متحدہ عرب امارات ایک بڑی تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔اس ملک نے حالیہ دنوں میںخود کو مغربی دنیا کے لیے زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنانے کی غرض سے متعدد اقدامات کیے ہیں ۔حال ہی میں امارات نے اسلامی قوانین کی بجائے ایسے قوانین متعارف کروائے ہیں جو مغربی تہذیب سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ’دی نیشنل ‘امارات کا ایک بڑا انگریزی اخبار ہے۔ اس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امارات کی حکومت نے کئی قوانین میں تبدیلیاں کی ہیں جنکا تعلق نجی اور خانگی زندگی سے ہے۔مثال کے طور پر خود کشی کو جرائم کی صف سے باہر نکال دیا ہے۔ پہلے امارات میں شراب لائسنس کے ذریعے حاصل کی جاسکتی تھی۔ اب لائسنس کی شرط کو ختم کردیا گیا ہے۔غیرت کے نام پر جو جرائم ہوتے ہیں انکی سزا کم کردی گئی ہے۔حکومت نے اجازت دے دی ہے کہ غیر شادی شدہ مرد ‘ عورت ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اخبار کے مطابق یہ ’ترقی پسندانہ‘ اقدامات معیار اندگی بہتر بنانے کی خاطر کیے گئے ہیں تاکہ دنیا بھر سے سرمایہ کار متحدہ عرب امارات میں سرمایہ کاری کے لیے آتے رہیں۔ نئے قوانین کے تحت امارات میں رہنے والے غیر ملکی اب اپنے اپنے ملک کے قوانین کے تحت طلاق اور وراثت کی تقسیم کرواسکتے ہیں۔ سب شہریوں کے لیے ایک قانون کا اطلاق لازمی نہیں ہوگا۔ پندرہ نومبر کودبئی کے امیرشیخ محمد بن راشد المختوم نے ایک بڑا علان کرتے ہوئے امارات کیلئے ویزہ حاصل کرنا آسان بنادیا۔کمپیوٹر سائنس‘ الیکٹرانکس‘ پروگرامنگ‘ بجلی اور بائیوٹیکنالوجی‘ مصنوعی ذہانت‘ بڑے ڈیٹا ‘ وائرس کے امور سے تعلق رکھنے والے انجینئر اور سائنس دان اور انکے اہل خانہ کو دس برس کے لیے ’سنہری‘ ویزہ جاری کیا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ امارات دنیا کے قابل ‘ تعلیم یافتہ افراد کو اپنے ملک میں کھینچنا چاہتا ہے تاکہ جدید ترین معیشت کو فروغ دیا جاسکے۔امارات پہلے ہی دولت مند افراد کو طویل مدت ویزے جاری کرنے کی پالیسی اختیار کرچکا ہے۔ یہ وہی طریقہ ہے جو یورپ‘ کینیڈاا اور امریکہ اختیار کرتے آرہے ہیں تاکہ ساری دنیا سے قابل ترین لوگ ان کے ملکوں میں جمع ہوتے رہیں۔ ترقی پذیر ملکوں سے جوہر قابل اپنے ملک چھوڑ کر وہاں چلے جاتے ہیں ۔ اسے برین ڈرین (ذہانت کا انخلا) کی اصطلاح کا نام دیا جاتا ہے۔ تقریباً ایک کروڑ آبادی پر مشتمل متحدہ عرب امارات سات ریاستوں کا ایک وفاق ہے جن میں ابو ظہبی‘ دبئی‘ اجمان‘ شارجہ‘ فجیرہ‘ راس الخیمہ اور ام القوین شامل ہیں۔صرف چودہ لاکھ آبادی مقامی ہے۔باقی سب غیر ملکی ہیں جو کام کاج کی غرض سے یہاں مقیم ہیں۔ انیس سو پچاس تک امارات ایک پسماندہ ‘ غریب ملک تھا جس کے لوگوں کا انحصارماہی گیری اور موتیوں کی صنعت ر تھا۔ موتیوں کی صنعت زوال پذیر ہوچکی تھی۔ پھرانیس سو پچا س میں یہاں تیل دریافت ہوگیا تو اس ملک کی قسمت بدلنے لگی۔ اصل تبدیلی انیس سو باسٹھ میںآئی جب امارات نے پیٹرولیم مصنوعات برآمد کرکے مال کمانا شروع کیا۔ بتدریج یہ ملک سیاحت اور تجارت کا مرکز بنتا چلا گیا۔ اسوقت یہ صرف مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ دنیا کے بڑے تجارتی اور بینکاری کے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ امارات کے حکمرانوں نے شروع سے نسبتاآزاد خیال پالیسیاں اختیار کیں۔ آجکل شیخ خلیفہ بن زاید متحدہ عرب امارات کے صدر ہیں جنہیں ایک مغرب نواز، جدیدیت کا علمبردار سمجھا جاتا ہے ۔ یہ ملک سعودی عرب کا قریبی اتحادی ہے۔یمن میں بھی سعودی عرب اور امارات نے ملکر حوثیوں سے جنگ کی۔ امارات کے صدر کا اثر و رسوخ امریکہ میں اتنا بڑھ چکا ہے کہ انہیں واشنگٹن میں سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز سے اگر زیادہ نہیں توکم سے کم ان کے برابر اہمیت حاصل ہے۔مشرق وسطیٰ کے بعض سیاسی ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس وقت عرب ملکوں کی قیادت دراصل متحدہ عرب امارات کے پاس ہے۔یہ تاثرعام ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کودیگر شاہی شہزادوں کی بجائے امریکہ کے قریب رکھنے میںامارات کے صدر کا اہم کردار ہے۔ چونکہ متحدہ عرب امارات کی سرحدیں جزیرہ نما عرب‘ خلیج فارس اور خلیج عمان تینوں سے ملحق ہیں‘ یہ امریکہ کے لیے تزویراتی (اسٹریٹجک) طور پر بہت اہمیت کا حامل ملک ہے جہاں امریکی افواج کی سینٹرل کمانڈ اسکی فوجی سہولیات اوربندرگاہیں استعمال کرتی ہے۔ مِنا جبل علی اورمِنا زاید کی بڑی بڑی بندرگاہیں امریکی جنگی بحری بیڑوں کے زیر استعمال رہتی ہیں جہاں انکی مرمت اور دیکھ بھال کا کام کیا جاتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی خارجہ پالیسی بہت تیزی سے یورپی‘ مغربی مفادات سے مزید ہم آہنگ کی جارہی ہے۔ عرب ممالک بشمول امارات ترکی اور ایران کو اپنا برا حریف سمجھتے ہیں اور ان دو ملکوں کے اثر و رسوخ کو کم یا ختم کرنا انکا ہدف ہے۔ سب سے اہم‘ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرکے اس سے باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کیے اور اسرائیل اورامارات کے درمیان فضائی سروس شروع کردی گئی ہے۔ امارات میں اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کو ایک بڑا مرکزقائم کرنے کی اجازت دیدی گئی ہے۔ جب آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ ہورہی تھی تو ابوظہبی کے کراؤن پرنس شیخ محمد بن زید نے ابوظہبی میں آرمینیا کے صدر آرمن سرکسیاں سے ملاقات کی جو ان سے اظہار یکجہتی کا اظہار تھا حالانکہ آذربائیجان ایک مسلمان ملک ہے جبکہ آرمینیا غیر مسلم۔ آذربائیجان کا موقف اصولی ہے اور اپنی علاقائی سلامتی پر مبنی ہے۔ درحقیقت عرب ممالک ترکی کی مخالفت میں اتنا آگے جاچکے ہیں کہ وہ ترکی کے ہر اتحادی کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔اس معاملہ میں آذربائیجان کو ترکی کی حمایت اور مدد حاصل تھی۔ حال ہی میں کورونا کے بہانہ پاکستان کے شہریوں کے امارات کیلئے وزٹ اور ورک ویزے بند کردیے گئے ہیں۔ بہانہ تو کورونا کا ہے لیکن اصل مقصد یہ ہے کہ پاکستان ریاست اسرائیل کو تسلیم کرے اور اس سے سفارتی تعلقات قائم کرے اور ترکی سے پینگیں نہ بڑھائے۔ عرب ممالک بشمول متحدہ عرب امارات ترکی کو اپنے لیے اسرائیل سے زیادہ بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں امارات حکومت کے اقدامات کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان پر معاشی دباؤبڑھایا جائے اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا جائے کیونکہ پاکستان کے لاکھوں شہری امارات میں مزدوری کرکے زرمبادلہ اپنے گھروں کو بھیجتے ہیں۔ اگر آج پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہوتا‘ ہمارے لوگوں کو اپنے ملک میں ہی روزگار ملتا تو ہم عرب ملکوں کے سامنے اتنے مجبور نہ ہوتے۔