دکھایا وقت نے شاہوں کو بھی صدا کرتے کسی بھی بات پہ حیراں نہیں ہوا کرتے لہو کے ساتھ رگ و پے میں دوڑنے والے تُہی بتا کہ تجھے کس طرح جدا کرتے ہائے ہائے ایک اور شعر بھی دیکھ لیجیے ہمارا خوف اندھیرا نہیں تھا۔رہبر تھا ہم اپنے ساتھ چراغوں کو لے کے کیا کرتے۔ کیا کیا جائے جناب بات تو قسمت کی ہے کسی کے واسطے اچھی کسی کے حق میں بری۔چلی ہوا تو مرے راستے میں گرد اڑی۔کام کرنے والوں کو ایک پیغام میں ضرور دیتا جائوں گا جنوں ہے شرط ہر اک کام میں اور اس کے بعد اسی خلوص سے قائم رہے جو بے طلبی اور ایک بات اہل نظر اہل ادب کے لئے پھر آگے چلتے ہیں بس ایک عیب سے بچنا ہے یار ہر صورت، جہاں کہ بات برابر لگے کہی نہ کہی۔ کیا کروں سخن مزاج لوگوں کا المیہ ہے زبان شیریں ان کی کمزوری ہوتی ہے۔ زبان کی بات آئی تو مجھے فارسی اور سرائیکی کی مٹھاس دل تک چھو تی ہے۔ آج ویسے ہی میں کسی فطری بہائو میں ہوں۔ ویسے شعر بھی وہی ہے کہ بات سیدھی ظاہر نہ ہو چلیے مثال دیے چلتے ہیں: اس کے لب پر سوال آیا ہے یعنی شیشے میں بال آیا ہے اور پھر یہ کہ اس کے آنے سے سانس آنے لگی وہ ہوا کی مثال آیا ہے ایسا نہیں ہے کہ میں آپ کو کسی خیال کی دنیا میں لے کر جا رہا ہوں یہ سب میں اس لئے کرتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے لئے آپ کو آسودگی نصیب ہو ۔ بندے کو تو اسی جہاں میں رہنا ہے اور اسے کوئی نہ کوئی غم بھی لاحق رہتا ہے کہ غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا یا پھر غالب کے بقول شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک: قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں اب دیکھیے اردو کے ادب کے عظیم شاعر اسد اللہ خان غالب نے بھی وہی بات کی ہے جو عمران خاں نے کی تو لوگ ان کے پیچھے پڑ گئے۔خان صاحب نے بھی تو یہی کہا تھا ناں کہ سکون زمین کے نیچے جا کر ملے گا۔صرف انداز بیاں ہی مختلف ہے بات تو ایک ہی ہے اور بڑے لوگ ایک ہی طرح سوچتے ہیں کبھی کبھی میں غالب کے ذہن رسا کا سوچتا ہوں تو اش اش کر اٹھتا ہوں ذرا شعر تو دیکھیے: ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا تبھی تو انسان ہر لمحے کو شکار کرنا چاہتا نفسیات کے کتنے گوشے آشکار ہوتے ہیں۔ اب چلتے چلتے اسی رو میں ایک نیوز بلیٹن کا تذکرہ ہو جائے جو محتسب اعلیٰ کے دفتر سے جناب ڈاکٹر انعام الحق جاوید مجھے باقاعدگی سے بھیجتے ہیں یقیناً یہ ادارہ اپنی جگہ بہت اچھے کام کر رہا ہے جس کا تذکرہ میں پہلے ہی ایک کالم میں کر چکا ہوں مگر آج تو مجھے ایک کیپشن نے پکڑ لیا کہ جس میں وفاقی محتسب ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ کو پھولوں کا گلدستہ پیش کر رہے ہیں جی ہاںپھولوں کا گلدستہ ہی لکھا ہوا ہے۔ کیا کیا جائے ہمیں اپنے بھائی ڈاکٹر انعام الحق جاوید سے شرمندگی تو ہے کہ محتسب کا احتساب کر رہے ہیں ۔ گلدستہ ہی کافی تھا یہ گل بھی پھول ہی ہے، سودا یاد آ گئے: گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی ہاں ایک بات مجھے اور کہنی ہے کہ یہ بلیٹن جسے خبرنامہ کہیے اس قدر مہنگے پیپر پر چھپا ہوا ہے کہ میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ یہ سراسر اسراف ہے یہ بات دل کی گہرائیوں سے لکھ رہا ہوں کہ یہ قومی خزانے کا بے دریغ استعمال ہے یہ خبرنامہ عام کاغذ پر بھی شائع ہو سکتا ہے تصویروں کا صفحہ الگ لگا لیں۔ہائے ہائے قائد اعظم کہا کہاں یاد آتے ہیں خدا کی قسم وہ عظیم آدمی تھے ان کی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی کتنی بڑی بڑی ہیں قربان جائوں انہوں نے کہا کہ کابینہ کے ممبرز گھر سے چائے پی کر آئے۔ان کا کام اور احسانات گنوائوں تو کالم ختم ہو جائے کتنے پرخلوص لوگ تھے کہ کامن پن کی جگہ بھی کانٹے استعمال کئے ۔میں کوئی تبلیغ نہیں کر رہا آپ یقین کیجیے میں تو جس کمرے سے نکلتا ہوں پہلے لائٹ بند کرتا ہوں کوئی غیر ضروری بلب نہیں جلانا اپنے گھر کے سامنے کچرا پڑا دیکھتا ہوں تواکٹھا کرکے ڈسٹ بن میں پھینک دیتا ہوں۔کہنے کا مطلب ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں انسان کو بڑا بناتی ہیں ادھر جو بھی اٹھتا ہے وہ خود کو قائد اعظم سے کم نہیں سمجھتا۔آئے تو خان صاحب بھی ایسے یہ تھے کہ پہلی تقریر سلوٹوں والی شلوار قمیض پہنی تھی ہم سوچتے تھے کہ سائیکل استعمال ہو گی مگر جہاز کا انتخاب ہوا ۔ یہ جو سچ ہوتا ہے ناں یہ بیج میں چھپے شجر کی طرح ہوتا ہے زمین کی مزاحمت اس بیج کے پھوٹنے کا نتیجہ ہے جسے مٹی میں دبا دیا جاتا ہے ایسے ہی طفیل ہوشیار پوری یاد آ گئے کہ لہک لہک کر یہ شعر پڑھتے تھے: جب کبھی تجھ کو بھولنا چاہا انتقاماً تمہاری یاد آئی اب تو انحتاط اور زوال یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ ہمیں اپنی بات کا یقین خود بھی نہیں ہوتا میرے قائد نے انگریزی میں تقریر کی تو سننے والے دیہاتی نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم انہوں نے کیا کہا مگر یہ یقین ہے کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں یہ ہوتی ہے بدن بولی۔اب تو لوگ ویڈیو بھی حلفیہ طور پر جاری کرتے ہیں میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ اس حلف کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے پہلے تو یہ بتائیے کہ اسمبلی میں یا دوسرے محکموں میں جب آپ حلف اٹھا کر آتے ہیں وہ کیا ہوتا ہے؟ پھر اس کے بعد آئین کی وفاداری سے لے کر خدا کو حاضر ناظر جان کر جو کچھ کہتے ہیں کیا کبھی ایفا بھی کیا؟ یا پھر ایک کارروائی کے سوا کچھ نہیں۔ پہلے لوگ جھوٹ بولتے تھے اور ثابت ہونے پر شرمندہ ہو جاتے تھے اب تو جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں بولتے اور ثابت ہونے کی بھی نوبت بھی نہیں آنے دیتے۔دوسروں کو شرمندہ کرتے ہیں ۔ آخری بات یہی کہ میں تو اپنے اعمال کا سوچتا ہوں کہ واقعتاً ان کی سزا یہی بنتی ہے کہ جو مل رہی ہے ذوق کا ایک شعر: آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا