پاکستان میں اس وقت لاکھوں سیلاب متاثرین شدتِ درد سے نڈھال سسکیاں لیتے ہوئے آنسو بہا رہے ہیں کہ کوئی ان کے درد کا مداوا کرے، کوئی ان کی آہوں کو سمجھے۔ اس شخص کا دل کتنے ہی کرب سے گزرا ہو گا جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچوں، گھر، مویشیوں، فصلوں کو سیلابی پانی میں بہتے ہوا دیکھا ہو گا۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق پاکستان کے کم و بیش 81 اضلاع میں 3 کروڑ 30 لاکھ افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں ، جن میں تقریباً 1 کروڑ 60 لاکھ بچے شامل ہیں۔555 سے زائد بچوں سمیت 1569 افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ 12 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ بدترین سیلاب میں متاثرین کوسہولتوں کی بلاامتیاز اور بلاتعطل فراہمی ریاستی ذمہ داری ہے تاکہ بہتر سے بہتر سہولیات فراہم ہو سکیں اور اس مقصد کیلئے عوامی خدمات فراہم کرنے والے ادارے بھی اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے میدانِ عمل میں درد مندوں کے ہمدرد بنے ہوئے ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں ایسی لاتعداداین جی اوز ہیں جو دکھی انسانیت کی خدمت اور ملکی فلاح و بہبود کیلئے اپنے دائرہ کار میں سر گرم عمل ہیں۔ ماضی کے زلزلے سے لے کرموجودہ سیلاب تک ایسے کئی ادارے یا شخصیات ہیں جو حکومت وقت کا سہارا بنے ہیں۔ فلاحی اداروں کا موجود ہونا ملک و قوم کی ترقی کے لیے راستے ہموار کرتا ہے۔ دکھی انسانیت کی خدمت ہی اصل کام ہے اور ہمارے ملک میں ایسے بہت سارے گمنام ہیروز ہیں جو بغیر کسی لالچ اور تمنا کے فلاحی کاموں میں مصروف عمل ہیں۔ ایسے وقت میں حکومت اور فوج کے بعد ریلیف کے کاموں میں بے شمار این جی اوز اپنی بساط سے بڑھ کر کام کرنے کی کوشش میں ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن مشکل کی اس گھڑی میں جس انداز میں کام کر رہی ہے وہ بلاشبہ قابل تعریف ہے۔ انسانیت کا درد رکھنے والے یہ کارکنان رات کے اندھیرے دیکھ رہے ہیں نہ کیچڑ و سیلابی پانی کی پروا کررہے ہیں۔ الخدمت فاؤندیشن کے جنرل سیکرٹری شاہد اقبال نے بریفنگ دی کہ اب تک متاثرہ علاقوں کے قریب محفوظ مقامات پر 1500 سے زائد خیموں پر مشتمل چھوٹی بڑی 40 خیمہ بستیاں قائم کی گئی ہیں۔ متاثرین کیلئے 28 کچن تیار کیے گئے ہیں جہاں دن میں 2 بار تیار کھانا فراہم کرنا اس ادارے نے اپنے ذمے لیا ہوا ہے۔ 7 موبائل واٹر فلٹریشن پلانٹس کے ذریعے پینے کیلئے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے علاوہ 585 میڈیکل کیمپس بھی قائم کیے گئے ہیں ۔ رہائش، خوراک اورصحت جیسی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کے متوازی قوم کے معماروں کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہونے کے خدشے سے 17 خیمہ اسکول بھی قائم کیے جہاں وہ اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جس معاشرے میں کمزوروں کو سہارا دینے، گرتے کو تھامنے اور زندگی کی تلخ گھڑیوں میں معاشرے کا حوصلہ بڑھانے کا رواج ہو وہی معاشرہ قائم رہ سکتا ہے۔(میاں شاویز معظم،لاہور)