا جائے۔ اس سازش میں بھارت اس لیے بھی سرگرم رہا کیونکہ اس طرح وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کو پاکستان سے آئی دہشت گردی کے کھاتے میں آسانی سے ڈال دیا کرتا ۔ بہت عرصہ بھارت اور امریکہ کے مغربی اتحادی اپنی اس سازش میں کامیاب رہے لیکن 2014 کے بعد پاکستانی فوج اور ملک کے دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس سازش کی سر کوبی کا فیصلہ کیا۔ عزم کی مضبوطی اور کامیاب حکمت عملی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دشمن نے اب اپنے نشانے پر سکیورٹی فورسز کو رکھا ہوا ہے اسی لیے آئے دن کوئی نہ کوئی فوجی جوان یا اہلکار دہشت گردی کے واقعہ کی نذر ہو جاتا ہے۔ پچھلے چند برسوں سے بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی بہت حد تک کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ مذاہب یا مسالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہونے کی وجہ ایک دوسرے کی مذہبی اقدار یا اہم شخصیات سے متعلق غیر مناسب رویہ اختیار کرنا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ کیسے فرانس میں خاکوں کے ذریعے ناموس رسالت پر حملہ کیا گیا۔ اسی طرح امریکہ میں بھی ایسی ڈاکیومنٹری بنائی گئیں جن کا مقصد اہل بیت کی بے حرمتی کرنا تھا۔ بھارت میں اسلامی اقدار اور عبادت گاہوں کو اس لیے نقصان پہنچایا گیا تاکہ مسلمانوں کو تکلیف پہنچائی جائے۔ مسلمان آپس میں بھی ایک دوسرے کے فرقوں کے خلاف ہرزہ رسائی کرتے رہے۔اس منفی رویئے کی ایک وجہ تو ظاہر ہے برداشت کی کمی تھی مگر ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ مختلف مکاتب فکر کے اکابرین کے درمیان روابط نہ ہونے کے برابر تھے۔ ماضی میں بہت سے منصوبے اور گروپس باہمی روابط کے لیے تشکیل دیے گئے لیکن اس پر سنجیدگی سے کام کبھی بھی نہ ہوا۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی مولانا طاہر اشرفی نے اس سلسلے میں قابلقدر پیش رفت کی ہے۔ اس سے پہلے بھی مولانا طاہر اشرفی نجی پلیٹ فارم پاکستان علما کونسل سے بین المذاہب ہم آہنگی اورانتہا پسندی کے خاتمے کیلئے مصروف عمل رہے ہیں۔ حکومتی سطح پر روابط کا اہتمام بہر حال زیادہ مفید اور فیصلہ کن ثابت ہوتا ہے جس کے ثمرات اب نطر آنا شروع ہو رہے ہیں۔ انتہا پسندی اور مذہبی عدم برداشت کو روکنے کے لیے چار مراحل میںکام کیا جار ہا ہے۔ ایک تو پیغام پاکستان کے ضابطہ اخلاق کو موثر انداز میں عوام تک پہنچانے کیلئے علما کو متحرک کیا گیا۔ دوسری جانب فرقہ وارانہ، متشدد اور مختلف مذاہب کے مقدس مقامات اور شخصیات کی توہین کرنے والے مواد کی تشہیر کے عمل کو روکا گیا۔ تیسرا متحدہ علما بورڈ کے توسط سے چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں رابطہ اور مانیٹرنگ سیل قائم کیے گئے۔ چوتھا ناموس رسالت قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیئے اہم اقدامات اٹھائے گئے۔ اس کی ایک مثال تو رحیم یار خان مندر کیس ہے جہاں مقدمے کا اندراج توہین رسالت کے تحت کرنے کی کوشش کو ناکام بنایا گیا۔ اسی طرح ان تمام پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی گئی جنہوں نے بچے کو گرفتار کیا اور ہندو برادری کو تحفظ دینے میں کوتاہی دکھائی۔ سب سے اہم بات یہ رہی کہ مندر کو فوری طور پر از سر نو تعمیر کیا گیا۔ آئین پاکستان و شریعت ریاست پاکستان کو ملک کے ہر باشندے کو تحفظ فراہم کرنے کا پابند بناتے ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق کی نہ تو شریعت میں گنجائش ہے اور نہ ہی آئین پاکستان اس کی اجازت دیتا ہے۔ ہر مذہب اور مسلک کے لوگ اپنی مرضی کی زندگی گزارنے میں آزاد ہیں ماسوائے ان عناصر کے جو ملک کی سلامتی اور باہمی اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں ہیں۔ مولانا طاہر اشرفی کے مطابق وزیر اعظم پاکستان کی خواہش ہے کہ پاکستان میں ایسا سسٹم بنایا جائے جہاں ہر شخص اپنی زندگی اپنی مذہبی اور مسلکی اقدار کے مطابق گزارنے میں آزاد ہو اور جو ادارہ، فرد طاقت یا سوچ اس طے شدہ ضابطے کی خلاف ورزی کرے اس سے اعلان تعلقی کیا جائے۔ مختصرا کسی بھی شخص کو مذہب کی آڑ میں قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ضروری ہے کہ اس احسن طرز عمل کو قانونی شکل دے کر مستقل بنایا جائے۔ پاکستان علما کونسل کی تجویز بھی یہی ہے کہ پیغام پاکستان کو قانون کی شکل دی جائے۔ اسی طرح قومی ایکشن پلان کی ان تمام شقوں کو متحرک کیا جائے جن پر اب تک کام ہی نہیں ہوا۔ اس وقت وزارت اطلاعات سویلین اور عسکری انٹیلی جنس کے ادارے، سی ٹی ڈی پنجاب، وزارت داخلہ اور قومی سلامتی کونسل مل کر پاکستان کو ایک پر امن معاشرہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن بقول سرسید احمد خان :گورننس دو طرفہ عمل ہوتا ہے عوام کو بھی ملکی استحکام میں حصہ ڈالنا ہوگا، تب ہی پاکستان ایک مستحکم اور ذمہ دار ملک بنے گا۔ ٭٭٭٭٭