23 سے 24 سال کی عمر میں ایک نوجوان اپنی تعلیم مکمل کرکے عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے، تویک دم حیرت اور بے یقینی کے کئی مناظر ،یہ دنیا اسے دکھانا شروع کرتی ہے۔ وہ عملی اورعلمی زندگی ، دونوں کو یکسر مختلف پاتا ہے۔ اُسے ہر جانب ایک عجیب سی دوڑ دکھائی دیتی ہے۔ یہ دوڑ پچھلی دوڑ سے بہت مختلف ہوتی ہے، کیوں کہ اب کے بار مقابلہ زیادہ نمبر لینے کا نہیں، بلکہ اِس معاشرہ میں اپنی جگہ بنانے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا ہوتا ہے۔ پھر معاشرہ بھی ایسا، جہاں کام کرنے کے مواقع کم اور بے روز گاری حد سے زیادہ ہو۔ صحیح سمت بتانے والے کم اور غلط راہ کی طرف دھکا دے دینے اور آپ کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے والے کثیر تعداد میں موجود ہوں۔ جہاں حوصلہ افزائی کرنے والے نہ ہونے کے برابر ، اور تنگ دل اور جن کا کام ہر راہ چلتے کے حوصلوں کو پست کرنا ہے، کی بھرمار نظر آئے۔ ایسے ماحول میں پنپنااور "grow" کرنا ایک کارِ کٹھن ہے۔ البتہ ایسے ماحول میں وہ لوگ اپنی زندگی میں کچھ ڈھنگ کا ضرور کر لیتے ہیں ، جو اپنی تعلیمی سفر کے دوران ہی کسی خاص شعبہ، فن یا ہنر(skill) کا تعین کرکے اسے وقت کے ساتھ بہتر سے بہتر بنانے میں لگے رہتے ہیں، حتی کہ وہ اس میں بہترین اور بے مثال بن جاتے ہیں، اور پھر دنیا کی مانگ پر ان کے ہنر کی بدولت کیے جانے والے کام ہاتھوں ہاتھ بکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کس ہنر کا انتخاب کریں۔ تو یاد رکھئے گا کہ وہ کام جسے کرنے سے آپ کو خوشی ملے ، جس کا کرنا آپ کا شوق ہو ،آپ کی طبیعت کا عکاس ہو ، یا جس کی آپ کے اندر قدرتی صلاحیت ہو، وہی کام آپ کے لیے ایک ہنرِ بے مثال بن سکتا ہے۔ پھر آپ جب اس ہنر پر محنت کرتے ہیں ، تو آپ "excellence" یعنی مہارت کی منازل طے کرتے جاتے ہیں، حتی کہ آپ عدیم المثال ہوجاتے ہیں۔ پھر یہ مہارت آپ کی شخصیت کی "strength" قوت بن جاتی ہے۔ اب آئیے اس پر بات کرلیں کہ ایکسیلنس کیا ہے اور اس مادی زندگی میں اسے کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بقول یونانی فلسفیوں کے کسی شعبہ ہائے زندگی میں اعلی ترین یعنی "highest good" کو حاصل کر لینے کو "excellence" کہا جاتا ہے ۔ افلاطون کا کہنا ہے کہ انسان دراصل ایک ایسی گھوڑا گاڑی کا سوار ہے جس میں دو گھوڑے بندھے ہیں۔ ایک گھوڑا سفید ہے ، جو عزت، وقار اور حیثیت کا عکاس ہے۔ اِسے دنیا کی اورکسی چیز سے سروکار نہیں۔ ہاں ،البتہ تعریف اور تنقید وہ محرکات ہیں جو اس کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں۔ دوسرا گھوڑا کالے رنگ کا ہے۔ یہ دنیا وی عیش و عشرت کا خاکہ اتارتا ہے۔ اسے بھی کسی چیز کا ڈر یاخوف نہیں ۔ لیکن سوار کی چابک سے اسے بے حد ڈر آتا ہے۔ مسافر اڑنا چاہتا ،اور اِس پرواز کے ذریعے "excellence" کو پہنچنا چاہتا ہے۔ـ مسافر اپنے بل بوتے پر اُڑ نہیں سکتا۔ اسے اس سواری کا سہارا لینا ہے، کیوںکہ یہ دونوں گھوڑے اُڑنے کی قابلیت تورکھتے ہیں، مگر انسان ازخود اپنے اندر، اسکی ہمت اور استعداد نہیں پاتا۔ افلاطون کا کہنا ہے کہ "excellence" کے حصول کے لیے آپ کو "status" اور "pleasure"کو پسِ پشت ڈال کر، ان سے بے نیازی اختیار کرنا ہے، تبھی آپ اس منزل کو پہنچ سکتے ہیں جس کی آپ تلاش میںسرگرداں ہیں۔ لیکن یہ انسان کے بس میں نہیں کیوں کہ انسان اپنے فطری عوامل کو مکمل طور پر نہیں مٹا سکتا۔ اس لیے انسان کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ انسانی فطرت کی ان دونوں سواریوں کو اعتدال کے ساتھ لیکر چلے تاکہ وہ اپنی منازل طے کر سکے۔ ارسطو کے خیالات اس سے بھی دلچسپ ہیں۔ وہ یہ کہتا ہے کہ سب سے پہلے انسان اپنے وقت کی تقسیم کو ممکن بنائے۔ ایک دن کو تین حصوں میں تقسیم کرے جس میں سے ایک حصہ اپنے روز مرہ کے کاموں کو، دوسرا حصہ آرام کو اور تیسرہ حصہ ان عوامل کو دے، جو آپ کے لیے کسی خاص کام میں "excellence" کو حاصل کرنا ممکن بناسکے ۔ دوسرا کام ارسطو کے مطابق یہ ہے کہ انسان ایسی تعلیم کا تعین کرے جو اس کی قابلیت اور اوصاف کو مزید بہتر بنانے میں مدد کرے۔ تیسرا یہ کہ وہ اپنے اندر تخلیقی صلاحیت کو پیدا کرنے کی کوشش کرے، جو اسے باقیوں سے کسی خاص شعبہ یا ہنر میں منفرد بنا سکے۔ بقول ارسطو کے اس کا آسان راستہ یہ ہے کہ آپ اپنے ہنر سے جڑی عادات کو تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھنا شروع کردیں۔ اپنے آپ سے یہ سوال کریں ، جس کا مقصد صرف اور صرف یہ جاننا ہو ،کہ آپ یہ سب کیوں کرتے آئے ہیں اور آگے کیوں کرنے جا رہے ہیں۔ جب آپ مقصد کو جان جائیں گے پھر آپ کے لیے مستقل مزاج ہوجانا آسان ہوجائے گا اور آپ رہ روِ منزل رہیں گے۔ چوتھا اور آخری نسخہ یہ کہ اپنے آپ کو ایک اچھا ماحول مہیا کریں کہ جس میں آپ کی صلاحیتیں پنپ سکیں۔ اُن لوگوں کے ساتھ گپ شپ کریں اور اُن کی مجالس اختیار کریں جو آپ کو کچھ سیکھنے اور آپ کے ہنر اور قابلیت کو بہتر بنانے میں مدد دے سکیں۔ بظاہر یہ ساری باتیں بڑی ہی کتابی اور خشک محسوس ہوتی ہیں ، لیکن ان کے کارآمد ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ البتہ اسی کو سب کچھ سمجھ لینا بھی عقل مندی نہیں، کیوں کی کامیابی کے لیے قابلیت کے ساتھ ساتھ قبولیت بھی درکار ہے۔ اور قبولیت انسان کو مقدر کا سکندر بنا دیتی ہے۔ محنت کے ساتھ ساتھ دعا کرتے رہئے اور دعائیں لیتے رہئے ۔ اشفاق صاحب کے ہاں کامیابی کا آسان کلیہ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا تھا، سو دوسروںمیں آسانیاں تقسیم کرتے رہئے،۔باقی رہی بات ناکامیوں کی تو بقول فیض: مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے لیکن مرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے