ابوظہبی کے ولی عہد اور یو اے ای کے ڈپٹی سپریم کمانڈر شیخ محمد بن زید النہیان کے ایک روزہ دورہ کے دوران پاکستان کے لئے 6.2ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کے معاملات طے پا گئے ہیں۔ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ یو اے ای کا امدادی پیکیج اور اس کی شرائط سعودیہ کے پیکیج جیسی ہی ہوں گی۔ یہ پیکیج حجم کے اعتبار سے بھی سعودی مدد کے مساوی ہو گا۔ متحدہ عرب امارات کی طرف سے امدادی پیکیج ملنے کے بعد دونوں برادر ممالک سے پاکستان کو تیل اور گیس کی درآمد کی مد میں 7.9ارب ڈالر کی بچت ہو گی۔ یہ رقم پاکستان کی تیل و گیس درآمدات کی مجموعی رقم 12سے 13ارب ڈالر کا 60فیصد ہے۔ پیکیج کے تحت 3ارب ڈالر کی رقم 2.8فیصد شرح منافع کے حساب سے پاکستان کو ملے گی جبکہ 3.2ارب ڈالر کا تیل ادھار پر فراہم کیا جائے گا۔ ابو ظہبی کے ولی عہد کا وزیر اعظم عمران خان نے خود استقبال کیا۔ عرب امارات کے وفد کی پاکستانی حکام سے الگ ملاقات میں باہمی تجارتی اور دفاعی تعاون کے منصوبوں پر مذاکرات ہوئے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ولی عہد محمد بن زید النہیان نے دو طرفہ تجارتی تعاون بڑھانے کی خاطر خصوصی ٹاسک فورس قائم کرنے پر اتفاق کیا۔ وزیر اعظم نے ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور وہاں کشمیری مسلمانوں کی حالت زار سے بھی آگاہ کیا۔ سابق حکومت اور اس کے سربراہ میاں نواز شریف کے عرب ممالک کے ساتھ خصوصی تعلقات کا تاثر دیا جاتا رہا ہے۔ میاں نواز شریف جب تیسری بار وزیر اعظم بنے تو سعودی عرب نے انہیں ڈیڑھ ارب ڈالر فراہم کئے تاکہ وہ اقتدار سنبھالتے ہی ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنا سکیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس میں سے 500ارب روپے گردشی قرض اتارنے کی مد میں حکومت نواز شخصیات کے پاور پلانٹس کو دیدیے گئے۔ بہت سے دوسرے بجلی گھر واجبات کے حصول میں ناکام رہے۔ یہ رقم کہاں کہاں خرچ ہوئی اس کا حساب کبھی ن لیگی حکومت نے پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا حالانکہ اپوزیشن اس سلسلے میں متعدد بار سوال اٹھاتی رہی۔ ترکی‘ چین اور دیگر دوست ممالک کی جانب سے قرض‘ امداد اور تجارتی و سرمایہ کاری کے جو معاہدے ہوئے ان پر کبھی پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان معاہدوں کو عوامی سطح پر ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھا گیا اور شریف خاندان کو بیرونی سرمایہ کاری کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا خاندان سمجھا جانے لگا۔ سابق حکمران خاندان کے غیر دستاویزی اثاثوں اور املاک کے سامنے آنے پر شکوک مزید پختہ ہو گئے۔ وزیر اعظم عمران خان کے پاس مالیاتی بحران سے نکلنے کے دو راستے تھے۔ پہلا راستہ آئی ایم ایف کی طرف جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرض کے ساتھ شرح سود اگرچہ 2فیصد کے لگ بھگ ہوتی ہے مگر قرضوں کے ساتھ ایسی شرائط منسلک کر دی جاتی ہیں جو مقروض ملک کی گورننس اور داخلی پالیسیوں کو ان ممالک کا غلام بنا دیتی ہیں جو آئی ایم ایف کو چلاتے ہیں۔ برازیل‘ ارجنٹائن اور کئی دیگر ممالک آئی ایم ایف کے ذریعے مالیاتی مسائل کا حل تلاش کرتے کرتے گہری دلدل میں دھنس گئے تھے۔ آئی ایم ایف کسی ملک کی مجبوری کی شدت کے حساب سے شرائط ترتیب دیتا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے سابق حکومتوں کی نسبت دانشمندی کا ثبوت دیا اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے علاوہ دوست ممالک سے بات چیت بھی شروع کر دی۔ دوست ممالک مختلف وجوہات کی بنا پر پاکستان سے بدگمان تھے۔ ان سے مدد کی درخواست اس وقت تک موثر نہیں ہو سکتی تھی جب تک خارجی تعلقات کے ضمن میں دوستوں کی شکایات کو اہمیت نہ دی جاتی۔ گزشتہ دو حکومتوں کی غفلت کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہو گا کہ زرداری اور نواز خاندان آئے روز متحدہ عرب امارات جاتا رہتا ہے۔ وہاں ان کے اثاثے ہیں۔ عرب امارات سے ہر با اثر سیاستدان نے اقامہ بنا رکھا ہے۔ اس عمل سے پاکستانی سیاستدانوں کے متعلق سعودی عرب اور عرب امارات میں ایک منفی تاثر پیدا ہوا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی گزشتہ چار ماہ کے دوران شیخ محمد بن زید النہیان سے یہ تیسری ملاقات ہے۔ تینوں ملاقاتوں کی تفصیل بتاتی ہے کہ دونوں رہنمائوں کے درمیان ذاتی مفاد پر مبنی کسی معاملے پر بات نہیں ہوئی بلکہ بات چیت کا ایجنڈہ کلی طور پر پاکستان کے قومی مفاد کا احاطہ کئے رہا۔ ابوظہبی کے ولی عہد کا دورہ سرمایہ کاری کے دروازے کھولنے میں مدد دے سکتا ہے۔ وفود کی سطح پر ہونے والی بات چیت میں مہمان وفد نے پاکستان میں آئیل ریفائنری لگانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ تجارت میں اضافہ باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے کا موثر ذریعہ ہے۔ پاکستان کے خارجہ تعلقات میں سب سے بڑی خرابی یہی آئی ہے کہ ہم نے احتیاج اور ضرورت کی بنیاد پر دوسرے ممالک سے تعلق رکھا۔ امریکہ ہمارا ساٹھ سال تک اتحادی رہا۔ ایٹم بم بنانے کے سوا ہم کوئی فائدہ نہ لے سکے۔ نہ صنعت پائوں پر کھڑی ہو سکی نہ زراعت خود کفیل بن سکی۔ خلائی ٹیکنالوجی میں ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ مسئلہ کشمیر حل کرانے میں ہم امریکہ کی طاقت اور دوستی کو استعمال نہ کر سکے۔ امریکہ کے لئے ہم نے جو کام کیا اس کی تکمیل پر ہم بار بار امریکہ کے لئے اجنبی بنتے رہے۔ سعودی عرب متحدہ عرب امارات ‘ ترکی‘ چین‘ ایران افریقی ممالک، لاطینی امریکہ اور یورپ کے ساتھ ہمارے تعلقات میں تجارتی مفاد بہت کمزور ہے۔ ضرورت کے وقت ہم مدد کی درخواست کرتے ہیں تو ہماری حکومت اور ریاست کا وقار جاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اچھا کیا کہ ترک صدر رجب طیب اردگان کے بعد ولی عہد ابوظہبی شیخ محمد بن زید النہیان کے سامنے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال رکھی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان کے لئے امدادی پیکیج اس بات کی علامت ہے کہ دیرینہ دوست ممالک کا پاکستان کی نئی حکومت پر اعتماد بڑھ رہا ہے اور وہ باہمی تعلقات کی ترجیحات کے ضمن میں پی ٹی آئی حکومت پر بھروسہ کرنے کو تیار ہیں۔