کون حاکم وقت کو سمجھائے کہ کاروبار حکومت طنز اور طعنے سے نہیں چلتا۔ اقتدار بڑی دلچسپ شے ہے۔ لیلائے اقتدار سے وصل کی پہلی پہلی قربتوں میں ہی صاحب اقتدار کی سوچ اپروچ میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ آنکھوں پر ایک غیر مرئی پٹی بندھ جاتی ہے‘ اپنے بیگانے اور پرائے اپنے لگنے لگتے ہیں۔ خوشامد کے عطر میں رچے بسے تجزیے اور تبصرے اچھے محسوس ہوتے ہیں۔ اپنوں کے فکر انگیز تجزیوں کو سننے کی اول تو حاکم وقت کے پاس فرصت ہی نہیں ہوتی ہے اور اگر وہ سن بھی لے تو اس کا اولین ردِعمل یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ اقتدار کے تقاضوں اور وسعتوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ آنجہانی اردشیر کائوس جی بڑے ممتاز کالم نگار تھے، ان کا کالم غالباً ہفتے میں ایک بار چھپتا تھا، جس کا سارا ہفتہ انتظار کیا جاتا تھا۔ ان کے کالم نگار بننے کا پس منظر بڑا دلچسپ ہے۔ پارسی مذہب سے تعلق رکھنے والے کائوس جی کراچی کے ایک تجارتی خاندان کے چشم و چراغ تھے، ان کے والد رستم کائوس جی شپنگ کے بزنس سے وابستہ تھے۔ قیام پاکستان کے وقت اس شعبے میں ان سے بڑا کوئی تاجر نہ تھا۔ اردشیر کائوس جی کے ساتھ بھٹو کی دوستی تھی۔1973ء میں بھٹو نے کائوس جی کو پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کا ایم ڈی لگا دیا۔ اس دوران کائوس جی بھٹو صاحب کے آمرانہ اقتصادی و سیاسی اقدامات سے سخت نالاں ہو گئے۔ انہوں نے اپنے دوست کو سیدھی راہ دکھانے کی کوشش کی تو و ہ اور بگڑ گئے۔ کائوس جی نے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے انگلش اخبار میں ’’لیٹر ٹو ایڈیٹر‘‘ لکھنے شروع کر دیے۔یہ لیٹر بہت مقبول ہونے لگے۔ ان خطوط میں بھٹو صاحب کے ’’ون مین رول‘‘پر تنقید ہوتی تھی۔ بھٹو صاحب نے اردشیر کائوس جی کے ساتھ اپنی دوستی کا خیال کئے بغیر انہیں بھی جیل میں ڈال دیا۔ کائوس جی کو 1976ء میں 72روز تک پس دیوار زنداں رہنا پڑا۔ جناب عمران خان نے ابھی اپنے نقاد دوستوں کو جیل تو نہیں بھیجا مگر محسوس یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے دوستوں کی تنقید پر خوش نہیں۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا ہائی پرو فائل اتحاد قائم ہو گیا ہے۔ اتحاد کا ایک اہم مقصد حکومت کو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ٹف ٹائم دینا ہے۔ یہ اتحاد حکومتی نوازشات کا کرشمہ ہے یا مولانا فضل الرحمن کی کوششوں کا نتیجہ ہے؟ مولانا نے تو حکومت کے قیام سے پہلے اس اتحاد کے لئے بھاگ دوڑ شروع کر دی تھی مگر انہیں آصف علی زرداری کی طرف سے اور نہ ہی میاں نواز شریف کی طرف سے خاطر خواہ پذیرائی ملی۔ حزب اختلاف نے متحدہ لیڈر آف دی اپوزیشن لانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے شہباز شریف کا نام پیش کیا۔ اس پر پیپلز پارٹی ڈٹ گئی اور انہوں نے شہباز شریف کے نام پر اتفاق کرنے سے انکار کر دیا اور یوںمتحدہ اپوزیشن کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور مولانا کی شٹل ڈپلومیسی کوئی رنگ نہ لاسکی۔ اب اگر انہی شہباز شریف کے ساتھ سابق صدر آصف علی زرداری گلے ملنے پر آمادہ ہو گئے ہیں تو اسے حکومتی نوازشات کا کرشمہ ہی کہا جائے گا۔ آ عندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں تو ہائے گل پکارمیں چلائوں ہائے دل ہمارے حکمران چونکہ تاریخ سے کوئی سبق حاصل کرتے ہیں اور نہ ہی حکماء کی باتوں پر غور کرتے ہیں وگرنہ اہل حکمت و دانش کہا کرتے تھے کہ کسی دشمن کے بارے میں بھی خوب سوچ سمجھ کر بولا کرو۔ مبادیٰ کبھی اس سے دوستی کرنا پڑ جائے تو اس موقع پر تمہاری نظریں شرم کے مارے جھکی ہوئی نہ ہوں۔ یہ تو میاں شہباز شریف ہی بتا سکتے ہیں کہ جس شخص کو وہ سڑکوں پر گھسیٹنے اور الٹا لٹکانے کی باتیں کیا کرتے تھے، انہیں اسی شخص کو گلے لگانا پڑا۔تو اس موقع پر ان کی جیبیں عرق آلود تھی یا نہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فاصلے بڑھانے میں حکومت کے گرم گفتار ترجمانوں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ کہنے کو تو یہ حکومت کے ترجمان ہیں مگر وہ حکومت کی ہی نہیں نیب کی بھی ترجمانی کرتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کی بھی ترجمانی کرتے ہیں۔ حکومت کے پہلے سے موجود ترجمان کیا کم تھے کہ اوپر سے ایک اور ترجمان کا گزشتہ روز نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ اس وقت نعیم الحق، افتخار درانی اور فواد چودھری حکومتی ترجمان ہیں اور پنجاب میں ہونے کے باوجود فیاض الحسن بھی اپنے تئیں بڑے شعلہ بیان ترجمان ہیں اور سب سے بڑھ کر خود عمران خان اپنے ترجمان ہیں وہ ٹویٹ کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے جبکہ سیانے کہتے ہیں کہ کسی بات پر غصے میں فوری ردعمل ظاہر نہ کیا کرو۔ حکومت کے نئے ترجمان ہمارے گرائیںندیم افضل چن ہیں۔ چن صاحب تو شیریں مثال ہیں اور دلیل سے بات کرتے ہیں۔ مجھے ڈر یہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے ترجمانوں کا طرز گفتگو تو نہیں بدل سکتے۔ کہیں انہیں اپنا انداز بیاں ہی نہ بدلنا پڑ جائے۔ میرے ایک کزن پی ٹی آئی کے سینئر رہنما ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا حال احوال ہیں کہنے لگے تمہیں معلوم ہے کہ ہمارا خاندان گزشتہ ستر اسی برس سے خار زار سیاست میں آبلہ پائی کر رہا ہے اور نصف صدی سے تو میں خود بھی اس دشت کی سیاحی کر رہا ہوں۔ ہم نے تو ایک ہی بات دیکھی ہے کہ لوگوں کا پیٹ روٹی سے بھرتا ہے باتوں سے نہیں۔ آپ چاہے جتنے لوگوں کو پکڑ لیں‘ چاہے کتنے اربوں کھربوں واپس لانے کے دعوے کریں مگر جب تک عام آدمی کی زندگی میں بہتری نہیں آئے گی اور وہ آسودہ حال نہیں ہو گا تو وہ آپ کی بات نہیں سنے گا۔ ہمارے بھائی نے تو عام کی زندگی میں بہتری لانے کی بات کی ہے۔ اس کی زندگی میں بہتری نہیں ابتری آئی ہے۔ گیس اور بجلی کی قیمتیں فی الواقع پہلے سے بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ ڈالر کی قدر میں 35فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ درآمدی اشیاء کی قیمتیں بہت اوپر چلی گئی ہیں۔ پاکستانی سرمایہ کار ڈر کے مارے سہم گئے ہیں۔ بیرون ملک سے سرمایہ کاری آ نہیں رہی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے آنے والا زرمبادلہ بھی پہلے سے کم ہو گیا ہے۔جاتے جاتے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار بھی پی ٹی آئی کو چارج شیٹ دے کر جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا لگتا ہے کہ حکومت ڈیم بنانے میں سنجیدہ نہیں اور نہ ہی حکومت میں کوآرڈی نیشن ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ پس پردہ کیا ہو رہا ہے اور نہ ہی ہم نے اس کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے۔ ہمیں جو کچھ پردہ سکرین پر نظر آ رہا ہے اسے دیکھ کر یہی گزارش کریں گے کہ جو جس کا کام ہے اسے کرنے دیں اور خود وزیر اعظم صدق دل کے ساتھ اپنے خیر خواہوں کی بات سنیں۔ فی الفور اپنی معیشت ٹھیک کریں عوام کو ریلیف دیں اور اپوزیشن کے ساتھ ٹینشن کم کریں۔ حکومت کا یہی رویہ رہا تو متحدہ اپوزیشن فی الحقیقت حکومت کو سینٹ اور قومی اسمبلی میں ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں آ جائے گی۔ اسی لئے تو عرض کیا تھا کہ متحدہ اپوزیشن مولانا فضل الرحمن کی کوششوں کا نتیجہ نہیں حکومتی نوازشات کا کرشمہ ہے۔