ہفتہ کی شام اپنی تقریر میں عمران خان نے آخر وہ اعلان کردیا جس کو ہم انکی سیاست کا آخری پتہ قرار دے سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس اعلان کی توقع بہت دنوں سے کر رہے تھے۔کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ شاید عمران خان یہ اعلان کبھی بھی نہ کریں بلکہ اسکی دھمکی ہی دیتے رہیں گے۔ اب بھی کچھ لوگوں کا خیال ہے عمران خان صوبائی اسمبلی نہیں توڑ سکتے۔ عمران خان نے 23 دسمبر کی تاریخ دی ہے کہ اس دن پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کی درخوست گورنر کو کر دی جائے گی۔اس دن جمعہ کا دن ہے۔ امید ہے 26 دسمبر بروز پیر کو اسمبلی تحلیل ہو جائے۔ مگر یہ اعلان 17 دسمبر کا ہوا ہے اور ابھی 23 دسمبر اور 17 دسمبر کے درمیاں بہت سا وقت ہے۔ اس وقت میں ہونے کو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کا بڑا قوی امکان ہے۔ اگر یہ تحریک پیش ہو گئی تو اس تحریک کے حتمی انجام تک پنجاب اسمبلی ٹوٹ نہیں سکے گی۔اگر یہ تحریک پیش ہوتی ہے تو دو امکانات ہیں ایک تو یہ کہ یہ تحریک کامیاب ہو جائے جس کا امکان کم ہے کیونکہ اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہیں ہوگا اور منحرف اراکین کے بغیر یہ تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ البتہ اس اقدام سے حکومت کو مزید ایک ہفتہ مل سکتا ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ یہ تحریک ناکام ہو جائے اس صورت میں اسمبلی بھی تحلیل ہو جائے گی اور عمران خان سیاسی پوزیشن بھی مزید بہتر ہو جائے گی۔بہت سے سیاسی دانشور حضرات کا خیال ہے حکومت کو یہ تحریک عدم اعتماد نہیں پیش کرنی چاہیے کیونکہ ناکامی کی صورت میں حکومت کی سبکی ہو گی۔کے پی کے میں تحریک عدم اعتماد کا کوئی چکر نہیں ہے۔وہاں پر اسمبلی تحلیل ہو سکتی ہے۔ حکومت کے پاس ایک اور آپشن موجود ہے کہ وہ ان دونوں صوبوں میں گورنر راج لگا دے جوکہ سپریم کورٹ میں چلینج ہو گا وہاں کیا فیصلہ ہوتا ہے اسکے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ابھی دیوار کے پیچھے بہت کچھ ہے جو ہمیں نظر نہیں آرہا۔ اب ہم آتے ہیں اس صورتحال کی جانب اگر اسمبلیاں تحلیل ہو تی ہیں تو کیا منظر نامہ ہوگا۔ پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں ملک کے دو تہائی نمائندے اسمبلیوں سے باہر ہونگے اور اس نظام کا چلنا اخلاقی لحاظ سے ٹھیک نہیں ہو گا۔ خیر پاکستان کے معاملات تو اس وقت بھی چل جاتے ہیں جب ملک کے سو فی صد نمائندے حکومت میں نہیں ہوتے۔ اس وقت ملک میں دو معاملات کا بہت شور ہے ایک الیکشن کب ہونگے اور اسکے لئے حکومت اور عمران خان کونسی حکمت عملی پر عمل کرتے ہیں۔ ایک اور مسئلہ پر بہت شور ہے کہ پاکستان آنے والے ایک دو ہفتوں میں دیوالیہ ہو سکتا ہے۔اسحوالے سے بھی دو آراء ہیں۔ حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستان کو اس وقت دیوالیہ پن کا کوئی خطرہ نہیں ہے حکومت بیلنس آف پے منٹ کو کنٹرول کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ پاکستان کے موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور کئی معاشی ماہر اس بات کو دہرا رہے ہیں کہ پاکستان کو اس وقت ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مگر وہ کیا کہتے ہیں گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل اس بات پر بضد ہیں کہ اگر آئی ایم ایف کی مدد نہ آئی تو پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا۔ اس وقت زر مبادلہ کے ریزرو ملکی تاریخ کی کم از کم سطح پر ہیں۔ اس وقت حکومت نے درآمدات کو روک کہ بہت حد تک کرنٹ اکاونٹ خسارے کو کم کیا ہے۔ ماہ نومبر میں کرنٹ اکاونٹ خسارہ گزشتہ 19 ماہ کی تاریخ میں کم ترین سطح پر ہے۔ماہ نومبر میں یہ خسارہ 276 ملین ڈالر تھا جبکہ گزشتہ سال نومبر 2021ء میں یہ خسارہ ایک اعشایہ بانوے بلین ڈالر تھا۔ جس میں 86 فی صد کمی ہوئی ہے۔اکتوبر 2022ء میں کرنٹ اکاونٹ خسارہ 569 ملین ڈالر تھا۔دوسری طرف اعداد و شمار بڑے پریشان کن ہیں۔دوسرے ملکوں سے ترسیل زر میں 14 فی صد کمی ہوئی ہے اور برآمدات میں 13 فی صد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ پاکستان کا حال اس گھر جیسا ہے جس کی آمدن صفر ہو اور وہ صرف بچت کے چکر میں وقت گزارنے کا جتن کرے۔ درآمدات کو جس طریقے سیفریز کیا گیا ہے اس کی وجہ سے ملک کی معیشت پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔انڈسٹری برے طریقے سے بند ہو رہی ہے۔ اس وقت افراط زر کی جو صورتحال ہے ملک کا سب سے تعلیم یافتہ طبقہ ملک چھوڑ کر جارہا ہے۔ میری کچھ ایسے نوجوانوں سے بات ہوئی جو دس سال پہلے باہر سے تعلیم لیکر آئے تھے اور یہاں وہ اچھی جاب پر تھے اب انکی اکثریت ملک چھوڑ کے جانے کا سوچ رہی ہے ان لوگوں کے بقول پاکستان کے حالات کا پتہ نہیں کہ کیا ہو جائے۔ 2022ء میں سات لاکھ 65 ہزار افراد روزگار کے سلسلہ میں ملک سے گئے ہیں جس میں 92 ہزار اعلی تعلیم یافتہ لوگ ہیں جن میں 5534 انجینئر ،2500 ڈاکٹر اور 2000 کمپیوٹر ایکسپرٹ شامل ہیں - 12000 ایسوسی ایٹ انجینئر،900 ٹیچر اور 6500 اکائونٹنٹ، 2600 زراعت کے ماہر اور 21517 نرسیں ہیں۔ 213000 ڈرائیور بھی نقل مکانی کرنے والوں میں ہیں۔ 2021ء میں باہر جانے والوں کی تعداد 22500 اور 2020 میں 288000 تھی۔ سیاسی عدم استحکام ہمیں سب سے زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے اب اس بات کا واحد حل یہی ہے کہ ملک میں الیکشن ہوں اور نیا منڈیٹ لیکر حکومت آئے اورحالات کو ٹھیک کرے۔ اس وقت یہ حالات ہیں کہ سونے کا ریٹ ایک تولہ کا ایک لاکھ ستر ہزار سے تجاوز کر چکا ہے۔ جب کوئی ملک ت عدم استحام کا شکار ہوتا ہے تو سونے کی قیمت سب سے زیادہ بڑھتی ہے لوگ اب پراپرٹی اور کاروبار کی نسبت سونے اور ڈالر میں زیادہ انوسٹ کر رہے ہیں۔